پاکستان میں بڑھاپا خاموش بحران کی صورت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

postImg

شازیہ محبوب

postImg

پاکستان میں بڑھاپا خاموش بحران کی صورت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

شازیہ محبوب

بیاسی سالہ بابا عظیم  راولپنڈی کی ایک غیر سرکاری اولڈ ہوم میں دن گزار رہے ہیں۔ وہ کئی برس دیار غیر میں محنت مزدوری کرتے اور بیوی بچوں کی ضرورتیں پوری کرتے رہے مگر اب انہیں سہارے کی ضرورت پڑی تو اپنوں میں سے کوئی ان کے ساتھ نہیں۔

وہ تقریباً ایک سال قبل پناہ گاہ میں آئے تھے، ان کے بقول انہوں نے بیوی بچوں سے اس وقت ناطہ توڑا جب گھر کا ماحول ان کے لیے جہنم بن چکا تھا۔

" کیا بتاؤں! میرے بچے تھے مگر اب نہیں ہیں۔ یہاں رشتوں کی کوئی قدر نہیں، چاہے بیوی بچے ہوں یا کوئی رشتہ دار سب پیسے کے غلام ہیں۔ اگر آپ کچھ دے سکتے ہیں تو عزت ملتی ہے ورنہ آپ صرف ایک بوجھ ہو۔"

پناہ گاہ کی انتظامیہ کے رکن محمد شریف بتاتے ہیں کہ بابا عظیم نے یہاں آنے سے پہلے اپنا موبائل فون دریا میں پھینک دیا تاکہ وہ اپنے بچوں سے رابطہ کر یں نہ ہی بچے کر سکیں۔

اس اولڈ ہوم میں 20 افراد مقیم ہیں۔ منتظم شوکت حسین کہتے ہیں کہ یہاں کے ہر مکین کی الگ کہانی ہے، کسی کو ان کی اولاد نے چھوڑ دیا تو بعض نے خود ہی بچوں سے قطع تعلق کر لیا ہے۔

صرف بابا عظیم ہی نہیں ان جیسے سیکڑوں عمر رسیدہ مرد و خواتین اولڈ ہومز کا رخ کر رہے ہیں۔

محکمہ سوشل ویلفیئر کے مطابق راولپنڈی ڈویژن (آبادی 18 لاکھ 72 ہزار) میں صرف ایک سرکاری اور پانچ غیر سرکاری ادارے موجود ہیں جو "لاوارث" معمر افراد کو رہائش فراہم کر رہے ہیں۔

معمر افراد کی شرح چھ فیصد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 60 برس یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ 35 لاکھ 16 ہزار 434 ہے جبکہ 75 برس اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد 24 لاکھ 96 ہزار 232 ہے۔

اس حساب سے پاکستان میں 60 سے زیادہ عمر کے افراد کی شرح کل آبادی (24 کروڑ 14 لاکھ سے زائد) کا لگ بھگ چھ فیصد بنتی ہے جو عالمی انداروں کے مطابق 2050ء تک دوگنا  یعنی 12 فیصد ہو جائے گی۔

تحقیق بتاتی ہے کہ معمر افراد اکثر بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں، بینائی و سماعت کی کمی، تمباکو نوشی، ڈپریشن، موٹاپے، دانتوں اور پیشاب کی تکالیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نظر انداز کیا جانا یا بدسلوکی انہیں تنہائی، محرومی اور نفسیاتی کیفیت سے دوچار کر دیتی ہے۔

نجات کیئر ہوم کے بانی ملک اظہر تنویر بتاتے ہیں کہ کچھ برسوں سے پاکستان میں اولڈ ہومز کی طرف رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بڑی وجہ بدلتی سماجی روایات اور جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال ہے۔

" بچے اپنی سرگرمیوں میں اتنا مصروف ہیں کہ والدین سے ان کا تعلق کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ وہ والدین کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے جو معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب ہے۔"

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن راشد چوہدری کہتے ہیں کہ ہر کوئی صاحب ثروت یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ جب کوئی شخص ریٹائر ہوتا ہے یا کام کرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ خاندان پر بوجھ بن جاتا ہے۔

اس مہنگائی میں معمر افراد کی خوراک، علاج معالجے اور دیکھ بھال کے اخراجات عام گھرانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں 10 ہزار  بزرگوں کو پناہ ملنا بھی مشکل

ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں بیشتر افراد کے لیے بڑھاپا محض عمر رسیدگی کا معاملہ نہیں بلکہ ایسا خاموش بحران بن چکا ہے جو روز بروز سنگین شکل اختیار کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے حل کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔

