چمن میں کئی روز سے جاری دھرنے کے شرکا کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

postImg

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

چمن میں کئی روز سے جاری دھرنے کے شرکا کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

50 سالہ امیر محمد چمن شہر میں پیدا ہوئے اور یہیں کاروبار کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے بھائی ڈیڑھ سو ایکڑ اراضی کے مالک ہیں لیکن انہیں سو ایکڑ کی کاشت کے لیے افغانستان جانا پڑتا ہے۔

امیر محمد 'باب دوستی' پر امیگریشن کی پابندیوں کے خلاف چمن میں جاری احتجاج میں پیش پیش ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کی زمین سرحد پر باڑ لگانے سے تقسیم ہو گئی تھی اور یوں سو ایکڑ سے زائد افغان حدود میں چلی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ باڑ لگاتے وقت انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں زمینوں تک رسائی میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اب پاسپورٹ کی شرط لاگو کی جا رہی ہے۔

"ہمارے عزیز و اقارب سرحد پار رہتے ہیں، قبرستان اور آباؤ اجداد کی قبریں وہیں ہیں اور روزگار بھی اُدھر رہ گیا ہے۔ کیا ہم گندم بونے یا کاٹنے کے لیے پاسپورٹ پر جائیں؟"

چمن پاک افغان بارڈر (باب دوستی) سے مقامی لوگوں کے لیے پہلے آمد و رفت قلعہ عبداللہ کے شناختی کارڈر اور سپن بولدک کے تزکرے (افغان شناختی دستاویز) پر ہوتی رہی۔ چمن 2021ء میں الگ ضلع بنا تو قلعہ عبداللہ کے رہائشیوں کے لیے پاسپورٹ لازمی قرار پایا اور چمن کے شناختی کارڈ پر آمدورفت اب تک جاری تھی۔

 باب دوستی پر یہ طریقہ کار کئی عشروں سے چلتا آ رہا تھا۔ بقول ایک سکیورٹی اہلکار "دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پہلے تو یہاں کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں پوچھتا تھا"۔ دو ماہ قبل وفاقی حکو مت نے افغان بارڈر پر آمد و رفت کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

 نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی نے آٹھ اکتوبر کو چمن میں قبائلی جرگے سے خطاب کیا اور انکشاف کیا کہ یکم نومبر سے باب دوستی پر پاسپورٹ کی شرط لاگو ہو گی۔ جرگے کے مشران نے اس کی مخالفت کی اور نظر ثانی کرنے کی اپیل کی۔ تاہم وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کا یہ فیصلہ حتمی ہے۔

جب حکومتی فیصلے میں کوئی لچک نظر نہ آئی تو چمن کے لوگوں میں تشویش بڑھ گئی۔ 20 اکتوبر جمعہ کو احتجاج کا آغاز ہوا اور اسی روز شام کو باب دوستی اور چمن شہر کے درمیان پاک افغان شاہراہ پر دھرنا شروع ہو گیا۔

 دھرنے میں لغڑی (پھیری والے) اتحاد یونین، انجمن تاجران و دکانداران کے ساتھ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، اہل سنت و الجماعت و دیگر بھی شامل ہو گئے۔ یہ دھرنا 15ویں روز بھی جاری ہے۔

ساتویں روز 26 اکتوبر کو چمن میں نگراں صوبائی وزیر جان اچکزئی اور دھرنا کمیٹی کے درمیان دو مرتبہ مذاکرات ہوئے لیکن ناکام رہے۔ کمیٹی نے تین مطالبات کیے تھے جن میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن روکنے، چمن کے مقامی لوگوں کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خاتمے اور لغڑی پیکج کی بحالی کی ڈیماند کی گئی تھی۔

مذاکرات کے بعد جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ شہریوں کو روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور حکومت کسی کا روزگار نہیں چھینے گی، جیسے ایران کے ساتھ تجارت جاری ہے اسی طرح افغانستان سے بھی جاری رہے گی ۔

