معروف پاکستانی گلوکارہ قرۃ العین بلوچ چار ستمبر کو گلگت بلتستان میں ایک بھورے ریچھ (ہمالین براون بیئر) کے حملے میں زخمی ہو گئی تھیں۔ یہ واقعہ دیوسائی (ضلع استور) کے ایک عارضی کیمپ میں پیش آیا جہاں وہ سو رہی تھیں۔ انہیں راتوں رات طبی امداد کے لیے سکردو منتقل کرنا پڑا تھا۔
قرۃ العین وہاں سیلاب کے دوران امدادی کاروائیوں میں حصہ لینے کے لیے ایک تنظیم کے ساتھ گئی تھیں۔ وہ پہلے بھی ایسے کاموں میں بطور رضا کار حصہ لیتی رہی ہیں۔
اس واقعے پر بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بھورے ریچھ کو کسی نے اکسایا ہو گا یا پھر کیمپ میں کچھ پکایا ہو گا جس کی بو سونگھتا ہوا وہ وہاں پہنچ گیا تاہم ان کی میزبان تنظیم کے بانی ڈائریکٹر ٹاڈ شی نے ان باتوں کو مفروضے قرار دیا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ماہرین کے مطابق بھی ریچھ انسانوں سے دور بھاگتے ہیں اور یہ دیوسائی میں کسی انسان پر حملے کا پہلا واقعہ تھا۔
لوک سجاگ نے اس حملے کی تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ دیوسائی میں بعض افراد بھورے ریچھ اور دیگر جانوروں کو بسکٹ، ڈبل روٹی جیسی اشیاء کھلا دیتے ہیں یا پھر اپنا بچا ہوا کھانا وہیں چھوڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ریچھ اب انسانوں کے قریب خوراک تلاش کرنے لگے ہیں۔
اس سے ناصرف سیاحوں بلکہ بھورے ریچھ کے لیے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں جس کی نسل پاکستان میں تین عشرے قبل معدومی کے قریب پہنچ گئی تھی۔

پاکستان میں بھورے ریچھ کم کیوں ہوتے چلے گئے؟
دیوسائی جسے دیووں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، اوسطاً ساڑھے 13 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سطح مرتفع (پلیٹو) ہے۔ یہ پاکستان میں بھورے ریچھوں کا بڑا مسکن ہے لیکن ان کی آبادی یہاں کم کیوں ہوئی؟ اس کی کئی وجوہ ہیں۔
بھورے ریچھ کے مختلف اعضا صدیوں سے چینی اور کئی دوسرے روایتی طبی نظاموں میں انسانی علاج کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ اس کے پِتے یا زردآب کو جگر، آنکھوں کی بیماریوں، بواسیر اور پتھری کا علاج سمجھا جاتا ہے جبکہ چربی جلدی امراض اور جوڑوں کے درد میں بطور مرہم استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں ریچھ کتوں کی لڑائی جیسے ظالمانہ کھیل میں بھی انہیں استعمال کیا جاتا رہا ہے گو یہ رحجان اب کم ہو گیا مگر اکا دکا واقعات اب بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔
لڑائی کے لیے ریچھ کا بچہ پکڑ کر لایا جاتا تھا جسے مخصوص کمیونٹی کے لوگ پالتے اور تربیت دیتے تھے۔ بچہ حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات مادہ ریچھ کو مار دیا جاتا تھا جس کی افزائش نسل پہلے ہی سست ہوتی ہے کیونکہ وہ چار یا پانچ سال بعد بچہ دیتی ہے۔
اس کے علاوہ مقامی لوگ بھی ریچھ کو اپنے مال مویشی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اگر وہ آس پاس پایا جائے تو اکثر اسے مار دیتے تھے۔
اس صورت حال کے پیش نظر حکومت نے جنگلی حیات خصوصاً بھورے ریچھ کے تحفظ کے لیے 1993ء میں دیوسائی کو نیشنل پارک یعنی جانوروں کی پناہ گاہ قرار دے دیا تھا۔

ریچھ کے اعضا کی چوری کا تازہ واقعہ: کیا مافیا فعال ہے؟
دیوسائی کا نیشنل پارک بننا بھورے ریچھ کے لیے اچھا ثابت ہوا۔ نیشنل پارک کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ افسر محمد سجاد کے مطابق 1993ء میں یہاں محض 15 سے 17 بھورے ریچھ رہ گئے تھے لیکن اب یہ تعداد 75 سے 78 تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم 32 سال بعد بھی ان کی نسل خطرے سے باہر نہیں آئی اور ان خطرات کی نوعیت بھی یکسر تبدیل نہیں ہوئی۔
