گندم اگائیں، کھاد کی رقم سندھ حکومت دے گی، پروگرام پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

گندم اگائیں، کھاد کی رقم سندھ حکومت دے گی، پروگرام پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟

اشفاق لغاری

سندھ حکومت نے صوبے میں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے چھوٹےکاشتکاروں میں رقوم کی تقسیم شروع کر دی ہیں۔ 'سندھ ویٹ گرور سپورٹ پروگرام' اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جس کے تحت صوبائی حکومت رواں سال گندم کے لیے کسانوں کو فی ایکڑ تین بوری کھاد بطور امداد (مفت) دے گی۔

حکومت کسانوں کو گندم کے زیر کاشت کے رقبے پر فی ایکڑ ایک بوری ڈی اے پی اور دو بوری یوریا کی رقم دے رہی ہے جبکہ کھاد کسان خود مارکیٹ سے خریدیں گے۔
اس پروگرام پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے کا آغاز 10 نومبر کو لاڑکانہ میں ہوا جہاں حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کسانوں میں رقوم تقسیم کیں۔

تقریب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباؤ کے باعث پچھلے کچھ سال مسائل کا شکار ہوئے تاہم اس بار انہوں (بلاول بھٹو) نے وزیر اعظم کو آئی ایم ایف سے بات کرنے پر آمادہ کیا۔

 انہوں نے اعلان کیا کہ اب ناصرف حکومت گندم خریدے گی بلکہ ساڑھے تین ہزار روپے امدادی قیمت بھی مقرر کر دی گئی ہے۔

سندھ میں چھوٹے کسانوں کو رواں سال کھاد کی سپورٹ کے علاوہ مستقبل میں بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے امداد بھی ملے گی۔

وزیرِ اعلیٰ نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے گندم کی پیداوار میں اضافے کے لیے گرور سپورٹ پروگرام کے تحت لگ بھگ 56 ارب روپے کا پیکیج منظور کیا ہے۔ اس سے چھوٹے کاشتکاروں کو کھاد فراہم کی جائے گی اور یہ اقدام 22 لاکھ 62 ہزار ایکڑ پر فصل کی کاشت میں مدد گار ثابت ہو گا۔

گندم اُگاؤ پروگرام: چار لاکھ کسانوں کی درخواستیں، ادائیگیاں شروع

ڈائریکٹر جنرل زراعت سندھ اللہ ورایو رند، ویٹ گرور پروگرام کی مانیٹرنگ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پروگرام کا مقصد گندم کی پیداوار بڑھانا، درآمد پر انحصار کم کرنا اور کسانوں کی آمدنی میں استحکام لانا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس میں ایک سے 25 ایکڑ زرعی اراضی مالکان کو شامل کیا گیا ہے جس کے لیے کسانوں سے ستمبر ہی میں درخوستیں طلب کی گئی تھیں۔ آخری تاریخ 31 اکتوبر 2025ء تھی جو بعدازاں 10 نومبر تک بڑھا دی گئی تھی۔

درخوست/ رجسٹریشن فارم محکمہ زراعت کے فیلڈ دفاتر کے علاوہ آن لائن دستیاب تھے اور فیلڈ اسسٹنٹ افسران کو گاؤں کی سطح پر کسانوں کی معاونت کی ذمہ داری سونپی گئی۔

پروگرام کے تحت چار لاکھ 11 ہزار چھوٹے کاشتکاروں کو امداد دینے کا انتظام کیا گیا تھا تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار لاکھ 875 کسانوں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ درخواست دہندگان میں ضلع گھوٹکی، خیرپور میرس، قمبر شہدادکوٹ اور بدین کے کسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

پروگرام کی نگرانی، تصدیق اور ادائیگی کا عمل بروقت مکمل کرنے کے لیے صوبائی، ضلعی اور مقامی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ تصدیقی عمل کو بے نظیر ہاری کارڈ کے ڈیٹا بیس، بینک اکاؤنٹس، قومی شناختی کارڈز اور ریونیو ریکارڈ کے ذریعے شفاف بنایا گیا ہے۔

 ڈی جی آفس کے مطابق اب تک تین لاکھ 20 ہزار درخواستوں کی جانچ و تصدیق مکمل ہوئی ہے جنہیں رقوم کی منتقلی شروع ہو چکی ہے۔ 45 ہزار کیسز محکمہ ریونیو کے اعتراضات باعث زیرالتوا ہیں اور باقی درخواستیں مقامی مختیارکار/ تحصیلدار کے دفاتر میں تصدیق کے عمل سے گذاری جا رہی ہیں۔

