خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

postImg

خالدہ نیاز

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

خالدہ نیاز

loop

انگریزی میں پڑھیں

بائیس سالہ برفی قاتلانہ حملے میں بچ تو گئیں لیکن اب شاید کبھی ڈانس نہ کر پائیں۔ ان کا تعلق ضلع سوات سے ہے لیکن ایک عرصے سے وہ پشاور میں مقیم ہیں۔ 17 جولائی کو وہ ایک تقریب سے واپس آرہی تھیں جب ان پر فائرنگ کی گئی۔

"میرے گرو سے کچھ لوگوں نے 50 لاکھ روپے بھتہ مانگا تھا۔ ظاہر ہے وہ اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے تھے۔ اس پر انہوں (بھتہ خوروں) نے مجھے نشانہ بنایا۔ پہلے بھی گرو سے 25 لاکھ بھتہ وصول کیا جاچکا ہے۔"

برفی کو تین گولیاں لگیں اور وہ تب سے بستر پر ہیں۔

"خواجہ سراؤں کی کمائی کا واحد ذریعہ ناچ گانا ہے۔ ہم میں سے جب کوئی معذور ہو کر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا تو زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ہمارا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر کہاں جائیں؟"

جو خواجہ سرا ایسے حملوں میں بچ جاتے ہیں انہیں علاقہ بدر ہونا پڑتا ہے۔

ٹرانس ایکشن الائنس خیبرپختونخوا کی صدر فرزانہ ریاض کے مطابق صوبے میں پچھلے دس سال کے دوران 157 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا۔ رواں سال ان واقعات میں مزید شدت دکھائی دی ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس  تصدیق کرتی ہے کہ رواں سال کے ابتدائی سات ماہ میں 15 خواجہ سرا قتل کیے گئے جن میں مردان میں چھ، پشاور پانچ، چارسدہ تین اور ایبٹ آباد میں ایک قتل ہوا۔ گزشتہ ماہ (ستمبر) پشاور میں ایک اور خواجہ سرا کی ہلاکت  رپورٹ ہوئی ہے۔

علاوہ ازیں صوابی میں ایک خواجہ سرا کی خودکشی کا واقعہ بھی سامنے آیا جسے مسلسل ہراسانی کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔

"اب صرف گولی سے خوف آتا ہے، بدسلوکی، مار پیٹ کے تو ہم عادی ہو چکے ہیں"

فرزانہ ریاض کا ادارہ - ٹرانس ایکشن الائنس - خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ انہیں تعلیم و ہنر اور قانونی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے 10 سال میں چترال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک خواجہ سراؤں کے ساتھ ریپ، بھتے، ضلع بدری، بال کاٹنے سمیت تشدد کے تین ہزار سے زائد واقعات ہوچکے ہیں

رواں سال اب تک بدسلوکی اور دھمکیوں سے تنگ 27 خواجہ سرا ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ 25 سے زائد پنجاب یا دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سرا کسی قسم کے جرم میں ملوث نہیں ہوتے پھر بھی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، قتل کر دیے جاتے ہیں۔ ان کا ریپ ہوتا ہے نازیبا ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور پھر قصور وار بھی انہیں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ 

خواجہ سرا نمکین پشاوری لوک سجاگ کو بتاتی ہیں کہ لوگ خواجہ سرا کو دوست بناتے ہیں، انہیں جنسی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اگر وہ ان کی فرمائشیں پوری نہ کریں تو سزا دیتے ہیں۔ کئی خوجہ سرا 'غیرت کے نام پر'، کچھ جنسی تعلق سے انکار پر اور بعض بھتہ نہ دینے پر مار دیے گئے۔

"اب تو صرف گولی ہی سے خوف آتا ہے۔ مار پیٹ، گھونسا تھپڑ، چاقو کے وار وغیرہ کے تو ہم عادی ہو چکے ہیں، لگتا ہے یہی ہمارا مقدر ہے۔ چھوٹے موٹے تشدد پر پولیس کے پاس بھی نہیں جاتے مگر جنسی تشدد اتنا بڑھ گیا ہےکہ ہر رات ہمارا کوئی نہ کوئی ساتھی اس کا نشانہ بنتا ہے۔"

