کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

postImg

محسن مدثر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

محسن مدثر

loop

انگریزی میں پڑھیں

منیر احمد شیخوپورہ کی تحصیل شرقپور میں اپنے 10 ایکڑ امرود کے اُجڑے باغ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جو کبھی سرسبز و شاداب تھا۔ انہوں نے چند ماہ قبل ہی یہ زمین باغ سمیت ٹھیکے پر لی اور اس پر تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ کیے۔

انہیں اچھی فصل کی اُمید تھی جس سے اگلے کئی مہینے ان کا گھر چلتا لیکن سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ اب باغ کی جگہ کیچڑ اور پانی رہ گیا ہے۔

"سیلاب نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، میرا 25 سے 30 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ میں نے تیمیر گرہ (لوئر دیر) کے ایک بیوپاری سے رقم لے کر یہاں لگائی تھی۔ وہ قرضہ سر پر کھڑا ہے اور اگلی فصل کے لیے بیج خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔"

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے مزید 20 ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے کر باجرہ، مکئی اور دھان لگایا تھا۔ وہ کھیت بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئے جس سے انہیں تقریباً 50 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

دریا تو اب پر سکون ہو گئے ہیں مگر منیر احمد جیسے ہزاروں کسان ایک نئے بحران سے دوچار ہیں۔

پنجاب میں 1988 کے سیلاب کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر نقصان کبھی نہیں دیکھا۔ ستمبر کے آخر میں محکمہ زراعت پنجاب کے زیر کنٹرول کام کرنے والے ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے تقریباً 25 لاکھ ایکڑ فصلیں متاثر ہوئیں جس سے لاکھوں خاندانوں کی روزی روٹی داؤ پر لگ گئی۔

کھیت ڈوبے تو منڈیاں سونی ہوگئیں

سیلاب سے پنجاب میں سبزیوں کا زیرِ کاشت ایک لاکھ 15 ہزار ایکڑ میں سے 51 ہزار ایکڑ (44 فیصد) رقبہ متاثر ہوا۔ ان میں زیادہ سبزی پیدا کرنے والی لاہور، ساہیوال اور فیصل آباد ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوئیں ہیں جہاں پر بالترتیب ایک لاکھ 75 ہزار، ایک لاکھ 77 ہزار اور چار لاکھ 92 ہزار ایکڑ زرعی ارازعی کو نقصان پہنچا ہے۔

سیلاب سے لاہور جیسے بڑے شہر کی ضرورت پوری کرنے والے اضلاع  قصور اور شیخوپورہ بھی شدید متاثر ہوئے جس سے آنے والے دنوں میں سبزیوں کی فراہمی میں کمی آسکتی ہے۔

ضلع شیخوپورہ براہِ راست دریائے راوی کے قہر کا شکار ہوا۔ سیلاب نے شرقپور کے علاقے میں تقریباً پانچ کلومیٹر اندر تک درجنوں دیہات کی زرعی زمینوں کو ڈبو دیا۔ یہاں کے کسان عموماً خریف سیزن میں چاول اور باغات کے ساتھ سبزیاں بھی کاشت کرتے ہیں جو لاہور کی طلب بھی پوری کرتی ہیں۔

شرقپور کے گاؤں بھولے شاہ کے کسان ملک جہانگیر منظور کی بھنڈی، توری، آلو اور لوکی کی فصل مکمل تباہ ہوگئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ سبزیاں روز منڈی جا رہی تھیں اور نرخ کم تھے لیکن اب ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

اسی طرح فیض پور کلاں کے عبدالستار کہتے ہیں کہ انہوں نے بھنڈی، توری اور لوکی کاشت کیا جس پر فی ایکڑ ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے مگر سب ختم ہوگیا۔

ویجیٹیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کے پرنسپل سائنٹسٹ غضنفر حماد بتاتے ہیں کہ سیلاب اُس وقت آیا جب گرمیوں کی سبزیاں بھنڈی، کریلا ، ٹنڈے اور دوسری فصلیں تیار تھیں۔ جیسے ہی ان کی رسد متاثر ہوئی تو قیمتوں میں فوراً اضافہ شروع ہوگیا۔

 اگست کے آخری ہفتے میں ان سبزیوں کی قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ بھنڈی کی قیمت میں 98 فیصد، کریلے کی87 فیصد، لوکی کی 55 فیصد اور تربوز کی قیمت 36 فیصد زیادہ  ہوگئی۔

