پشاور میں بے گھر مزدوروں کے لیے تعمیر کیے گئے دو ہزار فلیٹس مکمل ہونے کے پانچ سال بعد بھی محنت کشوں کے سپرد نہیں کیے جا سکے۔
صوبائی دارالحکومت میں مزدوروں کے لیے رہائشی کالونی بنانے کا فیصلہ وفاقی حکومت نے 2008ء میں کیا تھا۔ اس کے لیے شہر کے نواحی علاقے ریگی للمہ میں پانچ سو کنال زمین خریدی گئی جو حیات آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود میں آتی ہے اور موٹروے ایم ون کے قریب پڑتی ہے۔
ابتدا میں یہاں ایک ہزار 200 فلیٹس بنانے کا پلان تیار کیا گیا جس کی لاگت کا تخمینہ دو ارب 81 کروڑ 70 لاکھ روپے تھا۔ پی سی ون کی منظوری کے بعد 2011ء میں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا۔
تاہم دو سال بعد (2013ء میں) حکومت نے منصوبے کی توسیع کا فیصلہ کیا اور مزید 856 فلیٹس شامل کیے۔ تخمینے میں بھی دو ارب 27 کروڑ 60 لاکھ کا اضافہ کیا گیا۔
یوں ریگی للمہ میں مجموعی طور پر دو ہزار 56 فلیٹس اور متعلقہ سہولیات کے لیے پانچ ارب نو کروڑ 30 لاکھ روپے کے تخمینے کی منظوری دی گئی جو 25 لاکھ بی فلیٹ بنتی ہے۔
کچھ تعطل کے باوجود 2020ء میں تقریباً تمام تعمیراتی کام مکمل کر لیا گیا تھا۔
منصوبے کے مطابق یہ فلیٹس چار منزلہ رہائشی بلاکس کی صورت میں بنائے گئے ہیں، ہر بلاک آٹھ فلیٹس پر مشتمل ہے۔ سڑکیں، پانی کا نظام، کمیونٹی سنٹر، مساجد، سکول و دیگر سہولتیں بھی مہیا کی گئی ہیں۔ بجلی و گیس فراہمی میں بھی پیش رفت ہوئی ہےلیکن یہ فلیٹس ابھی تک محنت کشوں کو الاٹ نہیں کیے جا سکے ہیں۔

تُو تُو میں میں: اس کارنامے کا سہرا کس پارٹی کے سر بندھے گا؟
ریگی للمہ لیبر کالونی کی تعمیر کا یہ منصوبہ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنایا جو وزارت افرادی قوت و سمندرپار پاکستانیز کے ماتحت وفاقی ادارے 'ورکرز ویلفئیر بورڈ' کی زیرنگرانی تیار کیا گیا تھا۔
یہ اداراہ ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء کے تحت وجود میں آیا تھا۔ مذکورہ منصوبےکا بجٹ ورکرز ویلفیئر فنڈ ہی سے مختصکیا گیا اور اس کی تکمیل و انتظام بھی ورکرز ویلفئیر بورڈ کی ذمہ داری ہے۔
سابق صوبائی وزیر کامران بنگش تصدیق کر چکے ہیں کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ سے آدھے فلیٹس کی تعمیر 2011ء اور باقی کی 2013ء میں شروع ہو چکی تھی۔
ان کے بقول ن لیگ کے دور(جون 2013ء تا 2018ء) میں خیبر پختونخوا کے وفاقی فنڈز روک لیے گئے۔ پھر وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو 2018ءکے بعد اس منصوبے کی رقم جاری کی گئی جس سے تعمیراتی کام مکمل ہوا۔
بعدازاں پی ٹی آئی نے ریگی للمہ کالونی کو 'لیبر کمپلیکس' کا نام دے دیا اور ان فلیٹس کی اپنے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر تشہیر کرتی رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے مئی 2021ء میں اس کا باضابطہ افتتاح کیا تو ان کے آفیشل سوشل میڈیا پیج پر اسے 'نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے' کا حصہ قرار دیا گیا۔
اس وقت کے صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی بھی پیچھے نہ رہے اور دعویٰ کیا کہ پارٹی نے بےگھر مزدوروں سے کیا گیا وعدہ پورا کر دیا ہے۔
"ہم پہلی مرتبہ ایسا منصوبہ لائے ہیں جس میں مزدوروں کو بہت سی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ دو ہزار 56 فیملی فلیٹس رجسٹرڈ ورکرز میں تقسیم کیے جائیں گے جس سے ان کا اپنے مکان کا خواب پورا ہو جائے گا۔"