قرۃ العین بلوچ پر حملے کے 22 روز بعد (27 ستمبر کو) ایک بھورا ریچھ دیوسائی کی چراگاہ میں مردہ پایا گیا جس کا ڈاکٹروں نے 28 ستمبر کو پوسٹ مارٹم کیا۔ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق یہ نر ریچھ دائیں آنکھ سے اندھا تھا (انکھ تھی ہی نہیں) اور وہ جگر کی پرانی بیماری کے باعث کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ تاہم اس کی موت جانوروں کے کسی ریوڑ سے ٹکرانے اور ان کے قدموں تلے روندے جانے کے باعث ہوئی۔
اگرچہ موت میں انسانی کردار کے کوئی شواہد نہیں ملے لیکن پوسٹمارٹم میں انکشاف ہوا کہ بھورے ریچھ کی ہلاکت کے بعد اس کی زبان اور تولیدی اعضا چرا لیے گئے تھے جس کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں اب بھی جنگلی جانوروں کے اعضا کی بلیک مارکیٹ کے کارندے یا ایسا کرنے کے خواہش مند موجود ہیں۔
تاہم گلگت میں تعینات وائلڈ لائف افسر فیضان دکھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جی بی میں جس شخص نے بھی غیر قانونی شکار کیا اسے جیل بھیجا گیا ہے۔"براون بیئر سے متعلق شکایات بہت کم ہیں۔ شاذونادر کوئی واقعہ ہوا بھی تو ہم نے ملزم کی نشاندہی ہونے پر ہمیشہ کارروائی کی ہے۔"

پرانے قوانین: کم سزائیں اور مہنگی بلیک مارکیٹ
ہری پور یونیورسٹی سے وابستہ محقق ڈاکٹر محمد کبیر دیوسائی کی وائلڈ لائف پر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کے غیرقانونی کاروبار میں مقامی باشندوں سے لے کر بین الاقوامی سمگلرز تک ملوث ہوتے ہیں۔ کمزور نگرانی، محدود وسائل، اداروں میں رابطے کا فقدان اور بدعنوانی مل کر اس کام کو آسان بنا دیتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نیشنل پارک کی نگرانی کے لیے صرف 24 ملازمین ہیں جبکہ یہاں کم از کم 40 کی ضرورت ہے۔
محکمہ کے مطابق ایک سال کے دوران گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ایک بھورے ریچھ کے مردہ پائے جانے ( جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) کے علاوہ ایک کالا ریچھ، دو مارخور، تین آئی بیکس مارنے اور برفانی چیتے کا بچہ پکڑنے کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
کالے ریچھ کو تانگیر ویلی (ضلع تانگیر) میں مارا گیا جس کو پہاڑی سے پھینکنے کی ویڈیو جولائی میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔ ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اسے تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا جس کے باعث کیس آگے نہیں بڑھا۔
ماہرین مانتے ہیں کہ مقدمات کا اندراج ان جرائم کے خاتمے کے لیے کافی نہیں۔ ڈاکٹر کبیر کے خیال میں وائلڈ لائف قوانین بھی پرانے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ بھورا ریچھ مارنے پر آج تک زیادہ سے زیادہ تین لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا، زندہ ریچھ پکڑنے کی سزا اس سے بھی کم ہے جبکہ یہی ریچھ بلیک مارکیٹ میں اس سے کئی گنا مہنگا بکتا ہے۔ یہ سزائیں جرم کی روک تھام میں موثر ثابت نہیں ہو سکتیں۔

جنگلی حیات کو انصاف کونسی عدالت سے ملے گا؟
ڈاکٹر محمد کبیر ایک اور قانونی ثقم کا بھی ذکر کرتے ہیں وہ یہ کہ لوگ سیلف ڈیفنس (خود کو بچانا) کے قانون کا سہارا لے کر بھی جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں۔
"یہ ابہام ختم کرنا ہو گا۔ دنیا میں وائلڈ لائف کے تحفظ کے لیے کئی نئے ایس او پیز (ضابطے) سامنے آ چکے ہیں جنہیں اپنایا جا سکتا ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج اور آباد کاری جیسے نئے حقائق کی روشنی میں ان قوانین کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا اور پالیسیوں کے نفاذ میں مقامی کمیونٹیز کو بھی شامل کرنا ہو گا۔