لاہور میں صارفین کو اب سبزیوں کی قلت اور بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے جو براہِ راست سیلاب سے کھیتوں کی تباہی اور سپلائی چین منقطع ہونے کا نتیجہ ہے۔

راوی روڈ کی سبزی منڈی میں دکاندار محمد فرمان بتاتے ہیں کہ پہلے کریلا شکرگڑھ اور نارووال سے آتا تھا لیکن اب سندھ سے منگوانا پڑتا ہے جس سے ٹرانسپورٹ کی لاگت دگنا ہوگئی ہے۔

"پہلے کریلا 500 سے 600 روپے دھڑی (پانچ کلو) ملتا تھا جو اب ہزار سے 12 سو روپے ہو گیا ہے۔ ہماری فروخت کم ہوگئی ہے اور صارفین بھی پریشان ہیں۔"

اب آم اور امرود کہاں سے آئیں گے؟

سیلاب نے پنجاب میں سبزیوں کے علاوہ باغات کو بھی طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے۔ کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب کے مطابق تقریباً 71 ہزار 467 ایکڑ پر لگے باغات متاثر ہوئے جو کل رقبے کا 12.5 فیصد ہیں۔ ان میں سے 64 ہزار 480 ایکڑ آم کے باغات ہیں۔

باغات ملتان ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں اکیلے 38 ہزار 355 ایکڑ آم  کے پودے زیرِ آب آ گئے۔

مظفر گڑھ ملک میں سب سے زیادہ آم پیدا کرنے والے اضلاع میں سے ایک ہے۔ یہاں کے ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت حبیب الرحمان بتاتے ہیں کہ اس ضلعے میں 14 ہزار ایکڑ باغات زیرِ آب ہیں جن میں 80 فیصد پودے تین سے چار سال پرانے ہیں۔ ان کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مینگو ریسرچ سٹیشن شجاع آباد کے سینیئر سائنٹسٹ جاوید اقبال کے مطابق کھڑے پانی میں فنگس اور جراثیم تیزی سے پھیلتے ہیں جو درختوں کی جڑوں اور چھال کو نقصان پہنچاتے ہیں۔پانی اُترنے کے بعد بھی بیماری برقرار رہتی ہے اور درختوں کی بحالی کے لیے جراثیم کش ادویات اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ سیلاب آم اور دیگر پھلوں کی ملکی پیداوار کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے جس سے کسانوں کو سنبھلنے میں کئی سال لگیں گے۔ سبزیاں اگلے موسم میں دوبارہ بوئی جا سکتی ہیں لیکن پھلدار پوتوں کو پیداوار دینے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔

جاوید اقبال کہتے ہیں کہ آم کا پودا چار سے پانچ سال میں پیداوار دینا شروع تو کردیتا ہے لیکن عروج پر پہنچنے کے لیے 8 سال لگتے ہیں۔ اسی طرح امرود کے پودوں کو بھی پھل دینے میں دو سے تین سال اور مکمل پیداوار تک پہنچنے میں آٹھ سال لگ جاتے ہیں۔

جنوبی پنجاب جہاں پر آم کے باغات زیادہ ہیں تو لاہور ڈیژن کے اضلاع شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب امرود کے لیے مشہور ہیں، یہاں پر پنجاب میں امرود کی کل پیداوار کا 41 فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے۔ ان دونوں اضلاع میں 28 ہزار ایکڑ رقبے پر امرود کے باغات ہیں جو راوی کے بپھرنے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

منیر احمد کے امرود کے باغ میں پھل سوکھ کر سیاہ ہو چکے ہیں جبکہ ایک اور کسان سلامت علی بتاتے ہیں کہ ان کا دو ایکڑ باغ تھا جو انہوں نے ڈھائی لاکھ روپے فی ایکڑ ٹھیکے پر لیا تھا۔ اس پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ فی ایکڑ خرچہ آیا۔ ان کے بقول انہیں تقریباً 8 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

درجنوں کسان جن کی زمینیں نچلے علاقوں میں ہیں، وہ نہیں جانتے کہ وہ اب اس مشکل سے کیسے نکل پائیں گے۔