ایک انار سو بیمار: تیار فلیٹوں کے دوسرے سرکاری استعمال
پشاور میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے حکام میں سے کوئی بھی اس منصوبے پر آفیشلی بات کرنے کو تیار نہیں۔ تاہم ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لیبر کمپلیکس پر اب تک پانچ ارب 31 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ رقم ورکز ویلفیئر فنڈ ہی سے جاری ہوئی ہے۔
ان کے بقول منصوبہ بروقت مکمل نہ ہونے سے لاگت میں تقریباً 50 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ کچھ تاخیر تو فنڈز کے اجرا میں تعطل کے باعث ہوئی، پھر اپریل 2020ء میں ضلعی انتظامیہ نے یہاں 592 فلیٹس میں کورنٹائین سنٹرز بنا دیے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا جس کی وجہ سے تعمیراتی کام روکنا پڑا تھا۔
جب دوبارہ کام شروع ہوا تو2023 ء میں صوبائی حکومت نے غیرقانونی افغان تارکین وطن کے لیے یہاں 608 فلیٹس میں ری پریٹرئیشن سنٹر بنا دیا جو مزید تاخیر کا سبب بنا۔
حکام کے مطابق ویلفئیر بورڈ نے کمپلیکس کی بجلی کے لیے واپڈا کو2013ء میں درخواست دی تھی۔ واپڈا نے رواں سال جولائی میں ٹرانسمیشن لائن بچھائی اور ستمبر میں ڈیمانڈ نوٹس جاری کیے جاری کیے ہیں۔ اب فلیٹس میں بجلی وغیرہ کا ترقیاتی کام جلد مکمل ہو جائے گا۔
عبدالسعید خان انڈسٹریل ورکرز یونین کے صدر اور یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکٹریٹری ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پہلے (2022ء میں) فلیٹس مالکانہ حقوق پر اور پچھلے سال پھر کرائے پر دینے کے لیے مزدوروں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ ایک ہزار سے زائد درخواستیں جمع ہوئیں (اتنی کم درخواستیں کیوں؟ آگے پڑھیے) مگر بورڈ نے ابھی تک اس معاملے کو لٹکا رکھا ہے۔

