رحیم یارخان کے نواحی علاقے چوک بہادر پور کی طاہرہ پروین تین بچوں کی ماں ہیں۔ انہوں نے گھر میں چارہ کاٹنے والی برقی مشین لگا رکھی ہے جسے عرف عام میں ٹوکہ مشین کہا جاتا ہے۔ ان کے شوہر ارشد علی اس مشین سے بھینس کے لیے چارہ کاٹتے ہیں۔ ایک روز وہ کہیں گئے ہوئے تھے کہ چارہ ختم ہو گیا۔ طاہرہ پروین نے ٹوکہ مشین سے چارہ کاٹنا شروع کیا لیکن ان کا ہاتھ اس میں پھنس گیا اور وہ چیخ اٹھیں۔اس پر ان کی ساس آمنہ بی بی نے کمرے سے باہر آکر برقی مشین کا بٹن بند کیا۔ اس دوران طاہرہ کا ہاتھ بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔
انہیں شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال کی ایمرجنسی میں لایا گیا جہاں ڈاکٹروں کو ان کے ہاتھ کا آپریشن کرنا پڑا۔ اب ان کے زخم کو بھرنے میں کئی ماہ لگیں گے۔
شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال میں ہڈیوں کے شعبے کے ڈاکٹر نصیر احمد چوہدری بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں ٹوکہ مشین سے زخمی ہونے والے مریضوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔ 2016ء سے 2022ءکے دوران ڈھائی ہزار سے زیادہ ایسے مریض ہسپتال لائے گئے جو ان مشینوں کی زد میں آ کر زخمی ہوئے تھے۔ ان میں 756 مرد اور 1764 عورتیں اور بچے تھے۔
ڈاکٹر نصیر نے بتایا کہ ان کے پاس پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے زخمی علاج کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد زراعت سے وابستہ ان عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے جنہیں اپنے جانوروں کا چارہ تیار کرنے کے لیے مشین پر کام کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کے استعمال کی تربیت نہیں دی جاتی اس لیے تواتر سے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ روزانہ ایسے ایک سے چھ مریض یہاں داخل کیے جاتے ہیں۔
"اذیت ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پاس آنے والے بہت سے مریضوں کے ہاتھ اور بازو کٹے ہوتے ہیں اور انہیں ری پلانٹ نہیں کیا جا سکتا یا دوبارہ جوڑ کر کارآمد نہیں بنایا جا سکتا۔"
وہ سمجھتے ہیں کہ ان حادثات کی روک تھام کے لیے منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ یا تو لوگوں کو ان مشینوں کے استعمال کی تربیت دی جائے یا ان کا ڈیزائن تبدیل کر کے انہیں محفوظ بنایا جائے۔
شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال میں شعبہ امراض ہڈی و جوڑ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محسن ورک کہتے ہیں کہ اگر مریض کی ایک انگلی بھی کٹ جائے تو وہ معذور شمار ہو گا۔ قوانین کے مطابق اگر مریض کے ہاتھوں کی ٹپس یا پوریں کٹ جائیں تو یہ مائلڈ یعنی ابتدائی معذوری ہو گی۔اگر پوری انگلیاں یا آدھا ہاتھ کٹ جائے تو یہ موڈریٹ یعنی درمیانی معذوری سمجھی جائے گی اور اگر پورا ہاتھ کٹ جائے تو مریض سیویئر یعنی شدید معذور گنا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کا انگوٹھا مشین میں آ کر کٹ جائے تو وہ 40 فی صد ہاتھ سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک ہاتھ کو بچاتے دوسرا ہاتھ مشین میں آ سکتا ہے اسی لیے ہسپتال آنے والے 100 زخمی مریضوں میں سے دو کے دونوں ہاتھ کٹے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹوکہ مشینیں بہت خطرناک ہیں جس پر حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ موجودہ ٹوکہ مشینوں کا استعمال بند کیا جائے یا ان کا ڈیزائن تبدیل کر کے انہیں محفوظ بنایا جائے کیونکہ یہ دیہات میں جسمانی معذوری کا اب سب سے بڑا سبب بن گئی ہیں۔
کرائم رپورٹر رضوان اختر کے مطابق چارہ کاٹنے والی ٹوکہ مشینیں اس علاقے میں ہزاروں لوگوں کو زخمی اور اپاہج کر چکی ہیں لیکن تاحال ان کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جا سکی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ ایمرجنسی میں رپورٹنگ کے لیے ڈیٹا لینے جاتے ہیں اور ایک ہفتے میں کم از کم پانچ دن ٹوکہ مشین کے زخمی علاج کے لیے لائے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مشین پر حکومت فوری پابندی لگائے اور محفوظ طریقے سے چارہ کاٹنے والی مشینوں ہی کے استعمال کی اجازت دے۔
شہر سے 15 کلومیٹر دور گاؤں تاج گڑھ کے کاشت کار رانا اشفاق احمد نے بتایا کہ اس مشین پر حادثے سے بچنے کے لیے احتیاط ضروری ہے۔جلد بازی حادثے کا باعث بنتی ہے۔ ان کے گھر میں بھی یہ مشین موجود ہے اور کئی سال سے وہ روزانہ اسے استعمال کرتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کی بدولت ان کے ہاں کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
جو چلے تو جاں سے گزر گئے: واسا فیصل آباد کے مسیحی مزدوروں کو درپیش جان لیوا خطرات
نواحی گاؤں سردار گڑھ کے کاشت کار سیف علی کے مطابق ٹوکہ مشینوں سے کاٹے جانے والے لوسن اور برسیم کے پودے چھوٹے اور کماد، جوار اور مکئی کے بڑے ہوتے ہیں۔ چھوٹے پودوں کو ٹوکہ مشین میں تیزی سے ڈالا جا رہا ہو تو ہاتھ کے اس کی زد میں آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر پرانے ڈیزائن کی ٹوکہ مشینوں کی بجائے چائنہ ماڈل مشینوں کا استعمال کیا جائے تو ان حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہیں کہ ان میں ہاتھ نہیں بلکہ صرف چارہ ہی آگے جا سکتا ہے۔ تاہم ٹوکہ مشنیوں کے کاروبار سے وابستہ دکان دار میاں اظہر جمیل کا کہنا ہے کہ علاقے میں مقامی طور پر تیار کردہ روایتی ٹوکہ مشینیں ہی دستیاب ہیں اور چین کے ماڈل کی مشینیں لوکل مارکیٹ میں نہیں ملتیں۔
تاریخ اشاعت 7 ستمبر 2023