پاکستان کا توانائی سیکٹر ایسی الجھن بن چکا ہے جس کو سلجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کو کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر یہ ہے کہ بجلی کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں کر پا رہا۔ مالی بوجھ، بھاری رقم کے ضیاع اور مبہم پالیسیوں نے پورے نظام کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ہے۔
حالیہ آڈٹ میں نہ صرف ناقص منصوبہ بندی بلکہ ایسے بوسیدہ ڈھانچے کا انکشاف ہوا ہے جہاں پاکستان بیکار کھڑے پاور پلانٹس کو اربوں کی ادائیگیاں کر رہا ہے۔ نتیجتاً صورت حال سے مایوس صارفین گرڈ کو چھوڑ کر توانائی کی اپنی ضرورتیں خود پوری کر رہے ہیں۔
پاور ڈویژن، متعلقہ اداروں اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے متعلق تازہ ترین آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے بجلی خریدنے کے لیے 3.09 ٹریلین (کھرب) روپے خرچ کیے۔ ان آئی پیز میں ہائیڈرو پاور، آر ایل این جی (ریگیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس)، فرنس آئل، درآمدی و مقامی کوئلے کے علاوہ سولر، ونڈ اور گیس سے کچھ بجلی پیدا کرنے والے شامل ہیں۔
صرف تین مہنگے ایندھن یعنی آر ایل این جی، درآمدی کوئلے اور فرنس پر 1.4 ٹریلین روپے خرچ کیے گئے جو بجلی کے کل قومی بجٹ کا 47 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ تینوں ایندھن مجموعی بجلی کا صرف 24 فیصد فراہم کرتے ہیں حالانکہ ان پلانٹس نے اپنی پوری کپیسٹی کے لحاظ سے 45 فیصد بجلی مہیا کرنا تھی۔
اتنا بڑا فرق (45 فیصد صلاحیت بمقابلہ 24 فیصد ڈلیوری) ناکارہ پلانٹس، غلط منصوبہ بندی اور بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خود کفالت میں مسلسل ناکامی
پاکستان کے پاور ڈویژن کے بجٹ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ اپنی آمدنی کی بنیاد پر خود کفالت میں مسلسل ناکام رہا۔ مالی سال 23-2022ء میں حکومت نے اس پر 355 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن اسے 705 ارب خرچ کرنے پڑے جو اصل رقم سے تقریباً دگنا تھی۔ 24-2023ء میں بھی ایسا ہی ہوا یعنی 451 ارب روپے کا مختص بجٹ 171 فیصد اضافے کے ساتھ 770 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
یہ اضافی رقوم نئے منصوبوں یا انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے بجائے معاملات کو چلانے کے لیے ہنگامی فنڈز میں چلی گئیں۔ مثال کے طور پر 48 ارب روپے پاکستان انرجی ریوالونگ فنڈ میں شامل کیے گئے جو پاور پروڈیوسرز اور فیول سپلائرز کو بروقت ادائیگی کے لیے بنایا گیا ہے۔
مزید 262 ارب روپے براہ راست آئی پی پیز اور سرکاری پاور پروڈیوسرز کو ادا کیے گئے۔
خلاصہ یہ کہ حکومت نظام کو چالو رکھنے کے لیے یہ بجٹ سبسڈیز اور نقصانات کو پورا کرنے (بیل آؤٹ) پر خرچ کر دیتی ہے جس میں صارفین کے بلوں کی عدم وصولی، چوری، لائن لاسز وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم ہر سال مختص بجٹ ضرورت سے کم پڑ جاتا ہے اور اس سے بچاؤ کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں جو گردشی قرضے میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔

پیداوار اور انسالڈ کپیسٹی میں زمین آسمان کا فرق
پاکستان کے تمام پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری صلاحیت (انسالڈ کپیسٹی) اور زیادہ سے زیادہ پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار سے پتہ چلتا ہے کہ نظام کو مختلف ایندھن میں کیسے تقسیم کیا گیا ہے۔
24-2023ء میں مجموعی صلاحیت کا تقریباً 25 فیصد پن بجلی، 17، 17 فیصد آر ایل این جی اور فرنس آئل، 11 فیصد درآمدی کوئلے، تقریباً آٹھ فیصد جوہری ذرائع اور چھ فیصد مقامی کوئلے سے پیدا کیا گیا۔