پانچ سالوں میں قتل ڈیڑھ سو اور سزا صرف ایک مجرم کو، وہ بھی پانچ سال قید 

نمکین پشاوری کہتی ہیں کہ ریپ کرنے والے آزاد گھومتے ہیں اور مظلوم ڈر ڈر کے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر پولیس تین چار ملزمان کو پکڑ کر سزائیں دلائے تو واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

اعدادو شمار خواجہ سراؤں کے اس شکوے کی تصدیق کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق پانچ برس (2019ء تا 2024ء) کے دوران 150 سے زائد خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا مگر ملزمان میں سے صرف ایک کو پانچ سال قید کی سزا ہوئی۔

فرزانہ ریاض شکوہ کرتی ہیں کہ پولیس ایف آئی آر تو درج کر لیتی ہے اور اکثر ملزمان پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن دفعات اتنی کمزور لگائی جاتی ہیں کہ ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔

تاہم ایڈووکیٹ مہوش محب کاکاخیل کے خیال میں خواجہ سراؤں کے اکثر کیسز کا اختتام مصالحت پر ہو جاتا ہے۔ "خاندان والے جس خواجہ سرا کو گھر میں قبول نہیں کرتے جب وہ قتل ہو جائے تو وارث بن کر راضی نامہ کر لیتے ہیں۔"

وہ سوات کی خواجہ سرا تتلی کے کیس کا حوالہ دیتی ہیں جنہیں رواں سال پشاور میں قتل کیا گیا تھا۔ خاندان والوں نے لاش لینے سے انکار کر دیا اور جنازے میں بھی نہیں آئے۔

غیرسرکاری تنظیم منزل فاونڈیشن کی سربراہ خواجہ سرا آرزو خان نے کفن دفن کا انتظام کرایا لیکن جب مقدمہ چلا تو مقتول کے خاندان نے ملزم عامر کو معاف کر دیا تھا

ایڈووکیٹ مہوش بتاتی کہتی ہیں کہ تتلی کا کیس ان کے گرو خواجہ سرا انمول نے لڑا اور جیت لیا۔ جج نے خاندان کی معافی اور فریقین کی صلح یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کی کہ غیرت کے نام پر قتل 'فساد فی الارض' ہے جس میں صلح یا معافی نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے ملزم کی ضمانت منسوخ کردی تاہم وہ کمرہ عدالت سے فرار ہو گیا اور تا حال دوبارہ گرفتار نہیں ہوا۔

مقتولوں کو دفنانے کے لیے بھی 'بھتہ' دینا پڑتا ہے، مشران بھی ملزمان کا ساتھ دیتے ہیں

ٹرانس کمیونٹی کے لیے خیبرپختونخوا کی دھرتی اتنی تنگ ہو چکی ہے کہ مقتولین کی آخری رسومات بھی مسئلہ بن جاتی ہیں۔ مقامی افراد و مشران ملزمان کا ساتھ دیتے ہیں اور مقتول کو قبر کی جگہ تک نہیں ملتی۔

پچھلے ماہ پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران غیرسرکاری تنظیم منزل فاونڈیشن کی سربراہ خواجہ سرا آرزو خان  نے بتایا تھا کہ کمیونٹی کو ایک مقتول کی نمازہ جنازہ کے لیے 50 ہزار روپے ادا کرنا پڑے۔

لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے بیشتر لوگ ناخواندہ ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ حملے یا تشدد کی صورت میں کہاں سے مدد لینی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس بھی تعاون نہیں کرتی۔

وہ کہتی ہیں کہ جب تک خواجہ سراؤں کے تحفظ اور روزگار کے لیے قانون سازی، تعلیم و صحت کے مراکز اور تھانوں میں اس کمیونٹی کے نمائندے نہیں ہوں گے ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔ حکومت کو کمیونٹی کی فنی تعلیم، گرانٹس، شیلٹر ہوم، کیسز کی پیروی کے لیے سرکاری وکلا کا انتظام کرنا ہو گا۔ ان کے لیے جنازہ گاہ اور قبرستانوں میں بھی حصے مختص کیے جائیں۔

