موسمیاتی انصاف: سیلاب سے متاثر 43 سندھی کسانوں نے دو جرمن کمپنیوں پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا

postImg

محسن مدثر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

موسمیاتی انصاف: سیلاب سے متاثر 43 سندھی کسانوں نے دو جرمن کمپنیوں پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا

محسن مدثر

loop

انگریزی میں پڑھیں

سندھ کے 43 کسانوں نے جرمنی کی دو کمپنیوں کو 2022ء کے سیلاب اور اس سے ہونے والے ان کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان سے 10 لاکھ یورو ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس سلسلے میں قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

دادو، جیکب آباد اور لاڑکانہ کے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والے ان کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تھا جس کی مرکزی ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک میں آلودگی پھیلانے والی بڑی کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے۔

ان کسانوں نے 28 اکتوبر کو جرمن کمپنیوں رینش ویسٹ فیلین الیکٹریسٹی ورکس (آر ڈبلیو ای) اور ہائیڈل برگ میٹیریلز کو قانونی نوٹس بھیجے ہیں جس میں چار ہفتوں میں ہرجانہ ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔

کسانوں کی معاونت انسانی حقوق کی دو جرمن تنظیمیں  یورپی مرکز برائے آئینی و انسانی حقوق (ای سی سی ایچ آر) اور میڈیکو انٹرنیشنل کر رہی ہیں جبکہ مقامی سطح پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (ٹی این یو ایف) اور ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن کسانوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔

یہ دو جرمن کمپنیاں یورپ میں وسیع پیمانے پر کاربن کا اخراج کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ 

آر ڈبلیو ای یورپ میں بجلی کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو کوئلے پر انحصار کے باعث یورپ کی تاریخ میں بدترین آلودگی پھیلانے والوں میں شامل ہے جبکہ ہائیڈل برگ میٹیریلز دنیا کی بڑی سیمنٹ ساز کمپنیوں میں سے ایک ہے اور سیمنٹ انڈسٹری سب سے زیادہ کاربن خارج  کرنے والی صنعت شمار ہوتی ہے۔

<p><br></p>

ان دو کمپنیوں کے خلاف ہی کیوں؟

کسانوں کی معاونت کرنے والے ادارے ای سی سی ایچ آر کی برلن میں مقیم سینئر قانونی مشیر اینابیل بروگمین نے لوک سجاگ کو آن لائن انٹرویو میں بتایا کہ آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ ان 180 کمپنیوں میں شامل ہیں جو دنیا بھرکے 70 فیصد صنعتی کاربن کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ آر ڈبلیو ای کا حصہ 0.68 فیصد بنتا ہے اور ہائیڈل برگ کا 0.12 فیصد ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ مقدار بظاہر زیادہ نہیں لگتی لیکن یہ بہت سے ممالک کے کاربن اخراج سے بھی زیادہ ہے۔ کاربن کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ 0.51 فیصد بنتا ہے جو آر ڈبلیو ای اور ان دونوں کمپنیوں کے مجموعی حصے سے کم ہے۔ دوسرے الفاظ میں گو پاکستان نے عالمی اخراج میں بہت کم حصہ ڈالا  ہے مگر ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا وہ سب سے زیادہ شکار ہو رہا ہے۔

اینابیل وضاحت کرتی ہیں کہ ان کمپنیوں کے دہائیوں سے جاری کاربن اخراج نے دنیا کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے جو موسمیاتی تباہیوں کی شدت اور تعدد میں اضافے کا ذمہ دار ہے جس کی ایک مثال پاکستان میں 2022ء آنے والا سیلاب ہے۔

آر ڈبلیو ای کا ماضی ماحولیاتی کارکنوں کے مطالبات کے خلاف جارحانہ رویے سے عبارت ہے۔

جرمن پاکستانی منہاج العارفین یورپ میں ماحولیات کی تحریک میں سرگرم ہیں اور میڈیکو انٹرنیشنل کے ساتھ بطور رضاکار کام کرتے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آر ڈبلیو ای نے 2023ء میں لوتزرارت کی کوئلے کی کانوں کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنوں پر 20.7 لاکھ یورو کا مقدمہ کیا تھا۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کمپنیاں ماحولیاتی تباہی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں ہیں۔ انہیں صرف منافع کی فکر ہے چاہے دنیا میں کتنے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کے برے نتائج بھگتنا پڑیں۔ 

کیا جرمن کمپنیوں کی پھیلائی آلودگی کا سندھ کے سیلاب سے تعلق عدالت میں ثابت کیا جا سکے گا ؟

عام تصور تو یہی ہے ماحولیاتی تباہی ایک غیرواضح اور مبہم سا مسئلہ ہے اور اس کی براہِ راست ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی جاسکتی پھر عدالت میں کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لئے جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ اس معاملے میں شاید ممکن ہی نہیں ہے۔

لیکن اینابیل سمجھتی ہیں کہ کاربن اخراج اور موسمیاتی تباہیوں کے درمیان علت اور معلول کا رشتہ (causal link) ثابت کرنا ممکن ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ موسمیات کی انتسابی سائنس (climate attribution science) موسمیاتی سٹیشنوں کے ڈیٹا کی مدد سے بتاتی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے نے سیلاب جیسے شدید موسمی واقعات کے وقوع پذیری ہونے کے امکان اور ان کی شدت میں کس حد تک اضافہ کیا۔ 