پاکستان بھر میں سرکاری سطح پر پاکستان بیت المال  35 اولڈ ہومز چلا رہا ہے۔ پنجاب حکومت سات جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں ایک ایک یا دو دو ادارے چلا رہی ہیں۔

یہاں بڑے غیر سرکاری اداروں میں سے ایدھی فاؤنڈیشن  کے زیر انتظام 18، دارالسکون کراچی ایک، چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن  کا یک ویمن شیلٹر اور ایک اولڈ ہوم کام کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ کراچی سمیت بعض شہروں میں اکا دکا مزید غیر سرکاری اولڈ ہومز بھی موجود ہیں۔

یوں ملک کے تمام اولڈ ہومز ملا کر ان میں اتنی گنجائش بھی نہیں بنتی جہاں 10 ہزار عمر رسیدہ افراد بھی پناہ لے سکیں۔

اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت میں صورت حال پاکستان سے نسبتاً بہتر نظر آتی ہے جہاں عمر رسیدہ (60 سال سے زائد عمر ) افراد کل آبادی کا8.6 فیصد ہیں۔

ٹاٹا ٹرسٹس، سمارتھ اور اقوامِ متحدہ پاپولیشن فنڈ کی کچھ سال پہلے کی مشترکہ سٹڈی  کے مطابق وہاں معمر افراد کے لیے تقریباً ایک ہزار150 مراکز (اولڈ ہومز اور سینیئر لِونگ فسیلیٹیز) موجود ہیں جن میں لگ بھگ 97 ہزار لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔

اگرچہ سروے میں اولڈ ہومز میں سہولتوں کے معیار اور موزونیت پر کئی سوال اٹھائے گئے ہیں تاہم وہاں بھی اولڈ ایج ہومز آباد ہونے لگے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ دس برس میں آٹھ سے دس لاکھ افراد کی رہائش کا انتظام کرنا پڑے گا۔

بزرگ شہریوں کے لیے قوانین بہت، عمل ندارد

پبلک پالیسی ایکسپرٹ عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی، کمزور سماجی تحفظ، محدود طبی سہولیات اور بدلتی سماجی اقدار مل کر بڑھاپے کو سماجی مسئلہ بنا رہی ہیں۔ ریاست نہ تو اس پر توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی پالیسی سطح پر کوئی سنجیدگی نظر آتی ہے۔

بنگلہ دیش جیسے ملک میں بزرگ افراد کو ناصرف خوراک، رہائشی و طبی سہولیات فراہم کرنے کی کا آئینی ضمانت  دی گئی ہے بلکہ 1998ء میں معمر افراد کو الاؤنس دینے کا پروگرام متعارف کرایا گیا تھا۔

تاہم پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے میڈرڈ انٹرنیشنل پلان آف ایکشن آن ایجنگ 2002ء پر دستخط کے بعد سینیئر سیٹیزنز کے لیے اقدامات شروع کیے گئے۔ جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے تو پہلا سینیئر سیٹیزن ایکٹ 2007ء میں منظور ہوا تھا۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے لیے الگ الگ قانون سازی کے علاوہ وفاقی حکومت نے پیرنٹل پروٹیکشن آرڈیننس (2021) بھی جاری کیا تھا۔
ان تمام ملتے جلتے قوانین کا مقصد معمر افراد کے حقوق کا تحفظ اور بچوں و اہل خانہ سے / والدین کی مالی معاونت کو یقینی بنانا تھا۔

تاہم مذکورہ قوانین معمر افراد کے بیشتر مسائل حل نہیں کر سکے۔ ان کی بے وقعتی کی تلخ مثال 55 سالہ نرگس  کی کہانی ہے جو پانچ سال سے نجات کیئر ہوم راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بچے انہیں ملنے آتے ہیں مگر اپنے ساتھ گھر لے جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ آپ سے ملنے کیوں آتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا " اُنہیں ماں کی دعا چاہیے ہوتی ہے۔"

اس کیئر ہوم سے وابستہ شبنم عزیز کہتی ہیں کہ ان کے ہاں 100کے قریب معمر خواتین رہائش پذیر ہیں جن میں سے بیشتر گھروں میں برے سلوک کی شکایت کرتی ہیں۔

کیا ای او بی آئی اور بی آئی ایس پی باوقار بڑھاپے کی ضمانت ہیں؟

پاکستان میں قانون سازی کے علاوہ بزرگ شہریوں کے لیے ویلفیئر کے متعدد اقدامات کیے گئے لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ اثر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جاری مہنگائی کے سامنے ان کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

