یوں تو آج کل بیشتر سبزیاں ہی مہنگی ہیں لیکن ٹماٹر کے نرخ 500 روپےکلو تک پہنچ گئے ہیں۔ آخر ہر گھر میں روزانہ استعمال ہونے والی اس سبزی پر کیا افتاد آن پڑی ہے؟
لاہور کے آڑھتی مجیب الرحمان بتاتے ہیں کہ بادامی باغ سبزی منڈی کو روزانہ ٹماٹر کی 30 گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایک ہفتے سے یہاں 15 سے 20 گاڑیاں ہی آرہی ہیں۔ طلب پوری نہیں ہو پارہی اسی لئے ریٹ بڑھ رہے ہیں۔
یہاں زیادہ تر ٹماٹر افغانستان سے آرہا ہے مگر درجنوں ٹرک کلیئرنس کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ اس تاخیر سے ناصرف یہ بروقت منڈیوں میں نہیں پہنچ پاتا بلکہ بہت سا خراب بھی ہوجاتا ہے۔ اب تو پاک افغان کشیدگی کے بعد سے بارڈر مکمل بند ہے-
وہ کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات، لوئر و اپر دیر سے بھی کچھ ٹماٹر کی گاڑیاں آرہی ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت کم ہے حالانکہ وہاں سے پچھلے سال ستمبر اکتوبر میں بڑی مقدار میں ٹماٹر آتا رہا ہے۔
رحمان زادہ سبزی کے ڈیلر ہیں جو پچھلے 15 سال سے لوئر دیر کی وادی تالاش کے کسانوں سے ٹماٹر خرید کر راولپنڈی، لاہور، گجرانوالہ کی منڈیوں میں پہنچا رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وادی تالاش میں سیکڑوں ایکڑ فصل کو بیماری نے جکڑ لیا ہے۔ پھر سیلاب سے کچھ فصل خراب ہو گئی جو بچی ہے وہ نامناسب موسم کی وجہ سے تیار ہونے میں دیر کر رہی ہے۔
سال کے ان مہینوں میں مالاکنڈ ڈویژن (سوات، دیر وغیرہ) اور افغانستان مل کر پاکستان کی ٹماٹر کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

'جب فصل تیار ہونے کے قریب تھی تو اچانک پتے پیلے ہونے لگے اور پھل سوکھ گئے'
وادی تالاش، چکدرہ اور تیمرگرہ کے درمیان واقع ایک زرخیز خطہ ہے جس میں یونین کونسل نورہ خیل، شاہی خیل، دوشخیل اور بانڈہ گئی کے علاقے شامل ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وادی میں دیگر سبزیوں کے ساتھ ٹماٹر بڑے پیمانے پر کاشت ہوتا ہے۔ یہاں سے ستمبر، اکتوبر میں ملک بھر کی منڈیوں کو بھرپور سپلائی ہوتی ہے اور کسانوں کو ریٹ بھی اچھا ملتا ہے۔
ڈائریکٹر زراعت لوئر دیر سجاد حسین بتاتے ہیں کہ رواں سیزن میں ضلع بھر میں لگ بھگ 11 سو ایکڑ پر ٹماٹر کاشت ہوا جس میں سے 800 وادی تالاش میں ہے۔ بدقسمتی سے وادی کی تقریباً 350 ایکڑ فصل بیماری کی زد میں آگئی۔
کسانوں کے مطابق فصل جب تیار ہونے کے قریب تھی تو اچانک پتے پیلے ہونے لگے اور پھر پودے اور پھل سوکھ گئے۔
سرائی بالا (تالاش) کے محمد عدنان نے تین ایکڑ ٹماٹر کاشت کیے تھے جن میں ایک ایکڑ فصل مکمل تباہ ہوگئی جبکہ دو ایکڑ شدید متاثر ہوئی ہے۔
"میں پانچ سال سے ٹماٹر لگا رہا ہوں مگر ایسی بیماری کبھی نہیں دیکھی جس نے چند دنوں میں تین ماہ کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب تو خرچہ پورا ہونے کی بھی امید نہیں۔"
ڈھیری تالاش کے نواب خان کہتے ہیں کہ انہوں نے بیج، کھاد، سپرے وغیرہ پر لاکھوں روپے خرچ کیے مگر سب برباد ہو گیا۔
لوئر دیر میں گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک احسان اللہ خان کہتے ہیں کہ پچھلے سال وہ وادی تالاش سے ٹماٹروں کی چھ گاڑیاں روزانہ پنجاب و خیبر پختونخوا کی بڑی منڈیوں میں پہنچاتے رہے۔ اس سال ان گاڑیوں کی تعداد آدھی سے بھی کم ہے۔
سابق تحصیل ناظم تیمرگرہ ریاض محمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس بیماری نے کسانوں کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ "محکمہ زراعت فوری اقدام کرے تو اب بھی آدھی فصل کو بچایا جاسکتا ہے۔"

