'نہ پسینہ خشک ہوتا ہے نہ مزدوری ملتی ہے'، تھرپارکر میں نمک کی جھیلوں پر محنت کشوں کی کسمپرسی

postImg

جی آر جونیجو

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'نہ پسینہ خشک ہوتا ہے نہ مزدوری ملتی ہے'، تھرپارکر میں نمک کی جھیلوں پر محنت کشوں کی کسمپرسی

جی آر جونیجو

loop

انگریزی میں پڑھیں

پچاس سالہ رام جی تھرپارکر کی تحصیل ڈیپلو میں نمک کی جھیل (سن) پر مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا گھر یہاں سے کوئی 20 کلومیٹر دور مہتر ڈھانی گاؤں میں ہے جہاں سے ان کی تین کم عمر بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ آتے اور کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

رام جی جھیل سے نمک کی ٹرالی کھینچ کر لاتے ہیں جسے وہ جھیل کنارے سوکھنےکے لیے پڑی نمک کی ڈھیری پر پلٹ دیتے ہیں اور دوسرا پھیرا لگانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ اس دوران ان کے چاروں بچے خشک نمک کی بوریاں بھرتے رہتے ہیں۔

 رام جی بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے قریب کوئی اور مزدوری نہیں ملتی اس لیے مجبوراً وہ ادھر آ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں اجرت اتنی کم ہے کہ ان کا سارا خاندان دن بھر محنت کرتا ہے مگر دو وقت کی روٹی پوری کرنا آسان نہیں ہوتا۔

وہ کہتے ہیں کہ نمک ڈھونے کے بعد شام کو سارے جسم میں خارش ہوتی ہے اور زندگی عذاب لگتی ہے۔ یہاں کوئی حفاظتی لباس ہے نہ ہسپتال۔مزدور مالکان کے رحم کرم پر ہیں۔زخم ہو جائیں تو وہ شہر سے مرہم خرید کر لگا لیتے ہیں۔

صحرائے تھر پانچ معدنیات کے لیے مشہور ہے جن میں کوئلہ، چینی مٹی (چائنا کلے) ، نمک (لیک سالٹ)، گرینائیٹ اور لٹریٹ (سرخ پتھر) شامل ہیں۔ تھرپارکر صوبے میں چینی مٹی اور گرینائیٹ پیدا کرنے والا واحد ضلع ہے۔

سندھ شماریاتی بیورو نے اکتوبر 2022 میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 2020-21ء میں تھرپارکر صوبے میں سب سے زیادہ معدنیات دینے والا ضلع قرار پایا۔اس سال کے دوران ضلع بھر سے ایک ارب 38 کروڑ 98 لاکھ روپے مالیت کی معدنیات نکالی گئی۔

تھرپارکر صوبے میں کوئلے کی مجموعی پیداوارکا 74 فیصد اور نمک(لیک سالٹ) کا 98 فیصد پیدا کرتا ہے۔یہاں کارونجھر کے پہاڑوں کے گرد نمک کی جھیلوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ نمک کی جھیل کو 'کان' اور سندھی میں 'سن' کہا جاتا ہے۔

تحصیل ہیڈکوارٹر ڈیپلو سے 20کلومیٹر مغرب میں جھیل سارن تھر کی سب سے بڑی کان (سن) شمار ہوتی ہے۔ یہ سو ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ یہاں سے پانچ دہائیاں قبل نمک جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر پھیلتا چلا گیا۔

سارن کے علاوہ تھر میں نمک کی دیگر بڑی جھیلوں میں موکھائی جھیل ڈھائی سو ایکڑ، ڈاگو ڈیڑھ سو، ڈاگو ٹو 180، ھتھنی جھیل سو ایکڑ اور ڈابھرو جھیل کا رقبہ ڈیڑھ سو ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔

جھیلوں سےکچھ نمک پراسسنگ (صفائی اور پیکنگ وغیرہ) کے لیے قریب ہی فیکٹریوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔تھر سے پانچ سو ٹن پراسیسڈ نمک ملکی مارکیٹ میں جاتا ہے اور باقی خام حالت میں ہی ایکسپورٹ یا پراسیسنگ کے لیے کراچی بھیج دیا جاتا ہے۔

2020-21ء میں تھر سے دو لاکھ 22 ہزار 335 میٹرک ٹن نمک نکالا گیا۔ یہ نمک ملک میں زیادہ تر کھاد بنانے والے کارخانوں۔ٹیکسٹائل انڈسٹری اور چمڑے کی فیکٹریوں و دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس صنعتی نمک کی بیرون ملک برآمد سے بھی ملک میں کثیر زرمبادلہ آتا ہے۔

مون سون میں کارونجھر کے پہاڑوں سے آنے والا پانی یہ نمک اپنے ساتھ لاتا ہے یا پانی جمع ہونے سے زیر زمین نمک اوپر آ جاتا ہے۔ تین چار ماہ بعد جھیلوں کا پانی کم یا خشک ہونے پر نمک کی چار پانچ انچ موٹی تہہ جم جاتی ہے۔

جھیل سے اوپر والا نمک نکال لیا جاتا ہے تو کچھ دنوں بعد ایک نئی تہہ جم جاتی ہے۔یہ عمل لگ بھگ آٹھ ماہ جاری رہتا ہے۔