وفاقی حکومت نے پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی بڑھاپے میں مالی معاونت کے لیے ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن) پنشن متعارف کرائی تھی۔ بعدازاں پاورٹی ریڈکشن منصوبے کے تحت غریب خاندان کی خواتین سربراہوں و بیواوں کے لیے بینظر انکم سپورٹ پروگرام بھی شروع کیا۔

چاروں صوبوں نے بھی اپنی اپنی سطح پر کچھ فلاحی اقدامات کیے جیسا کہ محکمہ سماجی بہبود سندھ نے حال ہی میں نادرا کے تعاون سے'سینیئر سِٹیزن کارڈ' کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ان افراد کو صحت سمیت مختلف سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

تاہم راشد چوہدری بتاتے ہیں کہ ای او بی آئی پنشن صرف ان افراد (مرد یا عورت) کر ملتی ہے جو نجی ادارے کے ملازم رہے ہوں اور آجر نے ان کا کنٹریبیوشن (تنخواہ سے حصے کی رقم) جمع کرایا ہو۔ ملک میں رجسٹرڈ ورکرز (مرد و خواتین) کی تعداد 10 لاکھ سے بھی کم ہے یعنی 99 فیصد سے زیادہ افراد اس نظام سے باہر ہیں۔

یہ پنشن اتنی کم (تقریباً ساڑھے 11 ہزار ماہانہ) ہے کہ اس سے کوئی فرد کھانے پینے کی بنیادی اشیا کا انتظام بھی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ جیسی سکیموں سے خواتین کی کچھ مدد ضرور ہو جاتی ہے مگر یہ بھی باوقار بڑھاپے کی ضمانت نہیں بن سکتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں شہریوں کو سوشل سکیورٹی، پنشن، ہیلتھ کیئر، اولڈ ایج ہومز جیسی سہولتیں دیتی ہیں لیکن پاکستان میں بڑھاپے کے لیے ایسا کوئی قابلِ عمل ماڈل موجود ہی نہیں۔

بحران کا قابل عمل حل کیا ہے؟

پنجاب میں سات سرکاری اولڈ ایج ہومز ہیں جو لاہور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد، نارووال، ساہیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قائم کیے گئے ہیں۔

راولپنڈی کے سرکاری اولڈ ایج ہوم میں تقریباً 20 افراد مقیم ہیں جن کی کفالت صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن انتظامیہ کو ان کے کپڑوں اور دیگر ضروریات کے لیے بھی این جی اوز یا مخیر حضرات پر انحصار کرتا پڑتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس ادارے میں صرف ان معمر افراد کو جگہ دی جاتی ہے جو کسی ذہنی یا جسمانی معذروی کا شکار نہ ہوں۔ کوئی ایسا سینئر سیٹیزن وہاں پہنچے تو انہیں ایدھی ہوم بھیج دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر راولپنڈی محمد شاہد رانا نے یہ کہہ کر موقف دینے سے انکار کر دیا کہ انہیں اس پر بات کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ملک اظہر تنویر سمجھتے ہیں کہ کچھ مثبت اقدامات ہوئے ہیں مگر کیئر ہومز پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

"اکثر ہسپتالوں میں لاوارث مریض لائے جاتے ہیں ان کا ایمرجنسی میں علاج تو ہو جاتا ہے لیکن ڈسچارج کرتے وقت مسئلہ ہوتا ہے کہ انہیں کہاں بھیجا جائے؟ یہ خلا کیئر ہومز سے ہی پُر ہو سکتا ہے۔"

راشد چوہدری کے برعکس ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بیت المال کا مؤثر ماڈل موجود ہے۔ اگر کوئی بیمار کسی ہسپتال سے علاج کرانے کے لیے بیت المال میں درخواست دے تو یہ ادارہ متعلقہ ہسپتال کو ادائیگی کر کے علاج کی سہولت فراہم کر دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بیت المال کے قانون میں ضروری ترامیم کر کے اس ماڈل کو اپنایا جا سکتا ہے۔ نجی اداروں کے ساتھ مل کر اولڈ ہومز بڑھائے جائیں جہاں حکومت اسی طرح فنڈنگ کرے جیسے ہسپتالوں کو بیت المال کرتا ہے۔ یوں ناصرف ہزاروں معمر شہریوں کو رہائش و کفالت میسر ہوگی بلکہ غیر سرکاری و سرکاری اداروں کے درمیان اشتراک عمل بھی پیدا ہوگا۔

اولڈ ہوم میں رہنے والوں کے نام ان کی درخواست پر فرضی استعمال کیے گئے ہیں.

تاریخ اشاعت 30 اکتوبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شازیہ محبوب اسلام آباد میں مقیم ایک تحقیقی صحافی ہیں۔

thumb
سٹوری

پاکستان میں بڑھاپا خاموش بحران کی صورت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.