چترال، سوات، شانگلہ، دیر اور مانسہرہ ، وہ علاقے ہیں جہاں سردیوں کا آغاز برف باری کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا تھا، لیکن اس مرتبہ دسمبر کے آخیر تک بھی یہ وادیاں برف سے محروم ہیں۔ یہ محض موسم کی تاخیر نہیں، بلکہ ایک خاموش وارننگ ہے جس نے پانی، زراعت، صحت اور معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق بارشوں میں طویل وقفے کی وجہ سے جہاں پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، وہاں موسمی بیماریوں میں بھی تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
مشاہدات سے سائنسی حقائق تک: ایک بدلتا ہوا منظر نامہ
چترال کے رہائشی محمد کریم کے مشاہدات اس تبدیلی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جہاں پہلے دو سے چار فٹ تک برف پڑتی تھی، اب بعض علاقوں میں پورے موسم میں صرف چند انچ برف ہی گرتی ہے جو دھوپ لگتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
ان کے بقول، بالائی پہاڑوں پر موجود وہ گلیشیئر جو کبھی پورا سال سفید نظر آتے تھے، اب گرمیوں میں یا تو بہت سکڑ جاتے ہیں یا دکھائی ہی نہیں دیتے۔
محمد کریم اور دیگر رہائشیوں کے یہ خدشات محض ذاتی مشاہدات نہیں بلکہ اب ایک سائنسی حقیقت بن چکے ہیں۔
پہاڑی علاقوں اور گلیشیئرز پر تحقیق کرنے والے نیپال میں قائم معتبر بین الاقوامی ادارے ICIMOD (انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ) کی 2025 کی رپورٹ ان کے بیانات کی تائید کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہندوکش اور ہمالیہ کے خطے میں برف اب پہلے کے مقابلے میں نہ صرف کم مقدار میں پڑ رہی ہے بلکہ زیادہ دیر تک زمین پر ٹھہرتی بھی نہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں برف جمنے کا دورانیہ تقریباً 23.6 فیصد کم ہو چکا ہے، جو پچھلے 23 برسوں کی سب سے کم سطح ہے۔ گلگت بلتستان کے مرکزی شہر سکردو میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال دسمبر کے وسط تک سکردو کا کم سے کم درجہ حرارت منفی 7 سے منفی 9 ڈگری رہا، جبکہ ماضی میں اسی عرصے میں یہ منفی 15 سے منفی 18 ڈگری تک گر جاتا تھا۔
درجہ حرارت میں یہ اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ برف باری کا قدرتی نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔
معروف سائنسی جریدے "نیچر" میں 2025 میں شائع ہونے والی تحقیق بھی یہی بتاتی ہے کہ ہندوکش اور ہمالیہ میں برف باری کا دورانیہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے، جسے
ماہرین 'برفانی خشک سالی' (Snow Drought) قرار دے رہے ہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اب پہاڑوں پر وہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں جب زمین برف سے ڈھکی رہتی تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ گرمیوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں ہوگا۔

قومی آبی سلامتی
محکمہ موسمیات کے حالیہ جائزوں اور 'سیزنل آؤٹ لک رپورٹس' کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں مغربی موسمی سلسلے یا تو تاخیر سے پہنچ رہے ہیں یا انتہائی کمزور ہیں۔ اس برفانی خشک سالی کا براہِ راست اور ہولناک اثر پاکستان کے آبی ذخائر پر پڑ رہا ہے۔ تربیلا ڈیم، جو ملکی زراعت اور بجلی کا محور ہے، حالیہ برسوں میں فروری سے اپریل کے دوران کئی بار 'ڈیڈ لیول' کے قریب پہنچ چکا ہے۔
حالیہ اعداد و شمار (23 دسمبر 2025) کے مطابق، دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج تقریباً برابر (تقریباً 20,000 کیوسک) ہے، جبکہ ڈیم کی سطح 1485.47 کیوسک پر ہے جو کہ 1402 کیوسک کے ڈیڈ لیول سے زیادہ دور نہیں۔ یہ صورتحال اس لیے تشویشناک ہے کہ اگر پہاڑوں پر بروقت برف باری نہ ہوئی تو آنے والے موسم گرما میں ندی نالوں میں پانی کی شدید کمی ہوگی، جس سے نہ صرف زراعت متاثر ہوگی بلکہ روزمرہ زندگی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔
شانگلہ میں پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹو انجینئر عطا اللہ نے اس بحران کی عملی شکل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ تحصیل پورن میں کئی سرکاری 'گریوٹی واٹر سکیمیں' (پانی کی فراہمی کے قدرتی منصوبے) خشک ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برف باری میں تاخیر اور جلد پگھلاؤ کی وجہ سے پانی ذخیرہ نہیں ہو پاتا اور زمین کے قدرتی چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

صحت کا بحران اور موسمیاتی تغیرات
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب ہسپتالوں کے وارڈز تک پہنچ چکے ہیں۔ شانگلہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پورن کے ایم ایس ڈاکٹر محمد افتخار کے مطابق، سردیوں کے مہینے میں مچھروں کی موجودگی ایک غیر معمولی بات ہے، لیکن اب ملیریا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انفلوئنزا اور دیگر موسمی بیماریوں کے مریضوں میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو بدلتے موسم کی واضح اور خطرناک علامت ہے۔
ان حالات کی سنگینی کو بین الاقوامی تنظیم ICCI (انٹرنیشنل کرائوسفیئر کلائمیٹ انیشی ایٹو) کی "سٹیٹ آف دی کریوسفیئر رپورٹ 2025" مزید واضح کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ہندوکش اور ہمالیہ میں برف باری کی کمی اب عارضی نہیں بلکہ ایک مستقل خطرہ ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دو ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تو ان علاقوں کے 40 فیصد گلیشیئرز ختم ہو جائیں گے۔ تاہم، اگر اس اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھا جائے تو اس نقصان کو 15 فیصد تک روکا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر جیمز کرخم کے مطابق، پالیسی سازوں کو اب حقائق تسلیم کرنے ہوں گے کیونکہ برف پگھلنے کی رفتار میں یہ تیزی پاکستان سمیت پورے خطے میں خوراک اور سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔

معیشت اور بقا کا سوال
عالمی رپورٹس کے ان خوفناک اعداد و شمار کی تصدیق یونیورسٹی آف سوات کے ماہرِ ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گزشتہ 30 سالوں کے دوران پاکستان کے شمالی علاقوں میں بارشوں اور برف باری میں مجموعی طور پر 40 فیصد تک کمی آچکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پورا دریائی نظام (انڈس واٹر سسٹم) گلیشیئرز اور ملنے والی برف پر منحصر ہے، اور اس میں کمی کا مطلب ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کا ٹوٹنا ہے۔
ڈاکٹر قاسم مزید بتاتے ہیں کہ اس برفانی خشک سالی کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔ اس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار (ہائیڈرو پاور) اور سیاحت متاثر ہوگی، بلکہ جنگلات میں کمی اور نئی بیماریوں کے پھیلاؤ جیسے ماحولیاتی مسائل بھی جنم لیں گے۔
ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں فوری اور پائیدار کمی نہ کی گئی تو یہ اثرات مستقبل میں مزید تباہ کن ثابت ہوں گے۔
برفانی خشک سالی اب محض ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ پہاڑوں پر کیا ہو رہا ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان پہاڑوں سے اٹھنے والا یہ آبی اور معاشی بحران جب پاکستان کے میدانوں تک پہنچے گا، تو ہم اس کی کتنی قیمت چکائیں گے؟
تاریخ اشاعت 24 دسمبر 2025













