ضلع دادو کے گاؤں دید شریف کے رہائشی عبدالخالق سندھ کے ان درجنوں کاشت کاروں میں سے ایک ہیں جن کی زمینیں 2022ء کے تباہ کن سیلاب سے برباد ہو گئیں۔ ان کی 60 ایکڑ زرعی اراضی کو اتنا نقصان پہنچا کہ اگلے دو سال وہاں گھاس تک نہیں اُگی۔
سیلاب کا منظر آج بھی ان کی یادوں میں تازہ ہے۔
"ہمارے کھیتوں میں 25 سے 30 فٹ اور گھروں میں دو سے تین فٹ پانی کھڑا تھا۔ میں نے سیلاب میں اپنے ساری فصل اور مویشی کھو دیے، بہت سے لوگ گھروں تک سے محروم ہو گئے۔"
گرین ہاؤس گیسوں کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات خصوصاً سیلابوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارتِ منصوبہ بندی کی سربراہی میں ہونے والے سروے (پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ) کے مطابق 2022ء کے سیلاب سے ملک میں تقریباً چار کھرب 30 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا جس میں سے 70 فیصد حصہ صرف سندھ کے کسانوں کا تھا۔
دادو ہی کے ایک اور کسان گل حسن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سیلاب کے طویل مدتی اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ ان کی زمینیں میں پہلے والی زرخیزی آج تک واپس نہیں آئی۔
گل حسن اور عبدالخالق سمیت سندھ کے 43 کسانوں نے ان کمپنیوں کے خلاف کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے جو ان کے بقول اس تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ وہ ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانے پر دو جرمن کمپنیوں سے نقصانات کے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ کسان دادو، جیکب آباد اور لاڑکانہ کے مختلف دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔
مدعیان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ چھوٹے کسان ہیں جو اپنی روزی روٹی کے لیے اپنی زمینوں پر مکمل انحصار کرتے ہیں اور بڑے زمینداروں یا زرعی کارپوریشنز سے اپنی آزادی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کیس میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (ٹی این یو ایف) اور ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن مقامی طور پر ان کی مدد کر رہی ہیں۔

کثیرالقومی کمپنیوں کو سیلاب پر ہرجانے کے نوٹس
کسانوں نے 28 اکتوبر کو انسانی حقوق کی دو جرمن تنظیموں، یورپی مرکز برائے آئینی و انسانی حقوق (ای سی سی ایچ آر) اور میڈیکو انٹرنیشنل کی مدد سے رینش ویسٹ فیلین الیکٹریسٹی ورکس( آر ڈبلیو ای) اور ہائیڈل برگ میٹیریلز کو قانونی نوٹس بھیجے۔
ان نوٹسز میں 2022ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے ازالے کے لیے 10 لاکھ یورو ہرجانہ طلب کیا گیا ہے اور کمپنیوں کو جواب دینے یا رقم ادا کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔
یہ دو ملٹی نیشنل (کثیرالقومی) کمپنیاں خاص طور اس لیے منتخب کی گئیں کہ یہ یورپ کے بڑے کاربن اخراج کنندگان میں شمار ہوتی ہیں۔
آر ڈبلیو ای سب سے بڑی پاور کمپنیوں میں سے ایک ہے جو کوئلے پر انحصار کے باعث یورپ کی تاریخ میں بدترین آلودگی پھیلانے والوں میں شامل ہے۔ ہائیڈل برگ میٹیریلز دنیا کی بڑی سیمنٹ ساز کمپنیوں میں سے ایک ہے اور سیمنٹ انڈسٹری سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والی صنعت شمار ہوتی ہے۔
ای سی سی ایچ آر کی سینئر قانونی مشیر اینابیل بروگمین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ ان 100 کمپنیوں میں شامل ہیں جو دنیا کے 70 فیصد صنعتی کاربن اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ آر ڈبلیو ای کا حصہ 0.68 فیصد اور ہائیڈل برگ کا 0.12 فیصد ہے
وہ کہتی ہیں کہ یہ مقدار بظاہر زیادہ نہیں لگتی لیکن یہ بہت سے ممالک کے کاربن اخراج سے بھی زیادہ ہے۔ ان کمپنیوں کے اس اخراج کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے جو پاکستان جیسے ممالک میں بار بار اور زیادہ تباہ کن سیلابوں وغیرہ کو جنم دیتے ہیں۔
آر ڈبلیو ای کا ماضی پہلے ہی ماحولیاتی کارکنوں کے مطالبات کے خلاف جارحانہ رویے سے عبارت ہے۔