کیا سیلاب زدہ زمینیں نئی فصل کے لیے تیار ہو پائیں گی 

فیصل آباد کے ویجیٹیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محمد سجاد سعید کا خیال ہے کہ رواں سال کے سیلاب کے معاشی اثرات سنگین ہوں گے۔ طویل مدتی سپلائی گیپ پیدا ہو گا جس سے قیمتیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔

شرقپور کے ملک جہانگیر بتاتے ہیں کہ نچلے علاقوں میں کھیتوں پر پانچ سے چھ فٹ موٹی مٹی اور ریت کی تہہ جم گئی ہے اور ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ یہاں اگلی فصل شاید ہی بوئی جا سکے۔

اس نقصان سے ربیع کی سبزیوں گاجر، مولی، شلجم، پالک، دھنیا اور پیاز کی بوائی متاثر ہوگی۔ یہ فصلیں یہاں تاخیر سے لگیں گی یا اس سیزن میں لگ ہی نہ سکیں۔
محمد سجاد سعید کہتے ہیں کہ سبزیوں کی زمینوں کی مکمل بحالی میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔ کھیتوں سے ریت اور گاد کو صاف کرنے میں برسوں لگیں گے اور مٹی کی زرخیزی بھی متاثر ہوگی۔ باغات کے لیے یہ مدت اس سے بھی زیادہ ہے۔

پاکپتن کے جدت پسند کسان عامر حیات بھنڈارہ کو لگتا ہے کہ اب کچھ چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کا خطرہ ہے۔ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں منڈی میں مصنوعی قلت تو پیدا نہیں کی جا رہی۔ تاہم ان کے بقول اصل سوال یہ ہے کہ کیا ربیع سیزن سے پہلے زمینیں نئی فصل کے لیے تیار ہو پائیں گی بھی یا نہیں؟ یہی بات کسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔

زرعی ماہرین کثیر الجہتی حکمتِ عملی تجویز کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سب سے اہم قدم زمینوں سے پانی کی نکاسی ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر کسانوں کے پاس نکاسی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

بحالی کا طویل راستہ ہے مگر امید باقی ہے

غضنفر حماد تجویز دیتے ہیں کہ حکومت بڑے پیمانے پر جپسم، پوٹاشیم اور سلفیٹ فراہم کرنے کا پروگرام شروع کرے تاکہ زمین کی بحالی ممکن ہو سکے۔ تب تک کسان زیادہ پانی برداشت کرنے والی فصلیں مونگ یا پتوں والی سبزیاں وغیرہ اگا سکتے ہیں جو مختصر مدت میں تیار ہوتی ہیں اور ان سے زمین بھی بہتر ہو گی۔ اروی بھی اچھا انتخاب ہو سکتی ہے۔

باغات کے لیے جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نئے درخت لگانے کا عمل پانی اُترنے کے چار سے پانچ ہفتے بعد شروع کیا جا سکتا ہے۔ بچ جانے والے پودوں کی بحالی میں وقت لگے گا کیونکہ پانی اور گاد درختوں کی صحت مند نشوونما کو روکتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے بھی کسانوں کی بحالی کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق متاثرہ کسانوں کو زیرِ آب زمین کا فی ایکڑ 20 ہزار روپے، ہلاک ہونے والی بکری یا بھیڑ کے لیے 50 ہزار روپے اور بڑے مویشی کے لیے پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

ڈائریکٹر جنرل زرعی اطلاعات نوید عصمت کاہلوں بتاتے ہیں کہ دو ہزار سے زائد ٹیمیں نقصان کا جائزہ لینے کے لیے میدان میں ہیں۔ وہ زمین، مکانات اور مویشیوں کے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ تیار کر رہی ہیں۔

تاہم کسان اس امدادی پیکیج اور معاوضے کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ منیر احمد کہتے ہیں کہ 20 ہزار روپے میں تو ایک ایکڑ کی بوائی بھی نہیں ہو سکتی۔ "ہم اس سے کیا کریں گے؟" کئی اور کسانوں نے بھی ایسی ہی رائے ظاہر کی ہے۔

شہری علاقوں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ سیلاب ختم ہو گیا ہے مگر کسانوں کے لیے مشکلات ابھی شروع ہوئی ہیں۔ ان کے اثرات آنے والے مہینوں میں شہری صارفین کو بھی محسوس ہوں گے۔

تاریخ اشاعت 9 اکتوبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محسن نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ زرعی، شہری اور توانائی شعبے کے مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.