کسانوں میں معلومات کی کمی نے بھی وائرس کو پھیلنے میں مدد دی
زرعی ماہرین اس بیماری کا نام ٹماٹو ییلو لیف کرل وائرس (TYLCV) بتاتے ہیں جو دنیا بھر میں فصل کو متاثر کرتی آ رہی ہے۔ ڈائریکٹر سجاد حسین کہتے ہیں کہ اس کا کوئی مستقل علاج موجود نہیں ہے۔
آسٹریلوی محکمہ زراعت کے مطابق ٹماٹر ییلو لیف کرل وائرس انتہائی خطرناک ہے جو ٹماٹر کی پیداوار کو 100 فیصد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ رس چوسنے والی سفید مکھی کے ذریعے پھیلتا ہے جو وائرس کو ایک سے دوسرے پودے پر منتقل کرتی ہے۔
ایگریکلچر ریسرچ سنٹر مینگورہ (سوات) کے سینیئر ریسرچ افسر ڈاکٹر فضل مولا کا کہنا ہے کہ وائرس زدہ پودوں کو ابتدا ہی میں اکھاڑ کر زمین میں دفن کرنا چاہیے۔ کسانوں نے کم جانکاری کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جس سے یہ بیماری زیادہ ہوگئی ہے۔
اس کے علاوہ ٹماٹر کے کھیت میں عموماً شملہ مرچ، کدو، کریلے، کھیرا جیسی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں جس سے وائرس کے خلاف ٹماٹر کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔
پچھلے پانچ سال کے دوران ٹماٹر کی مجموعی ملکی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 34 فیصد، سندھ کا 28 فیصد، پنجاب کا 22 فیصد اور خیبرپختونخوا کا حصہ 16 فیصد رہا۔ خیبرپختونخوا سے یہ فصل ستمبر اکتوبر میں منڈیوں میں آتی ہے جب دوسرے صوبوں سے سپلائی محدود ہوچکی ہوتی ہے۔
خیبرپختونخوا کی کل پیداوار کا نصف سے زیادہ ٹماٹر صرف ضلع سوات پیدا کرتا ہے۔ بونیر، چترال، مالاکنڈ، لوئر و اپر دیر اور شانگلہ کی پیداوار ملاکر مالاکنڈ ڈویژن کا صوبے کی پیداوار میں حصہ دو تہائی (67 فیصد) بنتا ہے۔

مشکل وقت میں افغانستان بھی کام نہ آیا
ٹماٹر کے نرخوں میں اتار چڑھاؤ کا سبب عموماً غیرمستقل سپلائی ہی بنتی ہے۔ وسط اپریل سے جون کے آخر تک ٹماٹر کی سپلائی عام طور پر طلب سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی عرصہ میں قیمتیں سب سے کم رہتی ہیں۔ اس کے برعکس ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں سپلائی کم ہو جاتی ہے اور قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں۔
ستمبر سے نومبر کے درمیان بلوچستان سے ٹماٹر کی آمد کم ہوجاتی ہے اور سندھ کی فصل ابھی تیار ہورہی ہوتی ہے جس سے ملکی منڈیوں کا زیادہ اںحصار خیبرپختونخوا پر ہوتا ہے۔ اسی دوران افغانستان و ایران سے بھی ٹماٹر درآمد کیے جاتے ہیں۔
عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان میں اس وقت ٹماٹر کی فی کلو قیمت 108 پاکستانی روپے ہے جو تین/چار ہفتے پہلے 63 پاکستانی روپے میں فروخت ہورہا تھا۔
آڑھتی مجیب الرحمان افغانستان سے بھی ٹماٹر منگواتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ وہاں بھی بارشوں اور سیلاب سے ٹماٹر کی فصل کو نقصان پہنچا جس سے وہاں قیمت زیادہ ہو گئی ہے۔
"ہمیں افغانستان سے 100 روپے کلو خریدا گیا ٹماٹر کرایہ ٹیکس وغیرہ شامل کر کے لاہور میں 250 سے 300 روپے میں پڑتا ہے۔"
پھر دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے بعد سرحدی تجارت بند ہو گئی ہے جس سے ٹماٹر کا بحران شدید ہو گیا ہے۔

تاہم مجیب الرحمان کہتے ہیں کہ یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر قیمتیں کم ہوجائیں گے۔ ایک تو سوات سے سپلائی بڑھنے والی ہے، دوسرا رواں ماہ بدین اور ٹھٹہ میں بھی فصل اترنا شروع ہوجائے گی۔
بدین میں ٹماٹر کے بڑے کا شت کار اور سندھ آباد گار بورڈ کے صدر فیاض حسین شاہ راشدی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ 15 روز میں اپنی فصل کی چنائی شروع کردیں گے، یہاں کے دیگر کسانوں کی فصل بھی رواں ماہ کے آخر تک منڈیوں میں پہنچنے لگے گی۔
رواں سال بدین، ٹھٹہ اور میرپور خاص میں ٹماٹر کی کاشت پہلے سے زیادہ ہے۔ اگست ستمبر کی بارشوں نے کچھ رقبے کو متاثر کیا ہے لیکن پھر بھی ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق فصل بھرپور ہے۔
تاریخ اشاعت 14 اکتوبر 2025