ان کے بقول بہت سے سائنسدان 2022ءکے سیلاب پر تحقیق کر رہے ہیں اور سب متفق ہیں کہ اس سیلاب میں ماحولیاتی تبدیلی کے کردار کا واضح اشارہ موجود ہے۔

اینابیل کیس سے متعلق کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے اس سیلاب پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں سے ماہرانہ رائے حاصل کی ہے اور مقامی ڈیٹا بھی جمع کر رہی ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی نے اس واقعے پر کس طرح اثر ڈالا۔

"اگر کمپنیاں نوٹس کا جواب نہیں دیتیں تو ہم اگلے مرحلے میں یہ سب کچھ جرمن عدالت میں پیش کریں گے۔"

پیرو کے کسان کی قانونی نظیر: سندھی کسانوں کے لیے امید کی کرن

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی کمیونٹی نے آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کو اپنے نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرانے کی قانونی کوشش کی ہو۔ فلپائن میں طوفان اوڈیٹ کے متاثرین نے اکتوبر 2025ء میں برطانیہ میں شیل کے خلاف مقدمی دائر کیا ہے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا کے جزیرے پاری کے رہائشیوں نے سوئس سیمنٹ کمپنی ہولسِم کے خلاف 2022ء میں سوئٹزرلینڈ میں اور ایک بیلجین کسان نے ٹوٹل اینرجیز کے خلاف مارچ 2024ء میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ ان تمام کیسز میں بڑے اخراج کنندگان سے حالیہ یا ممکنہ نقصانات کے ازالے کی مانگ کی گئی ہے۔

جرمنی میں اس مقدمے سے منسلک ادارے جرمنی کے ساول لوسیانو لیویا بنام آر ڈبلیو ای کیس کی قانونی نظیر پر کافی امید لگائے ہوئے ہیں۔

2015ء میں پیرو کے ایک کسان لیویا نے آر ڈبلیو ای پر مقدمہ دائر کیا تھا کہ کمپنی کا اخراج ان کے آبائی شہر ہُواراز کے اوپر موجود گلیشیئر کے پگھلاؤ میں تیزی لایا جس کے نتیجے میں نزدیک واقع پالکا کوچا جھیل میں پانی کی سطح بلند ہو گئی اور پورا شہر تباہ کن سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو گیا۔

اینابیل بروگمین کہتی ہیں کہ اگرچہ  کسان لیویا کیس ہار گیا کیونکہ یہ  ثابت نہیں ہوا  کہ ان کے گھر کو سیلاب سےکس حد تک خطرہ تھا۔ تاہم عدالت نے اس مقدمے میں ایک اہم نظیر  قائم کر دی کہ جرمن ٹارٹ قانون کے تحت آر ڈبلیو ای جیسے کاربن میجرز کو اخراج کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق عدالت نے تسلیم کیا کہ 1965ء کے بعد سے آر ڈبلیو ای اور دیگر کاربن میجرز  یا تو جانتے تھے کہ ان کے اخراج کے ماحولیات پر تباہ کن اثرات ہوتے ہیں یا پھر یہ جانکاری ان کی دسترس میں تھی اس لئے انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود  ان کمپنیوں نے کچھ نہیں کیا جو ایک اہم قانونی نقطہ ہے۔

ماحولیاتی انصاف کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا کیوں ضروری ہو گیا ہے؟

میڈیکو انٹرنیشنل کے ساتھ اس کیس پر کام کرنے والی ماحولیاتی انصاف کی آرگنائزر کارین زینِگ اس مقدمے کی ایک اور اہم جہت کی جانب توجہ دلاتی ہیں۔ فرینکفرٹ سے آن لائن انٹرویو میں انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ مقامی سطح کے گروہوں کا اپنی ریاستوں پر انحصار کرنے کے بجائے کارپوریشنز کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے براہِ راست قانونی کارروائی کی طرف آنا حالیہ سیاسی تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں گلوبل نارتھ (ترقی یافتہ ممالک) میں ایسی حکومتیں برسراقتدار آئیں جنہوں نے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسیوں کا خاتمہ کر دیا ہے یا ایسا کرنے کے درپے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ اب کوئی ایسی سیاسی قوت باقی نہیں رہی جو  ماحول دوست پالیسیوں (یا گرین ٹرانزیشن کے عمل) کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ ہو اس لیے ماحولیاتی انصاف کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے ایوانوں تک پہنچنا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق یہی اس مقدمے کی اہمیت ہے۔ اگر جرمن عدالت نے فیصلہ کسانوں کے حق میں دیا تو یہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ کمیونیٹیز کے لیے ایک نئی راہ کھول سکتا ہے۔