ان ذرائع سے پیدا اور استعمال ہونے والی اصل بجلی ان کی انسٹالڈ کپیسٹی سے میل نہیں کھاتی۔ پن بجلی کے شعبے نے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی انسٹالڈ کپیسٹی 25 فیصد تھی مگر ملک کو 31 فیصد بجلی دی۔ جوہری پلانٹس آٹھ فیصد کپیسٹی کے باوجود 18 فیصد بجلی دیتے رہے۔ مقامی کوئلہ کی انسٹالڈ کپیسٹی صرف 6 فیصد ہے مگر 12 فیصد بجلی پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف مہنگے ترین ایندھن قومی بجٹ کا بڑا حصہ کھا گئے مگر انسٹالڈ کپیسٹی سے بہت کم پیداوار دی۔
جیسا کہ درآمدی کوئلے والے پلانٹس کی انسٹالڈ کپیسٹی 11فیصد ہے مگر صرف چار فیصد بجلی دے پائے۔ فرنس آئل پلانٹس 17 فیصد صلاحیت کے باوجود صرف دو فیصد پیداوار دے سکے اور آر ایل این جی والے پلانٹس بھی 19 فیصد انسٹالڈ کپیسٹی کے ساتھ 17 فیصد بجلی فراہم کر سکے۔

فرنس، آر ایل این جی اور درآمدی کوئلے پر چلنے والے سفید ہاتھی
24-2023ء میں بجلی پر 3.09 ٹریلین (کھرب ) روپے کے اخراجات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایل این جی، درآمدی کوئلے اور فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس قومی خزانے پر تین سب سے بڑے بوجھ تھے۔
آر ایل این جی سب سے مہنگی پڑی۔ اس پر پاکستان نے 753 ارب روپے خرچ کیےجو بجلی کی خریداری کے مجموعی بل کا تقریباً ایک چوتھائی (24 فیصد) بنتے ہیں۔ آر ایل این جی پلانٹس کے کیپیسٹی چارجز صرف مشکل میں نہیں ڈالتے بلکہ زیادہ تر رقم خود ایندھن کی خریداری پر خرچ ہو تی ہے۔
24-2023ء کے لیے بجلی کے 3.09 ٹریلین روپے میں سے ایندھن کا بل تقریباً 1.2 ٹریلین روپے تھا۔ جس میں سے تقریباً 561 ارب روپے یعنی ایندھن کے مجموعی بل کا 47 فیصد حصہ درآمدی گیس پر خرچ ہوا۔ مزید 192 ارب روپے کپیسٹی چارجز میں چلے گئے۔ نتیجتاً آر ایل این جی نے 19 فیصد بجلی فراہم کی مگر 24 فیصد رقم کھا گئی۔
درآمدی کوئلے نے اس سے بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر پاکستان نے توانائی بجٹ کا 17 فیصد یعنی 511 ارب روپے خرچ کیے لیکن صرف چار فیصد بجلی ملی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایندھن پر صرف 90 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ 421 ارب روپے (لاگت کا 80 فیصد سے زیادہ) کیپیسٹی چارجز کے طور پر ادا کیے گئے۔ یعنی زیادہ تر رقم ان پاور پلانٹس میں گئی جو بمشکل چلتے تھے۔
فرنس آئل یا آر ایف او بجلی پیدا کرنے کا ایک اور فرسودہ ذریعہ ہے جو وسائل کو چوس رہا ہے۔ یہ پلانٹس مجموعی انسٹالڈ کپیسٹی کا 17 فیصد ہیں لیکن بجلی کا دو فیصد سے بھی کم پیدا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے بجٹ سے 174 ارب روپے نکال لیے جس میں سے تقریباً نصف یعنی 87 ارب ایندھن میں اور 87 ارب روپے کپیسٹی چارجز میں گئے۔ ایک بار پھر ایسے پلانٹس پر اربوں خرچ کیے گئے جو شاذ و نادر ہی چلتے تھے۔
واضح الفاظ میں آر ایل این جی نے 16.8 فیصد پیداواری صلاحیت پر 18.7 فیصد بجلی پیدا کی لیکن بجٹ کا 24.4 فیصد (753 بلین روپے) کھا گئی۔ درآمدی کوئلے نے 10.9 فیصد صلاحیت کے باوجود صرف 3.9 فیصد بجلی فراہم کی، پھر بھی بجٹ کا 16.5 فیصد (511 بلین روپے) لیا۔
فرنس آئل نے 17.3 فیصد صلاحیت ہوتے ہوئے صرف 1.9 فیصد بجلی پیدا کی مگر بجٹ کا 5.7 فیصد (174 بلین روپے) لے لیا۔ ان میں سے دو، درآمدی کوئلہ اور فرنس پلانٹس نے اپنی لاگت کے مقابلے میں تقریباً کچھ بھی نہیں دیا اور چلتے کو تیار رہنے کے لیے زیادہ تر کپیسٹی چارجز لیتے رہے۔

صارفین ان پلانٹس کی ادائیگیاں کرتے ہیں جو بمشکل کام کرتے ہیں
تھرمل پلانٹس پر اتنی زیادہ رقم ضائع ہونے کی بنیادی وجہ پاکستان کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہیں۔ مسئلے کی جڑ کپیسٹی چارجز ہیں جو حکومت کو پاور پلانٹس کو صرف اس لیے ادا کرنا پڑتا ہے کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔ یہ کرائے کے مکان کی طرح ہے، کرایہ آپ نے دینا ہے چاہے اس میں نہ بھی رہیں۔