"البتہ وہ آئٹمز ہمیں نہیں چاہئیں جو ہماری معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آئے روز ہم جوان جنازے اٹھا رہے ہیں۔ اپنی سرحد اور آمد و رفت کو ریگولیٹ کرنا ہمارا حق ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ رواں سال 20 خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں 14 حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ملک بھر میں سات سو کرمنل کیسز میں بھی افغان مہاجرین ملوث ہیں۔ باب دوستی پر پاسپورٹ اور ویزے سے کسی کو استثنیٰ نہیں ملے گا البتہ سرحد سے متصل دیہات میں آنے جانے کا کوئی میکنزم بنا لیا جائے گا۔

چمن میں اس روز بھی حکومتی فیصلوں کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور ڈپٹی کمشنر آفس تک ریلی نکالی گئی تھی۔

چار لاکھ 66 ہزار 218 نفوس پر مشتمل سرحدی ضلع چمن میں کوئی فیکٹری یا کارخانہ نہیں ہے۔ یہاں کے 70 فیصد لوگوں کا روزگار بارڈر سے وابستہ ہے جو چمن کی سبزی منڈی، زنانہ بازار اور ارد گرد کے علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں۔

اس علاقے میں عارضی بازار اور منڈیاں بھی لگتی ہیں۔ جہاں شو رومز پر گاڑیاں، پرزہ جات (سپیئر پارٹس)، استعمال شدہ ٹائر اور خشک میوہ جات فروخت کیے جاتے ہیں۔

یہاں کچھ افغان باشندے بھی آتے ہیں جو چلتے پھرتے مختلف اشیا بیچتے ہیں۔ ان میں کپڑے، استعمال شدہ جوتے، چپل اور کاسمیٹکس کا سامان وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ یہ لوگ شام کو واپس سپن بولدک چلے جاتے ہیں۔

 باب دوستی پر تعینات ایک سکیورٹی اہلکار نے نام نہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دوستی گیٹ سے روزانہ لگ بھگ 20 ہزار افراد کی آمد و رفت ہوتی ہے جن میں 16 ہزار کے قریب چمن کے مقامی افراد اور تقریباً چار ہزار افغانی آتے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں سے روزانہ آنے جانے والے مقامی تاجروں کی تعداد پانچ سے چھ ہزار ہے جبکہ 10 سے 11 ہزار کے درمیان چھوٹے تاجر یا لغڑی (پھیری والے) ہیں۔ ان کے لیے 'لغڑی پیکیج' بھی متعارف کرایا گیا تھا۔

اس پیکیج کے تحت یہ مقامی لوگ چمن سے کچھ اشیا (ہاتھوں میں) لے جاتے ہیں اور سپن بولدک سے چیزیں لے بھی آتے ہیں۔ انہیں صبح سات سے 11 بجے تک کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب یہ تمام لوگ کام کاج چھوڑ کر احتجاج کر رہے ہیں۔

چمن چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر خان اچکزئی بتاتے ہیں کہ چمن کی افغان گلی میں دو سو کے قریب کاسمیٹکس اور الیکٹرانکس کی دکانوں کا سب مال افغان بارڈر سے آتا ہے۔ اسی طرح کمبل کی سو کے قریب دکانیں بھی سرحد پار کے مال سے چلتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں قندھاری بازار میں ڈیڑھ سو سے زائد سپیئر پارٹس کی دکانوں اور 50 کے قریب ڈرائی فروٹ شاپس کا انحصار بھی بارڈر پر ہے۔ یہاں لوگ سیزن کی سبزی فروٹ سے پرچون کے سامان تک افغانستان سے لیتے ہیں۔

خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ اس سارے کاروبار میں لغڑیوں کا بھی اہم کردار ہے۔ یہاں کے سیکڑوں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان سپن بولدک کی کمپنیوں میں بطور منشی ملازمت کرتے ہیں اور شام کو ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ لیے واپس آتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ روزانہ ہزاروں تاجروں کے پاسپورٹ پر ویزے، داخلے یا خروج کے ٹھپے لگنا بہت پیچیدہ عمل ہو گا۔ اگر یہ سسٹم لاگو ہوا تو یہاں کے لوگ صبح وقت پر مارکیٹ نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ڈرائیور اپنے ٹرک تک پہنچ پائیں گے۔

"بارڈر ہماری معاشی آکسیجن ہے، امیگریشن سے تجارت میں شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ چمن میں کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور لوگ نان شبینہ کے محتاج ہو جائیں گے۔"

