خیبر پختونخوا کے ضلع کرّم میں مجیب رحمان کی چار ایکڑ زرعی زمین پر کیکر اور خودرو گھاس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کبھی اس زمین کو سیراب کرنے والا برساتی نالہ خشک پڑا ہے۔ کبھی وہ اس زمین سے اچھی پیداوار حاصل کرتے تھے لیکن اب انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس اراضی کا کیا کریں۔
2012 میں حکومت نے اس علاقے میں بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے بہتر طریقے سے استعمال میں لانے کے مقصد سے یہاں منڈہ (میدانی) ڈیم تعمیر کیا۔ اس موقع پر لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اس ڈیم سے زرعی زمینیں سیراب ہوں گی اور علاقے میں خوشحالی آئے گی۔ لیکن جب ڈیم کی تعمیر مکمل ہوئی تو مقامی کاشت کاروں کی زمینیں الٹا بنجر ہو گئیں کیونکہ انہیں جو برساتی نالہ سیراب کرتا تھا اب اس میں پانی نہیں آتا۔
اس علاقے میں بہنے والا دریائے کرّم اور مختلف مقامات سے نکلنے والے برساتی نالے اور کہیں کہیں زمین سے پھوٹنے والے قدرتی چشمے مقامی لوگوں کے لیے اپنی زرعی اراضی سیراب کرنے کا بنیادی ذریعہ رہے ہیں۔ یہاں کی آبادی کے بیشتر حصے کا روزگار زراعت اور مویشی بانی سے وابستہ ہے جس کے لیے پانی کی لازمی اہمیت ہے۔
کرم کا کل رقبہ آٹھ لاکھ 53 ہزار 326 ایکڑ ہے جس میں ایک لاکھ 44 ہزار ایکڑ سے کچھ زیادہ زمین زیر کاشت ہے۔ ضلعے کے تینوں حصوں (اپرکرّم، سینٹرل اورلوئر کرّم سب ڈویژنز) میں چاول، مکئی، گندم، مونگ پھلی، لوبیا اور تازہ سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔
محکمہ زراعت کے مطابق قابل کاشت رقبے میں ایک لاکھ دو ہزار ایکڑ سے کچھ زیادہ زمین برساتی نالوں اور چشموں سے ذرائع سے سیراب ہوتی ہے جبکہ 17ہزار 384 ایکڑ بارانی ہے۔ 90 ہزار 308 ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جبکہ پانچ لاکھ 42 ہزار 634 ایکڑ زمین کو زیر کاشت لانا ممکن نہیں۔ 58 ہزار ایکڑ زمین جنگلات پر مشتمل ہے۔
منڈہ ڈیم ٹل۔پارہ چنار مرکزی شاہراہ پر تحصیل علیزئی سے سات کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر اپریل 2004 میں شروع ہوئی اور جون 2012 میں نیسپاک کے زیر نگرانی اسے مکمل کر لیا گیا۔ ضلعی حکام کے مطابق اس منصوبے پر 20 سے 22 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
ایک برساتی نالے پر تعمیر کیے گئے اس ڈیم کا بنیادی مقصد بارش کا پانی ذخیرہ کرکے اس سے زرعی زمینوں کو سیراب کرنا، مچھلی کی پیدوار بڑھانا، جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنا اور سیاحت کو فروع دینا تھا۔
قبائلی مشر ملک عبدالرحمان عرف ولو ملک کہتے ہیں کہ حکومت نے ڈیم کے تعمیر کے لیے مقامی قبائل سے اس بنیاد پر زمین حاصل کی تھی کہ اس سے علاقے میں زرعی زمینوں کو سال بھر پانی دستیاب ہوگا لیکن منڈہ ڈیم بننے کے بعد برساتی نالے میں آنے والا پانی بھی خشک ہو گیا ہے جسے مقامی لوگ محدود پیمانے پر اپنی زرعی اراضی اور مویشی بانی کے لیے استعمال کرتے تھے۔
"آبپاشی کیلئے ڈیم سے نکالی گئی واحد نہر میں آج تک کسی نے پانی نہیں دیکھا۔ ڈیم کے ساتھ منڈہ کے گاؤں کی لگ بھگ سات سے آٹھ سو ایکڑ زمین اور قریب ہی دیگر علاقوں کی ہزاروں ایکڑ زمین سیراب کی جاسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس منصوبے کا مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"
انہوں نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر میں مبینہ طور پر ناقص میٹریل کے استعمال اور بدعنوانی کے باعث دو سال میں ہی ڈیم کے نچلے حصے میں ایک بڑا شگاف ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پانی نہر میں آنے کے بجائے ضائع ہو جاتا ہے۔
محکمہ زراعت ایک اعلیٰ عہدیدار نے دعوٰی کیا کہ ڈیم سے زرعی زمینوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے اور ڈیم کے قریب بنجر زمینیں دراصل مقامی قبائل کے مابین متنازع ہیں۔ انہوں نے بند میں شگاف پڑنے اور پانی کے ضیاع سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔
منڈہ ڈیم کے قریب منڈہ گاؤں، کاس اور بیل آمین نامی تین بڑے گاؤں ہیں۔ یہاں اہل تشیع اور سنی لوگ ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ تاہم 2007 میں اس علاقے میں شیعہ سنی تنازع کھڑا ہوا جس کے بعد سنّی آبادی دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر گئی۔