محکمہ معدنیات تھرپارکر میں جھیلوں سےنمک نکالنے کےسالانہ71 ٹھیکے دیتا ہے۔ زیادہ تر نمک مزدور ہی نکالتے اور بوریاں بھر کر لوڈ کرتےہیں۔ انہیں روزانہ گھنٹوں کھارےپانی اور نمک میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ یہاں ہر جھیل پر اوسطاً 40 سے60 مزدور کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ذوالفقار نہڑی ماہر امراض جلد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نمک میں کام کرنے والوں کو اکثر الرجی اور جسم پر خارش ہوتی ہے۔اس کے زخم خطرناک بھی ہو سکتے ہیں اور تیز بخار بھی ہو سکتا ہے۔ اسیلیے مزدوروں کو کام کے دوران لمبے بوٹ اور دستانے استعمال کرنے چاہیئیں۔

 رام جی بتاتے ہیں کہ تھرپارکر کی جھیلوں پر سیکڑوں مزدور نمک نکالتے ہیں۔ مگر کسی کی کسی سرکاری محکمے میں رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ ٹھیکیدار انہیں حفاظتی کٹ بھی نہیں دیتا۔سہولت مانگنے والا نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔

"جھیل سے 60 کلو نمک باہر لانے پر 16 روپے اور 40 کلو پر دس روپے مزدوری ملتی ہے۔ بوری بھرنے اور گاڑی میں لوڈ کرنے کے پانچ روپے ملتے ہیں۔ ایک مزدور روزانہ 20 بوریاں ہی بھر سکتا ہے۔ یعنی دن بھر پانچ سو سے زیادہ نہیں کما پاتے۔"

ایک اور مزدور نے اپنا نام خفیہ رکھنےکی شرط پر بتایا کہ کانوں پر مزدوری نقد صورت میں نہیں ملتی۔ یہاں کام کے بدلے ایک پرچی دی جاتی ہے جس پر رقم کی ادائیگی کچھ عرصہ بعد ٹھیکیدار کے منشی کرتے ہیں۔ پہلے تو 15 دن میں پرچی کی رقم (مزدوری) مل جاتی تھی۔ اب پرچی کیش ہونے میں چار سے چھ ماہ بھی لگ جاتے ہیں۔

"اگر کسی مزدور نے اسی روز رقم لینی ہو تو بروکر یامنشی پرچی کے بدلے نقدی دے دیتے ہیں مگر ایک ہزار کی پرچی سے چار سو روپے کاٹ لیتے ہیں۔"مزدوروں نے تو شام کو گھر کے لیے آٹا دال لینا ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر مزدور ہزار کی مزدوری پر چھ سو روپے لے جاتے ہیں۔"

 محکمہ لیبر کے افسر اس معاملے میں اپہنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تھر میں کہیں لیبر قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ بااثر ٹھیکیداروں کی وجہ سے محکمہ بھی لاتعلق بنا ہوا ہے۔

محکمہ محنت و افرادی قوت کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سالٹ لیز ہولڈر ہی مزدور وں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ سندھ مائنز ایکٹ 1923 کے سندھ کنسیشنز رولز 2002ء کے تحت مزدوروں کو فرسٹ ایڈ کی سہولت دینا لازم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لیز ہولڈروں کے لیے مزدوروں کی ای او بی آئی اور ورکرز بورڈ میں رجسٹریشن کرانا ضروری ہے۔قانوں کے مطابق انہیں مزدوروں کو دستخط شدہ کانٹریکٹ لیٹر دینا چاہیے جس پر مقررہ اجرت بھی تحریر ہو مگر یہاں کوئی ایسا نہیں کر رہا۔

سائیں داد ہنگور کئی سال سے سندھی مزدور تحریک کے پلیٹ فارم سے اس مسئلے پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں نے مزدوروں کی زندگی بھی نمک کر دی ہے۔ یہاں پر مزدوری انتہائی کم دی جاتی ہے اورکوئی سوشل سکیورٹی نہ ہی سیفٹی۔

یہاں سب سے بڑی کان سارن کے ٹھیکیدار محمد شریف ڈیپلائی میمن بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان اپنے باپ دادا کے دور سے نمک کے ٹھیکے لیتا چلا آ رہا ہے۔

شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کام میں تمام سرکاری تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یہاں کوئی ملازم مستقل نہیں۔ سب ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں۔ اس کام میں لیبر کو زیادہ خطرات نہیں ہوتے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا یہاں کوئی کام نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر: کوئلے کی کانوں کے منصوبے، ماڈل گاؤں اور ناخوش کسان

محکمہ  منرل اینڈ مائنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد صدیق منگریو بتاتے ہیں کا کہنا ہے کہ پہلے نمک کی لیز 15 سو روپےفی ایکڑ سالانہ تک تھی۔اب دو ہزار روپے کر دی گئی ہے۔مزدوروں کو سہولتیں نہ ہونے کی بات ٹھیک ہے۔ یہ معاملات لیبر ڈیپارٹمنٹ دیکھتا ہے مگر محکمہ  تھرپارکر میں کام نہیں کر رہا۔

ماہر ارضیات عطا محمد رند نے طویل عرصہ تک تھرپارکر کے معدنی وسائل پر تحقیق کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھرپارکر کی چینی مٹی اور نمک کیکانوں سے حکومت کو سالانہ پچاس لاکھ روپےفیس ملتی ہے۔ مگر مقامی لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ رائلٹی اور لیز کی رقم محکمہ معدنیات کے اکاؤنٹ میں جانی چاہیے ۔اس سے ڈیپارٹمنٹ کو یہ رقم مقامی ترقی پر خرچ کرنے کاپابند کیا جا سکتا ہے۔ یہاں نمک مزدور بھیانک زندگی گزار رہے ہیں۔ نمک فیکٹریوں کو انڈسٹریل ایکٹ اور لیبر قوانین کا پابند کیا جانا ضروری ہے۔

تاریخ اشاعت 16 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.