افغانستان کی جگہ بلوچستان اب دنیا میں افیون کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہ دعوی برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے افیون سے حاصل ہونے والے لاکھوں ڈالر انتہا پسند گروپوں کے ہاتھ لگ کر خطے کو مزید خطرات سے دو چار کر سکتے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے ممبر میر زابد علی ریکی نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی توثیق کی ان کی اطلاعات کے مطابق بھی اس برس بلوچستان میں افیون کی کاشت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں حزب مخالف جمعیت علماء اسلام کی جانب سے واشک سے منتخب ہونے والے میر زابد نے یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں بھی اٹھایا تھا جس کے ردعمل میں میں حکومتی ارکان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ صوبے میں پوست کی کاشت کو برداشت نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی تھی کہ وہ پوست کے کھیتوں کی نشاندہی میں حکومت کی مدد کرے۔
سٹیلائٹ سے سب صاف نظر آ رہا ہے
دی ٹیلی گراف نے البتہ جغرافیائی ڈیٹا جمع کرنے والی کمپنی الکسس (Alcis) کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے بلوچستان میں پوست کے بہت سے کھیتوں کی نشاندہی کر کے اپنی رپورٹ میں ان کی تصاویر شائع کر دی ہیں۔

ان کے مطابق بلوچستان کے صرف دو علاقوں میں کیے گئے ایک محدود سروے میں معلوم ہوا کہ وہاں 20 ہزار 15 ایکڑ رقبے پر پوست اُگائی جا رہی ہے جو افغانستان کے دو تہائی صوبوں میں پھیلی موجودہ 19 ہزار 763 ایکڑ کاشت سے بھی زیادہ ہے۔ اس سٹیلائٹ سروے کے مطابق بعض مقامات پر کئی کھیتوں کے 70 فیصد حصے پر صرف پوست نظر آ رہی ہے۔
رپورٹ نے افغانستان کی افیون تجارت کے ماہر ڈیوڈ مینسفیلڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان رواں سال پوست کی کاشت میں افغانستان کو کہیں پیچھے چھوڑ دے گا۔
"یہاں کئی کھیت 12 ایکڑ سے بھی بڑے ہیں اور کئی کھیت آبادی کے بالکل نزدیک ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی کاشت کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال تو افغانستان میں بھی کبھی نہیں دیکھی گئی۔"
دی ٹیلی گراف کے مطابق کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے زمانے میں یورپ میں 95 فیصد افیون افغانستان سے سمگل ہو کر جا رہی تھی تاہم طالبان نے اقتدار سنبھالتے ہی پوست کی کاشت پر پابندی لگادی تھی۔
مینسفیلڈ کے مطابق 2023ء میں افیون کی قیمت ایک ہزار 50 ڈالر فی کلو گرام تھی جو اب کم ہو کر 370 ڈالر تک آ گئی ہے اور اس کی ایک وجہ پاکستان میں اس کی پیداوار میں اضافہ ہے جس کے باعث اس کی رسد خاصی بڑھ گئی ہے اور قیمت نیچے آ گئی ہے۔

'اب تو لوگوں نے پچھلے صحن میں بھی پوست کاشت کر رکھی ہے'
دی ٹیلی گراف نے بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کا الزام افغان کسانوں پر دھرا ہے۔ اس کے مطابق افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی کے بعد افغان کسان سرحد پار بلوچستان آ گئے ہیں۔ یہ کسان بارڈر پر باڑ لگنے کے باوجود یہاں آتے جاتے ہیں اور یا تو مقامی زمینداروں سے زمین ٹھیکے پر لیتے ہیں یا بطور شراکت دار یہ فصل کاشت کرتے ہیں۔
بلوچستان کے ایک ریسرچ سکالر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں پہلے بھی پوست کاشت ہوتی تھی لیکن پچھلے دو سال سے اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اب گلستان کے علاوہ قلعہ سیف اللہ کے سرحدی ایریا، چمن، نوشکی اور لورالائی کے کچھ علاقوں میں بھی پوست کاشت ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغان کسان زمینیں ٹھیکے پر لے کر یا حصے پر پوست کاشت نہیں کر رہے ہیں۔ "یہ درست ہے کہ افغانوں کو اس کی کاشت کا زیادہ تجربہ ہے مگر بیشتر افغان یہاں بطور کھیت مزدور ہی کام کرتے ہیں۔"
ان کے بقول سولر ٹیوب ویل نے جہاں بلوچستان کے کئی علاقوں میں زراعت کو ممکن بنایا ہے وہیں اس سے پوست کی کاشت کو بھی بڑھاوا ملا ہے۔
"اب تو جس کے پاس گھر کے پیچھے صحن (بیک یارڈ) میں تھوڑی سی زمین ہے اس نے بھی وہاں پوست کاشت کر رکھی ہے۔"