دھرنا کمیٹی کے ترجمان اولس یار اچکزئی بتاتے ہیں کہ پاسپورٹ کی شرط کسی صورت قبول نہیں، نہ ہی نگراں حکومت کے پاس اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ ہے۔ پابندیوں سے یہاں عوام کے لیے بہت مشکلات ہوں گی اس لیے حکومت پرانا طریقہ کار برقرار رکھے۔

وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے تاجر یا لغڑی ہاتھوں میں پانچ یا چھ کلو چینی، آٹا، کپڑا وغیرہ اور قانونی اشیا چمن لاتے یا لے جاتے ہیں۔ وہ روزانہ پانچ یا چھ سو روپے کماتے ہیں اور اسی سے ان کا گھر چلتا ہے۔ یہ روزگار بھی ختم ہو گیا تو وہ کیسے گزارہ کریں گے۔

امیر محمد لغڑی یونین کے سیکرٹری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پورا شہر سراپا احتجاج ہے۔ اگر حکومت نے فیصلوں پر نظر ثانی نہ کی تو احتجاج میں شدت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

دھرنے میں شریک جمعہ خان روغانی روڈ کے رہائشی ہیں اور بارڈر پر سپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں زراعت ہے، نہ فیکٹری اور نہ ہی روزگار کے کوئی اور مواقع ہیں۔ اب بارڈر کے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاک-افغان سرحد کی بندش: چمن میں سینکڑوں خاندان اور کروڑوں روپے کا سامان تجارت پھنس گئے۔

"میں پڑھا لکھا آدمی ہوں لیکن کہیں نوکری نہیں ملی۔ کاروبار شروع کیا تو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔"

دھرنے میں شریک پشتونخوا میپ کے مرکزی رہنما حاجی جمال بتاتے ہیں کہ نگراں حکومت نے افغان مہاجرین کو 'تارکین وطن' کا نام دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ لوگ خود نہیں آئے تھے بلکہ جنرل ضیاالحق کی حکومت انہیں دعوت دے کر لائی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ افغان شہری اپنی مرضی سے وطن واپس جانا چاہیں تو ٹھیک ہے، زبردستی اور توہین آمیز سلوک نہ کیا جائے۔ اسی طرح سرحد کے دونوں جانب پشتون قبائل ہیں، پاسپورٹ کی شرط سے خاندانوں اور رشتوں کو جدا کرنا زیادتی ہے۔

 دھرنا کمیٹی کے رکن صحبت خان اچکزئی بتاتے ہیں کہ 26 اکتوبر کو چمن ایف سی قلعے میں کور کمانڈر آصف غفور نے جرگے اور دھرنا کمیٹی سے ملاقات کی تھی جس میں کمیٹی نے اپنے مطالبات پیش کیے۔

 صحبت خان کے بقول "کور کمانڈر آصف غفور نے بتایا کہ ریاست کا فیصلہ ہے کہ یکم نومبر سے کسی افغان یا غیر ملکی کو پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی تاہم وہ چمن کے عوام کے لیے مخصوص میکنزم بنانے کی سفارش کریں گے۔"

"انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج شہریوں کا حق ہے لیکن ہم کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ یہ بھی طے ہے کہ دستاویزات کے بغیر یہاں مقیم افغان مہاجرین کو بے دخل کیا جائے گا۔"

ادھر افغان حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے چمن اور سپن بولدک کے رہائشیوں کا استثنیٰ ختم کیا تو وہ بھی بغیر پاسپورٹ افغانستان میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم وہ پرانے سسٹم پر چلنے کو بھی تیار ہیں۔

سرحد کے اس پار لوک سجاگ کے رابطہ کرنے پر ایک افغان تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان حکومت میں یہاں چمن طرز کا احتجاج تو ممکن نہیں ہے البتہ سپن بولدک کے لوگوں میں اس فیصلے پر شدید تشویش پائی جا رہی ہیں۔

تاریخ اشاعت 7 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حضرت علی عطار کا تعلق بلوچستان کے ضلع چمن سے ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے مختلف نیوز ایجنسز اور پاکستان کے بڑے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.