ولوملک کا تعلق نقل مکانی کرنے والے لوگوں سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ چھوڑنے سے پہلے وہ تینوں دیہات میں کاشتکاروں کی مدد سے 130 ایکڑ زمین پر گندم، چاول، مکئی اور سبزیاں کاشت کرتے تھے۔ 2013 میں حالات تبدیل ہونے پر جب وہ اپنے علاقوں میں واپس آئے تو راستے خراب تھے اور گھر مسمار ہوچکے تھے۔ زرعی زمینوں پر کیکر کے بڑے درخت اور جھاڑیاں اگ آئی تھیں جبکہ آبپاشی و آبنوشی کا نظام مکمل طورپر ناکارہ ہوگیا تھا۔
"ہم نے کافی کوشش کی کہ حکومت علاقے میں بنیادی سہولیات کی بحالی کے اقدمات کرے، لیکن اس کوئی پیش رفت نہ ہوئی، جس کی وجہ سے اب بھی ایک ہزار سے زیادہ خاندان اپنے علاقوں سے باہر رہنے پر مجبور ہیں، کیونکہ لوگوں کا واحد ذریعہ آمدن زراعت ہےاور پانی کی عدم دستیابی کے باعث زرعی زمین ویران پڑی ہے۔"
زمین کی ملکیت کے تنازعے پر بات کرتے ہوئے ولو ملک نے بتایا کہ ڈیم کے قریب مقامی قبائل کی مشترکہ زرعی جائیدادیں ہیں جہاں 1979 کے بعد افغان مہاجرین کے بہت بڑی بستی آباد تھی۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں کے درمیان اراجی کی ملکیت کے تنازعات بھی چل رہے تھے۔
1992 میں جب مہاجر ین کی کچھ تعداد واپس چلی گئی یا دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئی تو جرگے کے ذریعے فیصلہ ہوا کہ کوئی بھی فریق یہاں پر مکان تعمیر نہیں کرے گا جبکہ لوگ اسے زرعی مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ جب اس فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تو اسی وقت تنازع پیدا ہوا جو بعد میں شدت اختیار کر گیا۔
مجیب رحمان کا کہنا ہے کہ اس زمین کا بہت بڑا حصہ غیر متنازع اور لوگوں کے ذاتی ملکیت ہے جو پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ویران پڑا ہے۔
"ڈیم بننے کا صرف ایک فائدہ ہوا ہے کہ زیر زمین پانی کی مقدار بڑھ گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے پچاس یا سو فٹ پر پانی آتا تھا جبکہ اب تیس فٹ گہرائی میں بڑی مقدار میں پانی دستیاب ہے۔ اس سے برعکس دیگر علاقوں میں پچھلے کئی سال سے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔"
اس علاقے میں شکیل خان کی آبائی جائیداد بھی ویران پڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگ حکومت کو ڈیم کے لیے زمین دینے کو تیار نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ڈیم بنا تو ان کی اراضی اجڑ جائے گی۔ لیکن انہیں یہ امید دلائی گئی کہ اس سے ان کے علاقے میں زراعت میں بہتری آئے گی۔ تاہم اب حالات یہ ہیں کہ ڈیم سے ایک انچ زرعی زمین بھی سیراب نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی میں نمل ڈیم کی جھیل سوکھنے لگی، زرخیز زمینیں بنجر ہونے کا خدشہ
انہوں نے بتایا کہ اس وقت مقامی لوگوں کیلئے منڈہ ڈیم کی افادیت یہی ہے کہ مخصوص دنوں میں بڑی تعداد میں لوگ سیر وسیاحت کیلئے یہاں آتے ہیں اور مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ اس طرح علاقے میں معاشی سرگرمی قدرے بڑھ گئی ہے۔
ضلع کرّم اور اورکزئی کیلئے محکمۂ ماہی پروری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوردعلی خان نے بتایا کہ حکومت نے 2011 میں منڈہ ڈیم میں محکمہ ماہی پروری کو مچھلیوں کی افزائش کی ذمہ داری سونپی تھی ہر سال اس میں سلور، گراس، موری اور رہو مچھلیاں چھوڑی جاتی ہیں جن کی تعداد تیس سے چالیس ہزار تک ہوتی ہے۔ تاہم فنڈ کی کمی کے باعث چند سال سے یہ کام بھی تعطل کا شکار ہے۔
"منڈہ ڈیم مچھلیوں کی پرورش کیلئے بہت ہی مناسب مقام ہے، اگر فنڈ کی کمی کا مسئلہ حل جائے تو یہاں پر مچھلی کی بڑی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے مقامی لوگوں کو سیاحت اور مچھلی کے کاروبار کی شکل میں فائدہ ہوگا۔"
منڈا ڈیم اور اس کے قریب زرعی زمینوں کے مسائل پر بات کے لیے ضلع کرّم سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔ بند کی تعمیر میں ناقص میٹیریل کے استعمال اور شگاف پڑنے کے شکایت کے حوالے سے نیسپاک کے صدر دفتر سے بھی کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ادار ے کی جانب سے اس معاملے پر بات سے گریز سامنے آیا۔
منڈہ ڈیم کے حوالے سے ضلعی سطح کے سرکاری محکموں کے پاس ایک دوسرے سے مختلف اعداد وشمار معلومات ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ ڈیم کے مسئلے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2023