لٹ رہا ہے کارواں، پاسباں کہاں گئے
ریسرچ سکالر نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ یہ سب کچھ سکیورٹی ایجنسیز کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔
"کرپٹ اہلکار ان علاقوں سے بھتہ لیتے ہیں۔ اینٹی نارکوٹکس فورس والے سالانہ آپریشن کے نام پر کسی غریب کسان کی فصل تلف کر کے تصاویر بنوا کر چلے جاتے ہیں اور پھر سب ویسے ہی جاری رہتا ہے۔"
دی ٹیلی گراف نے ایک افغان مہاجر کسان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مقامی لوگوں کو حصہ دیے بغیر ان کے لیئے زمین حاصل کرنا اور پوست اگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ (مقامی لوگ) علاقے کی ملیشیا کو بھی جانتے ہیں۔
"ہمیں اپنی پیداوار کھیتوں سے آگے بھیجنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو رقم دینی پڑتی ہے۔"
ٹیلی گراف کو ایک افغان کسان نے بتایا کہ بلوچستان کے بیشتر کسان مویشی پال ہیں اور وہ زراعت اور پھر پوست کی کاشت کے طریقہ کار کے بارے میں بالکل نہیں جانتے۔ پوست کو کاشت کرنا اور اس کے ڈوڈوں پر کٹ لگا کر ان سے رسنے والا مواد اکٹھا کرنا خاصا پیچیدہ کام ہے جو اس کا علم اور تجربہ رکھنے والے افراد ہی کر سکتے ہیں۔
ایک اور مقامی کسان نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ انہوں نے پہلی بار اس سال پوست کی کاشت کی ہے۔
"کچھ افغان میرے واقف ہیں جو اس کی کاشت کا طریقہ جانتے ہیں لیکن مجھے اس کا کوئی علم و تجربہ نہیں، اس لیے میری پیداوار علاقے کے دیگر کسانوں سے کم ہے۔"

بارود کے ڈھیر پر بیٹھا بلوچستان
ممبر بلوچستان اسمبلی میر زابد فکرمند ہیں کہ پوست کی کاشت میں اضافہ کے نتیجے میں مقامی سطح پر اس کی دستیابی ارزاں اور عام ہو جائے گی جو بلوچستان کے نوجوانوں میں نشے کی علت کو بڑھائے گی اور انہیں تباہی کی جانب لے جائے گی۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس کاروبار میں معاون سرکاری اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرے اور پوست اگانے والوں بلکہ اس کی کاشت کے لیے اپنی زمین ٹھیکے پر دینے والوں کو بھی سخت سزا دے۔
عالمی ماہرین اس معاملے کو علاقائی کشیدگی سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کینیڈا کے تھنک ٹینک ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ بلوچستان تو عام حالات میں بھی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہاں نسلی مزاحمت کار اور شدت پسند گروہ سرگرم رہتے ہیں۔ اب تو اس صوبے میں حساس تنصیبات اور بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کے منصوبے بھی موجود ہیں۔
"ایسے میں منشیات کا دھندہ سکیورٹی خطرات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔"
ڈیوڈ مینسفیلڈ کہتے ہیں کہ منشیات کے کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع مسلح گروہوں کو جاتا ہے جو بلوچستان میں سمگلنگ اور تجارت کے بڑے راستوں پر قابض ہیں۔
"لوگ بلوچستان کو نیا افغانستان قرار دیتے ہیں جو مسلح گروپوں کی موجودگی کے باعث واقعی بے قابو علاقہ ہے۔"
رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
تاریخ اشاعت 23 ستمبر 2025