جنگلی حیات اپنے قدرتی مسکن کے سکڑنے کے باعث پہلے ہی اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتی ہے، اب درجہ حرارت میں اچانک کمی بیشی اور برفباری کے بدلتے موسم بھورے ریچھ کی افزائش، ہجرت اور ہائبرنیشن (سردیوں کی لمبی نیند) پر مزید منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔یہ عوامل انسان اور جنگلی حیات کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد کبیر سمجھتے ہیں کہ دیوسائی میں اگر مقامی کمیونٹی کے مویشیوں کا تحفظ یا ان کی ہلاکت پر معاوضہ یقینی بنایا جائے تو جنگلی جانوروں کو مارنے کا جواز ختم ہو جائے گا۔ یہ مسئلہ نیشنل پارک کے گرد باڑ اور کیٹل انشورنس سکیم متعارف کرانے سے حل ہو سکتا ہے۔ اس سے پارک کی نگرانی پر مامور عملے پر دباؤ بھی کم ہو گا۔
"جہاں تک جنگلی جانوروں کو انسانی خوراک کھلانے، کھانا پکانے یا بچا ہوا کھانا پارک ایریا میں چھوڑنے کا تعلق ہے، تو آپ سیاحوں کی تربیت و نگرانی کا نظام بہتر بنائیں۔ پائیدار سیاحت اور وائلڈ لائف کا تحفظ دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔"
قوانین پر موثر عملدرآمد ایک اور مسئلہ ہے۔ حکومت نے قرۃ العین پر حملے کے بعد دیوسائی میں کیمپنگ پر پابندی لگا دی تھی لیکن اگلے روز ہی وہاں لوگ اہل و عیال سمیت خیموں میں موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟
تبت سے پامیر تک علاقائی تعاون جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے
ہیمالین براؤن بیئر پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر محمد علی نواز بتاتے ہیں کہ یہ جنگلی جانور ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر پہاڑی علاقے میں آزاد گھومتے تھے۔ پچھلے 50 سال میں انسانی آبادی، انفراسٹرکچر، گلہ بانی اور غیر منظم سیاحت میں اضافے نے ان کے مسکن کا رقبہ تنگ کر دیے ہیں جو انسانوں اور جنگلی جانوروں میں تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔
دیوسائی نیشنل پارک، نانگا پربت کے مشرق میں ضلع استور اور سکردو کے نو لاکھ 86 ہزار ایکڑ (تین ہزار 584 مربع کلومیٹر) رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں دو بڑے ماحولیاتی ریجن یعنی ہمالیہ اور قراقرم و پامیر کے پہاڑی علاقے آپس میں ملتے ہیں۔
ان بلند چراگاہوں، پتھریلی زمینوں اور میدانوں پر شیوسر جھیل کے علاوہ تین ندیاں شاتنگ، بڑا پانی اور کالا پانی بہتی ہیں۔ ان کے ملاپ سے دریائے شِگَر بنتا ہے جو دریائے سندھ کی ایک اہم معاون ندی ہے۔ یہ ماحول شکار اور شکاری جانوروں کی افزائش کے لیے بہت ساز گار ہوتا ہے۔
دیوسائی کئی جنگلی جانوروں کی پناہ گاہ ہے جن میں ہیمالین بھورے ریچھ کے علاوہ تبتی بھیڑیا، آئی بیکس، تبتی لال لومڑی، لداخی یورال (بھیڑ) اور گولڈن مارمٹ (marmot) شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر جانور قراقرم، ہمالیہ اور لداخ کی پہاڑیوں میں دریائے سندھ کی وادی کے ذریعے آتے جاتے رہتے ہیں۔
سردیوں میں دیوسائی برف سے ڈھک جاتا ہے اور گرمیوں میں برف پگھلتی ہوتی ہے تو ندیوں کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔ یہاں ناصرف برفانی ٹراؤٹ مچھلیاں پرورش پاتی ہیں بلکہ یہ پانی گریفن گدھ، گولڈن ایگل، لگار اور پیریگرین فالکنز سمیت 124 مقامی و مہمان پرندوں کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔
بہار میں اس سطح مرتفع پر بید، پوا (گھاس)، سیکسیفریگا و دیگر انواع کی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں۔ پورا علاقہ پھولوں، خوشبو اور نایاب تتلیوں سے بھر جاتا ہے۔ یہی نباتات و دریا جنگلی حیات کو واٖفر خوراک فراہم کرتے ہیں۔
ہیمالین بھورا ریچھ اس کے علاوہ نیپال، بھارت، چین اور افغانستان میں بھی پایا جاتا ہے
ڈاکٹر محمد علی نواز تجویز کرتے ہیں کہ تبت سے پامیر کی پہاڑیوں تک سرحد پار تعاون (پاکستان، بھارت، چین، افغانستان) بڑھایا جائے تاکہ ریچھ کے قدرتی راستے محفوظ رہیں۔ نانگا پربت کا علاقہ دیوسائی نیشنل پارک میں شامل کیا جائے، اس سے برفانی چیتے و دیگر جانوروں کو ایک نیا مسکن مل سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 17 نومبر 2025











