پینستھ سالہ حلیمہ بی بی ضلع قصور کے علاقے چھانگا مانگا کی رہائشی ہیں۔وہ 40سال سے اپنےگھر کے ایک میں ریشم کے کیڑے پال رہی ہیں۔ اس کام سے انہیں سالانہ 40 سے 50 ہزار روپے آمدنی ہوجاتی تھی۔ لیکن رواں سال ان کے پالے تمام کیڑے مر گئے ہیں۔
حلیمہ بی بی کے شوہر ضعیف اور بیمار ہیں۔ دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں۔ ریشم کے کیڑے پالنا ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تھا جو اب ختم ہو گیا ہے۔
حلیمہ بتاتی ہیں کہ تین سال پہلے تک کیڑے پالنے کا ایک ہی سیزن ہوتا تھا۔ لیکن اب دو سیزن میں کیڑے پالے جا رہے ہیں۔ ان کے پوتے پوتیاں سکول سے واپسی پر ان کی مدد کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ انہیں مطلوبہ مقدار میں سلک سیڈ (ریشم کےکیڑوں کے انڈے) ملا نہ ہی شہتوت کے پتے میسر تھے اس لیے وہ اپنا کام جاری نہیں رکھ سکیں۔
یہ صرف حلیمہ کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ پنجاب میں 'نان ٹمبر فارمنگ' کے شعبے میں لگ بھگ چار ہزار خاندان انہی کی طرح بے روزگار ہو گئے ہیں۔ان میں زیادہ تعداد دیہی خواتین کی ہے جو ریشم سازی، مگس بانی (شہد کی مکھیاں پالنا) اور مشروم (کھمبی) کی فارمنگ سے وابستہ ہیں۔
چھانگا مانگا ہی کی نذیراں بی بی بھی سخت پریشان ہیں۔وہ 35 سال سے ریشم کے کیڑے پال رہی ہیں۔ان کے شوہرفوت ہو چکے ہیں اور وہ شادی شدہ بیٹی کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں۔
نذیراں بی بی بتاتی ہیں کہ سلک سیڈ کا ایک پیکٹ چار ہزار روپے کا آتا ہے۔اس سے ملنے والی ریشم کی کون یا ٹوٹیاں 60 سے 70 ہزار روپے میں بک جاتی ہیں۔یہ رقم ان کے سال بھر کے اناج کے لیے کافی ہوتی ہے۔لیکن رواں سال انہیں سلک سیڈ ہی میسر نہیں آیا جس سے ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ انہیں گھر میں مشروم فارمنگ کی تربیت بھی دی گئی تھی۔وہ خوش تھیں کہ ایک اور روزگار مل جائے گا۔جس کمرے میں وہ کیڑے پالتی ہیں اسی میں مشروم (کھمبی) بھی اگالیں گی۔لیکن اہلکاروں نے دوبارہ انہیں مشروم اگانے کے لیے کوئی سامان ہی فراہم نہیں کیا۔
عبدالرحمٰن بھی چھانگامانگا کے ہائشی ہیں ۔ان کے بیوی بچے گھر میں ریشم کے کیڑے پالتے ہیں۔ وہ خود شہتوت کی شاخوں سے ٹوکریاں بناتے اور بیچتے ہیں اسی سے ان کے گھر کی روزی روٹی چلتی ہے لیکن اب وہ کئی ماہ سے بے روزگار ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔ وہ شہید کی مکھیاں پالنے کا سوچ رہے ہیں لیکن اس کا سامان خریدنے کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں۔
چھانگا مانگا ملک میں انسانی ہاتھ کا اگایا سب سے بڑا جنگل ہے۔ یہاں تقریباً سو ایکڑ رقبے پر ہائبرڈ شہتوت کے درخت ہیں جن ناصرف اعلیٰ معیار کا پھل حاصل ہوتا ہے بلکہ ان درختوں کے پتے ریشم کے کیڑوں کی خوراک ہیں اور اس کی شاخوں سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔
محکمہ جنگلات سال میں دو مرتبہ شہتوت کے درختوں کی شاخ تراشی کرتا ہے۔ مارچ، اپریل اور ستمبر اکتوبر میں نئے پتے نکلتے ہیں تو ریشم کے کیڑے پالنے کا موسم ہوتا ہے۔اسی طرح شعبہ سری کلچر (ریشم کی پیداوار) مقامی لوگوں میں سلک سیڈ کے تقریبا دوہزار پیکٹ تقسیم کرتا ہے جو رواں سال نہیں کیے گئے۔
امسال اس بیج کے صرف تین سو پیکٹ کسانوں کو دیئے گئے ہیں اور شہتوت کے درختوں کی شاخ تراشی بھی کسی نے نہیں کی ۔یوں نئے پتے نہ اگنے سے ریشم کے کیڑوں کے لیے خوراک دستیاب نہیں ہوسکی اور جن کسانوں نے تھوڑے بہت کیڑے پالے تھے ان میں سے بیشتر مرگئے ہیں۔
شعبہ سری کلچر پنجاب کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سالانہ پانچ سو میٹرک ٹن ریشم درکار ہوتا ہے جو زیادہ تر چین اور دبئی سے درآمد کیا جا رہا ہے۔2019ء کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال بہار کے سیزن میں پنجاب میں صرف 25 ٹن ریشم پیدا ہوا۔
اسی طرح حکومت شہد اور مشروم کی امپورٹ پر زرمبادلہ خرچ کررہی ہے۔ سونف، تلسی، مورنگا، ایلوویرا،کلونجی، اجوائن جیسی جڑی بوٹیاں بھی براستہ دبئی انڈیا سے منگوائی جارہی ہیں۔