میڈیکو انٹرنیشنل میں جرمن پاکستانی رضاکار منہاج العارفین بتاتے ہیں کہ آر ڈبلیو ای نے 2023ء میں لوتزرارت کول مائن کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنوں پر 20.7 لاکھ یورو کا مقدمہ کیا تھا۔ اسی سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کمپنیاں ماحولیاتی تباہی کو کس قدر سنجیدہ یا غیرسنجیدہ لیتی ہیں۔ انہیں صرف منافع کی فکر ہے چاہے گلوبل ساؤتھ میں کتنے ہی لوگ متاثر ہوں۔

دو کمپنیاں اور پورے ملک سے زیادہ کاربن اخراج
دوسرے الفاظ میں صرف دو کمپنیوں یعنی آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ کا کاربن اخراج ہی 2023ء تک پاکستان جیسے پورے ملک (0.5 فیصد) کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ یوں پاکستان نے عالمی اخراج میں نسبتاً بہت کم حصہ ڈالا مگر اس کے باوجود وہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔
اینابیل مزید وضاحت کرتی ہیں کہ ان کمپنیوں کے تاریخی اخراج عالمی حدت میں اضافہ کرتے ہیں اور موسمی واقعات کی شدت اور تعداد بڑھا دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں سیلابوں کی صورت میں نظر آیا۔
یہ مقدمہ اس عام تصور کو چیلنج کرتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا غیر واضح مسئلہ ہے جس کی براہِ راست ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ سندھ کے کسانوں کا مؤقف ہے کہ اب آب و ہوا سے متعلق انتسابی سائنس (climate attribution science) ذمہ داری کا تعین ممکن بناتی ہے اور اسے قانونی طور پر چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
اینابیل کے مطابق حقائق اور قانون دونوں کی بنیاد پر کاربن اخراج اور اس کے اثرات کے درمیان ربط(causal link) قائم کرنا ممکن ہے۔
مربوط یا انتسابی سائنس یہ دیکھتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سیلاب جیسے انتہائی موسمی واقعات پر کتنے اثرات ہوتے ہیں۔ یہ سائنس موسمیاتی سٹیشنوں کے ڈیٹا کی مدد سے بتاتی ہے کہ عالمی حدت نےان واقعات کی وقوع پذیری کے امکان اور شدت میں کس حد تک اضافہ کیا۔
ان کے بقول بہت سے سائنسدان 2022ءکے سیلاب پر تحقیق کر رہے ہیں اور سب متفق ہیں کہ اس میں ماحولیاتی تبدیلی کا واضح اشارہ موجود ہے۔
اینابیل کیس سے متعلق کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے اس سیلاب پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں سے ماہرانہ رائے حاصل کی ہے اور مقامی ڈیٹا بھی جمع کر رہی ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی نے اس واقعے پر کس طرح اثر ڈالا۔
"اگر کمپنیاں نوٹس کا جواب نہیں دیتیں تو ہم اگلے مرحلے میں یہ سب کچھ جرمن عدالت میں پیش کریں گے۔"
لوک سجاگ نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے دونوں کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ آر ڈبلیو ای نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ ہائیڈل برگ نے نوٹس ملنے کی تصدیق کی ہے۔
"ہمیں 28 اکتوبر کو ایک لاء فرم کی طرف سے خط موصول ہوا ہے جس میں مبینہ طور پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نقصان کے ازالے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہم فی الحال اس خط کا جائزہ لے رہے ہیں۔"

موسمیاتی جوابدہی کی قانونی نظیر
پہلی نظر میں دیہی سندھ کے کسانوں کا یورپی عدالتوں میں دو صنعتی دیوؤں کو چیلنج کرنا ایک بعید از قیاس لگ سکتا ہے۔ تاہم ای سی سی ایچ آر اور میڈیکو انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ان بڑھتے قانونی تنازعات کا حصہ ہے جن میں کمیونیٹیز زیادہ آلودگی پھیلانے والوں کو جوابدہ ٹھہرا رہی ہیں۔
کئی کمیونٹیز اسی طرح کے مقدمات دائر کر چکی ہیں مثلاً فلپائن میں طوفان اوڈیٹ کے متاثرین نے برطانیہ میں شیل کے خلاف، انڈونیشیا کے جزیرے پاری کے رہائشیوں نے سوئس سیمنٹ کمپنی ہولسِم کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں اور ایک بیلجین کسان نے ٹوٹل اینرجیز کے خلاف دائر کیے۔ ان تمام کیسز میں بڑے اخراج کنندگان سے حالیہ یا ممکنہ نقصانات کے ازالے کی مانگ کی گئی ہے۔
میڈیکو انٹرنیشنل کے ساتھ اس کیس پر کام کرنے والی ماحولیاتی انصاف کی آرگنائزر کارین زینِگ کے مطابق نچلی سطح کے گروہوں کا ریاستوں پر انحصار کرنے کے بجائے کارپوریشنز کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے براہِ راست قانونی کارروائی کی طرف آنا دراصل حالیہ سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں گلوبل نارتھ (ترقی یافتہ ممالک) میں ایسی حکومتیں برسراقتدار آئیں جنہوں نے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اب کوئی ایسی سیاسی قوت باقی نہیں رہی جو گرین ٹرانزیشن کے عمل کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی انصاف کے بنیادی مسائل کو آگے بڑھانا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