کسانوں کو کھاد خریداری کی رسیدیں مانٹرنگ کمیٹی کے پاس جمع کرانا ہوں گی

سندھ میں گندم کی بوائی وسط اکتوبر میں شروع ہوتی ہے اور وسط دسمبر تک مکمل ہو جاتی ہے۔ جبکہ میرپورخاص کے بعض علاقوں میں اگیتی فصل کی کٹائی کا آغاز وسط فروری میں ہوتا ہے۔

سپورٹ پروگرام کے تحت کسانوں کو گندم کی فی ایکڑ کاشت پر ایک بوری ڈی اے پی اور دو بوری یوریا کھاد خریدنے کے لیے 22 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ اس میں ڈی اے پی کے 14 ہزار اور یوریا کے آٹھ ہزار (فی بوری چار ہزار) روپے شامل ہیں۔

کسانوں کو دو قسطوں میں رقم ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ طریقہ کار کے مطابق درخواست فارمز کی تصدیق کے بعد ڈی اے پی کی رقم (پہلی قسط 14 ہزار فی ایکڑ) کسانوں کے اکاؤنٹس میں ایڈوانس منتقل کر دی جائے گی جنہیں کھاد کی خریداری کی رسیدیں مانیٹرنگ کمیٹی کے پاس جمع کرانا ہوں گی۔

دوسری قسط کے لیے محکمہ زراعت پہلے کاشت شدہ رقبے کی تصدیق کرے گا جس کے بعد جنوری (2026ء) میں دو بوری یوریا کی رقم (آٹھ ہزار فی ایکڑ) جاری کر دی جائے گی۔
لوک سجاگ نے پروگرام کے زمینی حقائق جاننے کے لیے متعدد کسانوں سے براہِ راست رابطہ کیا۔

ٹنڈو الہیار کی تحصیل چمبڑ کے رہائشی حاجی خان جلبانی اور ان کے بھائی جعفر خان اس پروگرام سے بہت خوش ہیں۔ دونوں ان کسانوں میں شامل ہیں جن کے اکاؤنٹس میں امدادی رقوم منتقل ہو چکی ہیں۔

جعفر خان 24 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں جنہوں نے 22 ایکڑ پر گندم اگانے کی تیاری کی ہے اور انہیں 14 ہزار روپے کے حساب سے 22 بوری ڈی اے پی کے پیسے ملے ہیں۔ وہ سات ایکڑ میں بوائی کر چکے ہیں۔

حاجی خان نے 12 ایکڑ گندم کے لیے کاغذات جمع کرائے تھے اور انہیں ڈی اے پی کی 12 بوریوں کے ایک لاکھ 68 ہزار روپے موصول ہوئے۔ وہ اپنی کاشت جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تحفظات اور خدشات: کیا اس پروگرام سے بھی سفارشی ہی فائدہ اٹھائیں گے؟ 

ہوسڑی حیدرآباد کے کسان محمد توفیق راجپوت پریشان دکھائی دیے جنہوں نے رواں سیزن میں گندم کے لیے پانچ ایکڑ زمین تیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے طے شدہ حکومتی طریقہ کار کے مطابق کھاد کے لیے بروقت درخواست جمع کرائی لیکن 15 نومبر تک نہ ان کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہوئی اور نا ہی محکمہ زراعت نے رابطہ کیا۔

وہ مانتے ہیں کہ گندم کی کاشت کے لیے امدادی پروگرام بہت اچھا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اس میں بھی کھاد کی رقم سفارشیوں کو ملے گی اور عام کسان محروم رہیں گے۔

"بہتر ہوتا حکومت گندم کی اچھی قیمت مقرر کرتی اور اسی ریٹ پر خریداری یقینی بناتی۔ ہم نے ہمیشہ دیکھا ہےگندم کی حکومتی خریداری میں جتنی کرپشن ہوتی ہے اتنا کسی فصل میں نہیں ہوتی۔"

تاہم محکمہ زراعت توسیع کے ڈائریکٹر میجر کراپس محمد رفیق راہو ان خدشات کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چھوٹے کاشت کار کو امداد ملے گی کیونکہ ان کے لیے گندم کا 60 سے 70 ہزار روپے فی ایکڑ خرچہ برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔

ان کے بقول اس پروگرام سے کسان اس خوف سے نکل آئے ہیں کہ گندم کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ اب 22 ہزار روپے کی حکومتی سپورٹ سے فی ایکڑ لاگت 30 سے 40 فیصد کم ہو جائے گی اور پیداوار بھی بہتر ہو گی۔

