تھرپارکر کے سوائی مل بارشوں کے بعد صحرا میں اگنے والی سبزیاں مٹھی میں لا کر فروخت کرتے ہیں۔ وہ برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں مگر انہیں ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ دکان دار ان کی لائی سبزیوں کے بہت کم دام لگاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سبزی فروش ان سےکھمبی (مشروم) ڈیڑھ سو روپے کلو میں خریدتے اور خود چار سو روپے فی کلو بیچتے ہیں۔اسی طرح مریڑو اور لُلر(خودرو مقامی سبزیاں) کے دام 70 روپے کلو سے زیادہ نہیں دیتے مگر گاہک کو ڈیڑھ سو روپےکلو میں فروخت کرتے۔
"میں اور میرے بیوی بچے یہ سبزیاں آدھا دن لگا کر صحرا سے چنتے ہیں۔ میں خود منڈی میں کھڑے ہو کر بیچوں تو شام ہو جاتی ہے۔ اس لیے جو بھی ریٹ ملے اسی پر فروخت کر کے چلا جاتا ہوں۔ اگر شہر میں سبزی منڈی ہوتی تو مجھے اچھے دام مل جاتے۔"
تھر میں بارشوں کے بعد خودرو سبزیاں بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ان میں کھمبی(مشروم)، مریڑو، چبھڑ، جنگلی تُرئی، بگرو، ٹنڈےاور لُلر شامل ہیں۔ایک اور سبزی 'سانگری' ہے جس کی تھر میں پیدوار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ سوائی مل کی طرح دیہات کے بہت سے لوگ ان سبزیوں کو چنتے اور انہیں شہر لاتے ہیں۔مگر اپنی محنت کا مناسب معاوضہ وصول نہیں کر پاتے۔
یہ سبزیاں آرگینک (نامیاتی (کھاد، سپرے ودیگر کیمیکل سے پاک)، لذیذ اور غذائیت سے بھر پور ہوتی ہیں۔تھر کے لوگ یہ سبزیاں نہ صرف بڑے شوق سے کھاتےہیں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بطور تحفہ بھی بھیجتے ہیں۔
دنیا بھر میں آرگینک سبزیاں اور پھل تین گنا زیادہ نرخ پر فروخت ہوتے ہیں۔ مگر مٹھی میں سبزی منڈی اور پرائس کنٹرول کمیٹی نہیں ہے۔ اس لیے یہاں یہ فصل یا تو اونے پونے داموں بکتی ہے یا ضائع ہو جاتی ہے۔
صحرائے تھر میں بارش کے بعد زندگی کی رونقیں لوٹ آتی ہیں۔ یہاں نہ صرف قدرتی سبزیاں اگتی ہیں بلکہ کاشت بھی ہوتی ہیں۔ ان میں گوار، گدرا (تھری خربوزہ) اور چھانھیں (تھری تربوز) شامل ہیں۔یہ خربوزہ اور تربوز مصنوعی کھاد، سپرے سے پاک اور مٹھاس و ذائقے میں بھی بےمثال ہوتے ہیں۔
یہاں گوار دو قسم کی ہوتی ہے۔اس میں آنٹیو گوار کی پھلی(بینز) انتہائی نرم اور مہنگی ہوتی ہے۔تھر میں یہ سبزی دکان پر پانچ سے سات سو روپے کلو ملتی ہے مگر مقامی کاشت کار کو دو سو روپے سے زیادہ قیمت وصول نہیں ہوتی۔ میٹھےگوار کا ریٹ اس سے آدھا ہوتا ہے ۔یہی حال تھری خربوزے اور تربوز کے ریٹ کا ہے۔
پرکاش کمار ڈیپلو کے رہائشی اور غذائی ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ تھر کی تمام سبزیاں و پھل آرگینک ہیں۔جہاں تک غذائیت کا تعلق ہے۔مشروم کو دنیا بھر میں'سپر فوڈ' مانا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گوار کی پھلی کے ساتھ اس کے پتے بھی غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں جن میں خام پروٹین ،نائٹروجن سے پاک ایکسٹریکٹ ، کیلشم اور فاسفورس پایا جاتا ہے۔ اسی طرح تھر کی 'سانگری' میں 18 فیصد پروٹین ، 56 فیصد کاربوہائیڈریٹ ، 26 فیصد فائبر کے علاوہ کیلشم آئرن اور فاسفورس بھی موجود ہوتا ہے۔
پرکاش کا کہنا ہے کہ ان سبزیوں سے بہتر خوراک ہو ہی نہیں سکتی۔مگر تھر میں کبھی ان کی پروسیسنگ اور انہیں محفوظ رکھنے کے کسی منصوبے پر غور نہیں کیا گیا۔حکام کو اس کے متعلق سوچنا چاہیے۔اس سے مقامی لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے اور پھلوں و سبزیوں کا ضیاع بھی روکا جا سکتا ہے۔