یہ نظام درآمدی کوئلے اور فرنس آئل کے ذریعے سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ دونوں مہنگے ایندھن ہیں مگر ایندھن سے اتنا بوجھ نہیں پڑتا جتنا زیادہ پلانٹس کے فکس چارجز سے پڑتا ہے ۔ مثال کے طور پر درآمدی کوئلے کے پلانٹس نے کل 511 ارب میں سے 421 روپے (80 فیصد سے زیادہ) صرف کیپیسٹی چارجز کی مد میں وصول کیے۔
اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے انہیں زیادہ تر بیکار رہنے کے لیے سیکڑوں ارب کی ادائیگیاں کیں جبکہ انہوں نے چار فیصد بجلی دی۔ فرنس آئل پلانٹس بھی اسی طرح ہیں جن پر 174 ارب روپے خرچ ہوئے ، تقریباً نصف رقم کیسٹی چارجز میں گئی پھر بھی یہاں سے صرف دو فیصد بجلی ملی۔
آر ایل این جی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے لیکن یہ بھی اتنا ہی نقصان دہ ہے۔ کوئلے اور تیل کے برعکس گیس پلانٹس انسٹالڈ کپیسٹی کے قریب بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن ایندھن انتہائی مہنگا ہے۔
آر ایل این جی پلانٹس پر خرچ ہونے والے 753 ارب میں سے 561 ارب روپے (کل ایندھن کے بل کا 47 فیصد) صرف درآمدی گیس خریدنے میں خرچ ہوئے۔ یوکرین جنگ جیسے واقعات کی وجہ سے ایل این جی کی عالمی قیمتیں ڈرامائی طور پر بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو مارکیٹ کے مطابق ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ سب سے اہم کپیسٹی چارجز کی 192 ارب شامل کریں تو صرف آر ایل این جی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ کھا جاتی ہے۔

بجلی کی قیمتوں کا منظرنامہ مزید تاریک
پاکستان میں آئندہ سال بجلی کی قیمتوں کے نقطہ نظر سے تاریک تصویر پیش کرتا ہے۔ سرکاری پیشین گوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ بجلی خریداری کا مجموعی بل پچھلے سال کے 3.09 کھرب (ٹریلین) روپے پر واپس نہیں آئے گا۔ بہترین صورت حال میں یہ تقریباً 3.18 کھرب اور بدتر صورتوں میں 3.48 کھرب روپے تک بڑھ سکتا ہے۔
اس اضافے کی بڑی وجہ وہ رقم نہیں جو زیادہ تر ایندھن پر خرچ ہوتی بلکہ وہ ہے جو پاور پلانٹس کو سٹینڈ بائی رکھنے پر صرف ہو گی۔ پیشین گوئیوں کی تمام صورتوں میں تقریباً دو تہائی لاگت (تقریباً 2.06 سے 2.16 ٹریلین) کپیسٹی چارجز میں جاتی ہے۔
دریاؤں میں پانی کی سطح اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی بیشی (تقریباً 1.05 سے 1.25 کھرب روپے)، آپریشنز اور دیکھ بھال کی رقم شامل کر لیں (تقریباً 71 ارب روپے سے 76 ارب روپے)۔ یہ نظام جکڑ بندی کا شکار ہے، اگر ایندھن کم بھی استعمال ہو تب بھی فکس بل آتے رہتے ہیں۔
جب بجلی کی فی یونٹ قیمت پر نظر ڈالی جائے تو پیشن گوئیاں 26-2025ء کے لیے بجلی کی خریداری کی اوسط قیمت 24.75 سے 26.70 روپے فی یونٹ (کلوواٹ آور) بتاتی ہیں۔
پاکستان کے پاس قابل تجدید ذرائع سے سستی توانائی پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ خاص طور پر سولر نے خود کو ناں صرف ملکی توانائی کے منظر نامے میں مستحکم کیا ہے بلکہ سٹوریج بیٹریوں کے ساتھ اچھی طرح جوڑ لیا ہے۔
اس سے بہت سے لوگوں کو بجلی کی دستیابی میں خود کفیل ہونے میں مدد ملی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت بجلی کی پائیدار پیداوار کے لیے بہتر منصوبہ بندی اپنائے جس میں مقامی آپشنز، لاگت کو کم کرنا اور انفراسٹرکچر کی بہتری، نظام کی اعلیٰ کارکردگی اور مضبوط نگرانی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے نمٹنے، قابل بھروسہ بنانے، قومی گرڈ پر عومی اعتماد بحال کرنے، مجموعی کھپت کو بڑھانے اور صارفین کی ضروریات کو مدنظر پر زور دیا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 22 ستمبر 2025