توفیق راجپوت کا یہ بھی کہنا ہے کہ شوگر ملز کی کرشنگ بروقت شروع نہ ہونے کی وجہ سے گندم زیادہ کاشت نہیں ہو پاتی۔

جعفر خان جلبانی بھی اتفاق کرتے ہیں کہ گنا زمینوں سے نکلے گا تبھی زیادہ گندم کاشت ہو گی لیکن سندھ میں ابھی تک شوگر ملیں نہیں چلیں۔

ان کا ماننا ہے کہ حکومت نے چھوٹے زمینداروں کے لیے اچھا پروگرام دیا ہے لیکن جب تک زرعی پالیسیوں میں پائیداری نہیں ہوگی ایسے امدادی اقدامات وقتی ثابت ہوں گے۔

گندم کے لیے سپورٹ پروگرام کی ضرورت کیوں پڑی؟

سندھ آبادگار بورڈ کے صدر سید محمود نواز شاہ کہتے ہیں کہ صوبے میں گزشتہ برسوں 35 سے 38 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی رہی مگر کسانوں کو منڈی میں دو ہزار روپے من بیچنی پڑی۔ اس سے پہلے اگر حکومت خریداری کرتی بھی تھی تو سرکاری ہدف13 سے 14 لاکھ ٹن ہوتا تھا۔

محکمہ زراعت سندھ کے مطابق پچھلے سیزن (25-2024ء) میں 31 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوئی اور مجموعی پیداوار 35 لاکھ ٹن تھی۔ فصل کا یہ رقبہ گزشتہ سے پیوستہ سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد کم تھا جبکہ پیداوار 23 فیصد کم ہوئی۔

یعنی گندم کی کاشت اور اوسط پیداوار دونوں کم ہوتی جارہی تھیں۔

ایگریکلچر سنسس  بتاتا ہے کہ سندھ میں کل زیرکاشت رقبہ 81 لاکھ ایکڑ ہے جو 18 لاکھ 26 ہزار 420 نجی زرعی فارمز پر مشمل ہے۔ اس میں سے تقریباً 18 لاکھ فارمز 25 ایکڑ یا اس سے کم رقبے پر محیط ہیں۔

 چھوٹے کاشتکاروں (25 ایکڑ تک کے مالک) کی تعداد 18 لاکھ کے لگ بھگ ہے جو مجموعی تعداد کا 99 فیصد ہیں۔

کسان کہتے ہیں کہ کھاد بیج، ڈیزل، دوائیں و دیگر زرعی ضروریات مہنگی ہونے کی وجہ سے فصل کی لاگت بہت بڑھ گئی ہے جس کو برداشت کرنا چھوٹے کاشتکار کے بس کا روگ نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پچھلے برسوں منافع تو کیا گندم کے اخراجات وصول ہی نہیں ہوئے۔

توفیق راجپوت کہتے ہیں کہ 2022ء میں سیلاب کے بعد سندھ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت چار ہزار روپے من (فی 40 کلو) مقرر کی تھی۔ دوبارہ نہ تو حکومت نے کبھی امدادی قیمت مقرر کی گئی اور نہ ہی گندم خریدی۔

"ہمیں منڈی اور آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہم صرف اپنے گھر کے لیے ہی گندم اگاتے ہیں۔"

صوبائی کراپ رپورٹنگ مرکز اور زراعت توسیع کے مطابق سندھ میں رواں سال گندم کی کاشت کا ہدف تقریباً 32 لاکھ ایکڑ ہے جس میں سے 14 نومبر تک تقریباً سات لاکھ ایکڑ یعنی 21 فیصد فصل کاشت ہو چکی تھی۔

تاریخ اشاعت 20 نومبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

موسمیاتی انصاف: سیلاب سے متاثر 43 سندھی کسانوں نے دو جرمن کمپنیوں پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر
thumb
سٹوری

گندم اگائیں، کھاد کی رقم سندھ حکومت دے گی، پروگرام پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پشاور میں بے گھر مزدوروں کے لئے فلیٹ پانچ سال سے تیار ہیں لیکن الاٹ کیوں نہیں ہو پا رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنبی جان اورکزئی
thumb
سٹوری

بھورے ریچھ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ: دیو سائی کے بادشاہ کی سلطنت کن خطرات میں گھری ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

پاکستان میں بڑھاپا خاموش بحران کی صورت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.