پاکستان میں خیبرپختونخوا، اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں 1952ء میں سرکاری سطح ہر ریشم کے کیڑے پالنے کا آغاز ہوا۔ خیبرپختونخوا میں پہلے جنگلات ،جنگلی حیات اور سری کلچر ایک ہی محکمے کا حصہ تھے لیکن 2007ء میں سری کلچر کو نان ٹمبر فاریسٹ پروڈکٹ محکمے کی شاخ بنا دیا گیا۔
پنجاب حکومت نے بھی خیبرپختونخوا کی طرح 2020ء میں سری کلچر کے شعبے کو نان ٹمبرفارمنگ ڈائریکٹوریٹ کا درجہ دے دیا ۔تاہم اگلے ہی سال ڈائریکٹر نان ٹمبرفارمنگ کی تعیناتی کے لیے تنازع شروع ہوگیا۔اس پر 2022 ءمیں ڈائریکٹوریٹ این ٹی ایف کو ختم کرکے سری کلچر کو بحال کر دیا گیا۔
شعبہ سری کلچر کا سربراہ 18 ویں گریڈ ڈپٹی ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ جب اس شعبے کو 'نان ٹمبرفارمنگ ڈائریکٹوریٹ 'کا درجہ ملا تو اس کی سربراہی19ویں گریڈ کے فاریسٹ کنزرویٹر کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس اقدام پر جب ڈپٹی ڈائریکٹر سری کلچر اور عملے نے احتجاج کیا تو سیکرٹری جنگلات نے ڈائریکٹوریٹ کو ہی ڈی نوٹیفائی کر دیا۔
محکمہ سری کلچرکے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فاروق بھٹی بتاتے ہیں کہ نان ٹمبرفارمنگ ڈائریکٹوریٹ کےلیے 2022ء میں 13 کروڑ 60 لاکھ روپے کے فنڈز جاری ہوئے تھے۔ پہلے مرحلے میں مری میں 'نان ٹمبرفاریسٹ پراڈکٹ کمپلیکس' بنایا گیااور ماسٹرٹرینرز کی تربیت کی گئی ۔دوسرے مرحلے میں کسانوں کی تربیت ہونا تھی لیکن یہ ڈائریکٹوریٹ ہی ختم کردیا گیا۔
ڈائریکٹوریٹ این ٹی ایف کے خاتمے کو سلک فارمنگ اینڈ ٹریڈرز ایسویسی ایشن نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر کے حکم امتناہی حاصل کر لیا تھا۔لیکن یہ معاملہ اب عدالت میں زیرسماعت ہےاور شعبہ سری کلچر بھی غیر فعال ہو چکا ہے۔
سلک فارمنگ اینڈٹریڈرایسوسی ایشن کے صدر رانا سعید انور کہتے ہیں کہ 2021 اور 2022 میں جب فنڈ منظور ہو گئے تو تاجروں کا ہدف نان ٹمبرفارمنگ کے ذریعے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ خاندانوں کو روزگار دینا تھا۔دوسرے مرحلے میں اس کو دس لاکھ خاندانوں تک پھیلانا تھا۔ چند ماہ میں دوہزار خاندان رجسٹر ہو چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
خلیجی ممالک میں منافع بخش پاکستانی شہد کےکاروبار کو زوال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ تاجروں نے نان ٹمبرفارمنگ ڈائریکٹوریٹ کے لیے بہت محنت کی تھی۔ پراجیکٹ میں ریشم سازی ، شہد ، جڑی بوٹیوں اور مشروم کی فارمنگ شامل تھی۔ شہد کی مکھیوں کے باکس بھی ریشم کے لیے کاشتہ شہتوت کے درختوں کے نیچے ہی رکھے جاتے ہیں۔
سعید انور نے بتایا کہ سلک پروڈکشن کے لیے انہوں نے حال ہی میں تین کروڑ روپے کی مشینری بھی درآمد کی ہے جو بند پڑی ہے۔ سلک فارمنگ اورٹریڈنگ سے جڑے درجنوں تاجروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
فاروق بھٹی تصدیق کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی تیاری میں خیبرپختونخوا حکومت اور گورنمنٹ کالج لاہور کی معاونت لی گئی تھی۔ گورنمنٹ کالج کی رپورٹ کے مطابق نان ٹمبرفارمنگ ڈائریکٹوریٹ کے تحت مگس بانی میں چارلاکھ اور ریشم سازی سے سات لاکھ افراد کو روزگار دینا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ میڈیسنل پلانٹس کے لیے کچن گارڈننگ طرز کا منصوبہ تھا جس سے 30 ہزار گھریلو خواتین کو روزگارملنا تھا۔ مگر اب تو چھانگامانگا کے ساتھ چیچہ وطنی، منڈی بہاؤالدین، کمالیہ،ٹوبہ ٹیک سنگھ، رجانہ، فیصل آباد، اورسیالکوٹ میں بھی ریشم کے کیڑے پالے والےبیروزگار ہوگئے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر سری کلچر ندا زہرا بتاتی ہیں کہ دوسال سے محکمے کو سرکاری فنڈز نہیں ملے۔ چھانگامانگا سمیت مختلف مقامات پر جاپانی شہتوت کے جو پودے اور درخت گائے گئے تھے ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہوچکا ہے۔
سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات مدثر وحید ملک اعتراف کرتے ہیں کہ اس سال شہتوت کاشت کرنا بھی ممکن نہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کسان کہیں سے بھی سلک سیڈ خرید سکتے ہیں اور اس سے انہیں کیڑے پالنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئےگی۔
تاریخ اشاعت 28 ستمبر 2023