کارین زیننگ کہتی ہیں کہ کسانوں کے حق میں فیصلہ آنے کا مطلب یہ ہوگا کہ کارپوریشنز کو اپنی پیداواری لاگت میں وہ ماحولیاتی نقصان کی قیمیت بھی شامل کرنا پڑے گی جو ابھی وہ غریب ملکوں کے عوام پر منتقل کر کے بچ جاتی ہیں۔ اس صورت میں موجودہ طریقہ کار منافع بخش نہیں رہے گا اور نئے زیادہ ذمہ دارانہ اور منصفانہ پیداواری ماڈل کی ضرورت پڑے گی۔

"ہم صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ دشمن بڑا ہے"

اس کیس میں کسانوں کی مدد گار تنظیم این ٹی یو ایف کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کہتے ہیں کہ ہر سال کلائمیٹ کانفرنس (سی او پی) کے موقع پر عموماً سب سرگرم ہو جاتے ہیں لیکن اب تک موسمیاتی احتساب کا مطالبہ کرنے کے لیے قانونی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ مقدمہ انصاف کے دروازے کھولے گا۔

آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ  قانونی نوٹسز کے نتیجے میں مذاکرات پر آمادہ ہو سکتے ہیں، معاوضہ کی پیشکش کر سکتے ہیں یا انکار کر سکتے ہیں۔ انکار  کی صورت میں دعویٰ جرمنی کی عدالت میں چلا جائے گا۔

اگر ایسا ہوا تو یہ عمل طویل، پیچیدہ اور مہنگا ہونے کا امکان ہےجس میں ماہرین کی گواہیاں، موسمیاتی ماڈلز اور متعدد اپیلیں شامل ہوں گی۔ اس نوعیت کے مقدمات عموماً سالوں چلتے ہیں اور آر ڈبلیو ای اور ہائیڈل برگ جیسی بڑی کمپنیوں  کے پاس بے شمار وسائل اور بہترین وکلاء موجود ہیں۔

تاہم اس کوشش میں شامل لوگ یہ سب جانتے ہیں اور یاد دہانی پر کہتے ہیں کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ میڈیکو انٹرنیشنل کی کارین زینِگ کارین کا عزم  اس بات کی تصدیق  کرتا ہے۔ "ہم صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ دشمن بڑا ہے۔ ضروی ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کریں، جتنے بڑے وہ ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی اتنی زیادہ ہیں۔"

"ہم نے اتنا کچھ کھو دیا کہ کوئی رقم ہماری اصل تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتی"

ضلع دادو کے گاؤں دید شریف کے عبدالخالق اس مقدمے کے 43 مدعیان میں شامل ہیں۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب میں ان کی 60 ایکڑ زرعی اراضی کو اتنا نقصان پہنچا تھا کہ اگلے دو سال وہاں "گھاس تک نہیں اُگی۔ میں نے سیلاب میں اپنے ساری فصل اور مویشی کھو دیے، بہت سے لوگ گھروں تک سے محروم ہو گئے۔"

انہوں نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 10 لاکھ یورو (تقریباً 32 کروڑ روپے) اگرچہ مدعی کسانوں کے لیے مددگار ہو سکتے ہیں تاہم یہ کیس محض مالی نقصان کے ازالے کے لیے نہیں ہے۔ "ہم نے اتنا کچھ کھو دیا کہ کوئی رقم ہماری اصل تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتی۔"

وہ کہتے ہیں کہ اس کیس کا مقصد ماحولیاتی انصاف کے تصور کو ایک نئی جہت دینا ہے۔ "یہ ناانصافی ہے کہ بڑی کمپنیاں سالہا سال منافع کماتی رہیں اور ان کی پھیلائی آلودگی کے نتائج گلوبل ساؤتھ (ترقی پذیر ممالک) کے عوام بھگتتے رہیں۔"

وزارتِ منصوبہ بندی کی سربراہی میں ہونے والے سروے (پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ) کے مطابق 2022ء کے سیلاب سے ملک میں تقریباً چار کھرب 30 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا جس میں سے 70 فیصد حصہ صرف سندھ کے کسانوں کا تھا۔

لوک سجاگ نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے دونوں جرمن کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ آر ڈبلیو ای نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا جبکہ ہائیڈل برگ نے بذریعہ ای میل نوٹس ملنے کی تصدیق کی ہے۔

"ہمیں 28 اکتوبر  کو ایک لاء فرم کی طرف سے خط موصول ہوا ہے جس میں مبینہ طور پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نقصان کے ازالے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہم فی الحال اس خط کا جائزہ لے رہے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 17 نومبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محسن نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ زرعی، شہری اور توانائی شعبے کے مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

موسمیاتی انصاف: سیلاب سے متاثر 43 سندھی کسانوں نے دو جرمن کمپنیوں پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر
thumb
سٹوری

گندم اگائیں، کھاد کی رقم سندھ حکومت دے گی، پروگرام پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پشاور میں بے گھر مزدوروں کے لئے فلیٹ پانچ سال سے تیار ہیں لیکن الاٹ کیوں نہیں ہو پا رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنبی جان اورکزئی
thumb
سٹوری

بھورے ریچھ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ: دیو سائی کے بادشاہ کی سلطنت کن خطرات میں گھری ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

پاکستان میں بڑھاپا خاموش بحران کی صورت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.