فلیٹ مالکانہ حقوق پر ملیں گے یا کرائے پر: قانون اور عدالتوں کی بھول بھلیاں
عبدالسعید خان کہتے ہیں کہ یہ لیبر کمپلیکس پیپلز پارٹی نے شروع کیا لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان نے ورکرز کو فلیٹس مالکانہ حقوق پر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ نوٹیفکیشن جاری ہوا اور بورڈ کی الاٹمنٹ کمیٹی بھی بنا دی گئی تھی۔
وہ حکومت ختم ہوئی تو بورڈ نے فلیٹس کرائے پر دینے کے دوبارہ احکامات جاری کر دیے جو ورکرز سے ناانصافی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ورکرز نے 2014ء میں بورڈ کی پالیسی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت عالیہ نے 2017ء میں ورکرز کے حق میں فیصلے دیتے ہوئے فلیٹس مالکانہ حقوق پر دینے کے احکامات جاری کیے لیکن بورڈ نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جو اب تک زیرالتوا ہے۔
اس سے قبل پی پی حکومت نے فنانس بل کے ذریعے مزدوروں کو مالکانہ حقوق دینے کی منظوری دی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ بعدازاں پی ٹی آئی نے وہی پالیسی وفاقی کابینہ سے منظور کرائی تھی۔
تاہم بورڈ کا موقف رہا ہے کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء میں ترمیم کیے بغیر مالکانہ حقوق دینا ممکن نہیں۔
ورکرز ویلفئیر بورڈ کے افسر کے مطابق ورکرز کو ریگی للمہ کمپلیکس کے فلیٹس کرایے پر ہی دیے جائیں گے جس طرح دیگر علاقوں میں بورڈ کے ملکیتی گھر یا فلیٹس دیے گئے ہیں۔طے شدہ پالیسی کے مطابق ہر فلیٹ کا کرایہ ایک ہزار اور مینٹیننس کی رقم 500 روپے ماہانہ ہو گی۔
پہلے مرحلے میں ایک ہزار 50 ورکرز کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، باقی فلیٹس کے لیے بھی جب درخواستیں آئیں گی اسی طریقہ کار کے مطابق الاٹمنٹ ہو گی۔

دو ہزار فلیٹس اور الاٹمنٹ کے لیے صرف ایک ہزار درخواستیں؟
مزدور رہنما اور یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل رازم خان نے بھی ریگی للمہ لیبر کمپلیکس میں فلیٹ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ انہیں شکوہ ہے کہ بورڈ نے ان فلیٹس کی الاٹمنٹ کے لیے بہت سخت شرائط عائد کر رکھی ہیں۔
ای او بی آئی اور سوشل سکیورٹی کارڈز کو لازمی قرار دیا گیا ہے جو بہت کم ملازمین کے پاس ہوتے ہیں جبکہ ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء کے مطابق ورکر کے پاس ای او بی آئی یا سوشل سکیورٹی کارڈ کا ہونا لازم نہیں۔
ان کے بقول اسی وجہ سے بورڈ کو دو ہزار 56 فلیٹس کے لیے بہت کم یعنی صرف ایک ہزار 20 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ورکرز ویلفئیر بورڈ کی پالیسی کے مطابق یہ فلیٹس اہلیت کے معیار پر پورا اترنے والے مزدوروں کو ان کے صنعتی یونٹس کے ذریعے یا براہ راست کرائے پر الاٹ کیے جاتے ہیں۔
صنعتی یونٹ یا ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کم از کم 10 کارکن کام کرتے ہوں اور ادارہ اسی ضلعے میں واقع ہو جہاں فلیٹس ہیں۔
یہ ادارہ ڈائریکٹوریٹ لیبر کے علاوہ ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹی ٹیوٹ (ای ایس ایس آئی) یا ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) میں رجسٹرڈ ہو اور ورکرز ویلفیئر فنڈ میں حصہ ڈال رہا ہو۔

ورکر کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری ہے، صرف وہی کارکن اہل ہو گا جس کا اس علاقے میں کلی یا جزوی طور پر اپنا گھر نہ ہو، وہ ایسے ادارے میں مسلسل پانچ سال سے کام کر رہا ہو جہاں کم از کم 10 کارکن ہوں۔ تاہم درخوست طلبی کے اشتہار میں ورکرز کے لیے مسلسل نوکری کی شرط پانچ سال کی بجائے تین سال کر دی گئی تھی۔
رازم خان کا کہنا ہے کہ مزدوروں نے تو اسی امید پر درخواستیں دیں کہ انہیں ناصرف چھت میسر آئے گی بلکہ اپنے گھر کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو گا۔
پشاور کے مزدوروں کا اپنے گھر کا خواب پورا ہوتا تو نظر نہیں آتا لیکن اگر یہ فلیٹس انہیں فوری میسر آجائیں تو ان کا مالی بوجھ کچھ کم ضرور ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 18 نومبر 2025