راجیش سونی تھر کی سبزیوں اور خوراک کی روایات پر مہارت رکھتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھر میں سب سے زیادہ کھمبی تحصیل مٹھی میں ہوتی ہے۔ یہاں اس کی دو اقسام ملتی ہیں، ان میں ایک پتلی اور انتہائی لذیذ ہوتی ہے اور دوسری موٹی ہوتی ہے اسے مقامی لوگ' کھمبا 'کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر بارشیں تیز اور چار پانچ دن کے وقفے سے ہوں تو مشروم مسلسل اگتی اور بازار میں پہنچتی رہتی ہیں ۔ للر اور مریڑو بارشوں کے 15روز بعد آتی ہیں ۔جبکہ گوار بارشوں کے ڈیڑھ ماہ بعد مارکیٹ میں آتی ہے۔
راجیش سونی کا کہنا ہے کہ تھر کی ان سبزیوں کی مدت استعمال (شیلف لائف) زیادہ نہیں ہوتی ۔تازہ کھمبی (مشروم) تین دن جبکہ گوار، مریڑو، للر کی عمر بھی دو تین دن ہوتی ہے، پھر یہ سبزیاں قابل استعمال نہیں رہتیں۔ صرف کھمبا ہی 20 دن تک استعمال ہوسکتا ہے۔البتہ تھری لوگ چبھڑ اور گوار (تھوڑی مقدار میں)کو خشک کرکے رکھ لیتے ہیں اور کئی ماہ تک استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تھر میں کہیں بھی مشروم کو محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہاں کوئی سبزی منڈی یا کوئی ایسا انتظام بھی نہیں ہے جس سے یہ سبزیاں جمع کرنے والوں کو اچھا معاوضہ مل سکے۔
پینتیس سالہ رمیش کمار مٹھی میں سبزی کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ اس موسم میں تقریباً تمام سبزیاں تھرپارکر ہی کی بیچتے ہیں۔ ابھی کھمبی، للر اور مریڑو کا موسم ہے۔یقیناً دیہات سے یہ سبزیاں لانے والوں کو ریٹ کم ملتا ہے لیکن دکانداروں کو بھی اپنا منافع رکھنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
اچھی پیداوار کے لئے اچھی سڑک چاہئیے: آواران کے کسان سبزیاں خریدتے ہیں، اگاتے نہیں!
" یہاں کولڈ سٹوریج کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ہم رسک پر کاروبار کرتے ہیں۔مشروم سمیت بچ جانے والی سبزی دو تین دن بعد خراب ہو جاتی ہے۔مٹھی میں اگر سبزی منڈی فعال ہوتی تو اور بات تھی۔باہر کے آڑھتی یہاں سے سبزی منگواتے اور یہاں کے مال کی کھپت بڑھتی ۔اس طرح بیوپاریوں اور دیہات والوں دونوں کو فائدہ ہوتا۔"
تھرپارکر 1992ءمیں ضلع بنا مگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی میں سبزی منڈی 2009ء میں بنائی گئی۔یہ منصوبہ اس وقت 60 لاکھ روپے سے مکمل ہوا تھا اور20 دکانوں پر مشتمل یہ منڈی ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی گئی تھی۔
تاہم یہ سبزی منڈی آج تک فعال نہیں ہو سکی۔ یہ منڈی مرکزی بازار سے ایک کلومیٹر دور ڈپٹی کمشنر آفس کے قریب واقع ہے۔سبزی و فروٹ کا کاروبار کرنے والے دکان دار بھی وہاں منتقل نہیں ہوئے۔مارکیٹ کمیٹی کی عدم موجودگی منڈی فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عبدالحمید تھرپارکر میں سبزیوں کی کم پیداوار کو 'مارکیٹ کمیٹی' اور یہاں'سبزی منڈی' فعال نہ ہونے کا جواز بتاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ سبزی منڈی وہاں کام کرتی ہے جہاں زیادہ چیزیں اگائی جائیں یا پیدا ہوں ۔تھرپارکرمیں صرف بارشوں پر سبزیاں وغیرہ ہوتی ہیں اس لیے یہاں مارکیٹ کمیٹی نہیں بنی ہے۔تاہم وہ اس پر کام کریں گے۔
تاریخ اشاعت 24 اکتوبر 2023