جرمنی میں خاص طور پر یہ مقدمہ ساول لوسیانو لیویا بنام آر ڈبلیو ای کیس میں قائم ہونے والے قانونی نظیر پر منحصر ہے۔
پیرو کے ایک کسان لیویا نے 2015ء میں آر ڈبلیو ای پر مقدمہ دائر کیا تھا کہ کمپنی کا اخراج ان کے آبائی شہر ہُواراز کے اوپر موجود گلیشیئر کے پگھلاؤ میں تیزی لایا جس کے نتیجے میں نزدیک واقع پالکا کوچا جھیل میں پانی کی سطح بلند ہو گئی اور پورا شہر تباہ کن سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو گیا۔
اینابیل بروگمین کہتی ہیں کہ اگرچہ کسان (لیویا) کیس ہار گیا کیونکہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ ان کے گھر کو سیلاب سےکس حد تک خطرہ تھا۔ تاہم عدالت نے اس مقدمے میں اہم نظیر قائم کر دی کہ جرمن ٹارٹ قانون کے تحت آر ڈبلیو ای جیسے کاربن میجرز کو اخراج کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق عدالت نے تسلیم کیا کہ 1965 کے بعد سے آر ڈبلیو ای اور دیگر کاربن میجرز یقینی طور پر جانتے تھے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر اخراج کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کمپنیوں نے کچھ نہیں کیا جو ایک اہم قانونی نقطہ ہے۔

یہ مقدمہ صرف ہرجانے کے لیے نہیں
عبدالخالق کہتے ہیں کہ 10 لاکھ یورو (تقریباً 32 کروڑ روپے) اگرچہ ان کسانوں کے لیے مددگار ہو سکتے ہیں تاہم یہ کیس محض نقصان کے لیے ازالہ نہیں ہے۔"ہم نے اتنا کچھ کھو دیا کہ کوئی رقم ہماری اصل تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتی۔"
ان کے بقول اس کیس کا مقصد ایک بڑے عالمی تصور کو چیلنج کرنا ہے کہ بڑی کمپنیاں سالہا سال منافع کماتی رہیں اور ان کے اخراج کے نتائج گلوبل ساؤتھ (ترقی پذیر ممالک) کے عوام بھگتتے رہیں۔
اگر جرمن عدالت نے فیصلہ کسانوں کے حق میں دیا تو یہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ کمیونیٹیز کے لیے ایک نئی راہ کھول سکتا ہے۔
کارین زیننگ کہتی ہیں کہ کسانوں کے حق میں فیصلہ آنے کا مطلب یہ ہوگا کہ کارپوریشنز کو اپنی پیداواری لاگت میں وہ ماحولیاتی نقصان بھی شامل کرنا پڑے گا جو وہ غریب ملکوں کے عوام پر ڈال کر بچ جاتی تھیں۔ اس صورت میں موجودہ استحصالی طریقہ کار منافع بخش نہیں رہے گا اور نئے پیداواری ماڈل کی ضرورت ہو گی۔
اس کیس میں کسانوں کی مدد گار تنظیم این ٹی یو ایف کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کہتے ہیں کہ ہر سال کلائمیٹ کانفرنس (سی او پی) کے موقع پر عموماً سب سرگرم ہو جاتے ہیں لیکن اب تک موسمیاتی احتساب کا مطالبہ کرنے کے لیے قانونی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ مقدمہ انصاف کے دروازے کھولے گا۔
آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ قانونی نوٹسز کے نتیجے میں مذاکرات پر آمادہ ہو سکتے ہیں، معاوضہ پیشکش کر سکتے ہیں یا انکار کر سکتے ہیں۔ انکار کی صورت میں دعویٰ جرمنی کی عدالت میں چلا جائے گا۔
اگر ایسا ہوا تو یہ عمل طویل، پیچیدہ اور مہنگا ہونے کا امکان ہےجس میں ماہرین کی گواہیاں، موسمیاتی ماڈلز اور متعدد اپیلیں شامل ہوں گی۔ اس نوعیت کے مقدمات عموماً سالوں پر محیط ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ جیسی بڑی کمپنیوں کے پاس بے شمار وسائل اور بہترین وکلاء موجود ہیں۔
تاہم اس کوشش میں شامل لوگ یہ سب جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ کارین کا عزم سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے
"صرف اس لیے ہم خاموش نہیں رہ سکتے کہ دشمن بڑا ہے۔ ضروی ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کریں، جتنے بڑے وہ ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی اتنی زیادہ ہیں۔"
اب جو بھی ہو، یہ ناصرف ان 43 کسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا بلکہ موسمیاتی احتساب کو حقیقت کا روپ دینے کی عالمی کوشش کی راہ بھی متعین کرے گا۔
تاریخ اشاعت 17 نومبر 2025