غیر سرکاری تنظیم بلیو وینز کی عہدیدار قمر نسیم کا ماننا ہے کہ خواجہ سراؤں سے متعلق موجودہ قوانین پر عمل درآمد کے لیے پولیس کی تربیت، محکمہ سوشل ویلفیئر اور نادرا میں ٹرانسجینڈرز کی رجسٹریشن لازمی ہونی چاہیے۔ قتل یا تشدد کے مجرموں کو سزا ئیں ملنے پر ہی خواجہ سراؤں کے خلاف جرائم میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

حکومت نے دعوے تو بہت کیے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تیمور کمال سمجھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ حکومت نے دعوے تو بہت کیے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صوبائی حکومت نے پہلے ٹرانس کمیونٹی کے لیے بجٹ میں کچھ رقم مختص کی لیکن پھر یہ سلسلہ وہیں رک گیا۔ کہا گیا کہ ہسپتالوں میں ان کے لیے وارڈز مختص کر دیے ہیں اور تحفظ کے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔"حکومت نے انسانی حقوق کو بہت پیچھے دھکیل ہے۔"

تیمور کمال بھی یہ الزام دہراتے ہیں کہ خواجہ سراؤں پر تشدد میں ملوث افراد گرفتار کر لیے جاتے ہیں لیکن کمزور ایف آئی آر اور ناقص تفتیش کی بنا پر ملزمان کو سزا نہیں ملتی۔ 

ایس پی فقیر آباد ڈویژن پشاور محمد ارشد خان اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئی جی خیبرپختونخوا نے جینڈر ایکولیٹی کے لیے ایک افسر تعینات کیا ہے جو خواجہ سراؤں کو ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔ فقیر آباد ڈویژن میں رواں سال خواجہ سراؤں پر تشدد کے چار کیسز رجسٹر ہوئے جن میں دس ملزمان نامزد ہیں آٹھ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

"خواجہ سراؤں کے فوکل پرسن ہمارے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں جو ہر مسئلہ ڈسکس کرتے ہیں۔ ڈی آر سی (تنازعات حل کرنے والی کونسل) میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

اگلے جنم مجھے خواجہ سرا نہ کیجیو: 'ٹرانس جینڈر قانون میں مجوزہ ترامیم نہ تو آئینی ہیں اور نہ ہی اسلامی'۔

خواجہ سراؤں کی تعداد بھی متنازع ہے

پاکستان میں خواجہ سراؤں (ٹرانس جینڈرز) کی تعداد متنازع ہے۔ 2017ء کی مردم شماری میں انہیں پہلی بار گنا گیا تو ان کی کل تعداد 21 ہزار 774 درج ہوئی جبکہ ملک کی مجموعی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ تھی۔ سات سال بعد 2023ء میں دوبارہ مردم شماری کی گئی تو ملک کی مجموعی آبادی تو بڑھ کر 24 کروڑ سے زائد ہو گئی لیکن ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد کم ہو کر 20 ہزار 331 رہ گئی۔ جو بجائے خود ان اعداد کو مشکوک بناتا ہے۔

خیبرپختونخوا میں بھی ان سات سال میں ٹرانس افراد کی تعداد دو ہزار 325 سے کم ہو کر ایک ہزار 117 ہو گئی۔

تاہم کمیونٹی کے تمام سرکردہ افرادہ کا ماننا ہے کہ خواجہ سراؤں کی حقیقی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ فرزانہ ریاض کا دعویٰ ہے کہ پانچ ہزار سے زائد ٹرانس جینڈر تو صرف پشاور میں ہیں۔

تاریخ اشاعت 23 اکتوبر 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

خالدہ نیاز کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے، وہ خواتین، مذہبی آزادی، بچوں کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔

thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.