درختوں پر طوطے، مینا، نیل کنٹھ اور فاختاؤں کی جگہ چیلوں اور کووں کا بسیرا، لاہور کے خوبصورت پرندے کہاں گئے؟

postImg

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

درختوں پر طوطے، مینا، نیل کنٹھ اور فاختاؤں کی جگہ چیلوں اور کووں کا بسیرا، لاہور کے خوبصورت پرندے کہاں گئے؟

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

پچپن سالہ بدرمنیر لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ وہ کئی سال سےجنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ کینال روڈ پر شادمان میں واقع ان کے دفتر کے لان میں کئی طرح کے سایہ دار درخت ہیں جن پر پرندوں کا بسیرا رہتا ہے۔ بدر منیر نے زیادہ سے زیادہ پرندوں کو راغب کرنے کے لیے ان درختوں پر مصنوعی گھونسلے بھی بنا رکھے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کئی سال پہلے نہر کے کنارے اور ان کے دفتر میں درختوں پر را طوطے، مینا، بلبل، ہدہد، کوئل، نیل کنٹھ، کامن چڑیا، لالی اور فاختہ سمیت کئی طرح کے بے شمار پرندے آتے تھے۔ لیکن اب ان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

"یوں لگتا ہے جیسے پرندے لاہور سے روٹھ گئے ہیں۔ کینال روڈ لاہور کا ایسا حصہ ہے جہاں بڑی تعداد میں گھنے اور پرانے درخت واقع ہیں۔ ایسی جگہ پر پرندوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے لیکن اب یہ درخت صرف چیلوں اور کووں کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں۔"

اس نہر کے دونوں جانب ہزاروں درخت ہیں لیکن ان پر کسی بھی پرندے کا گھونسلہ نہیں ہے۔ یہی صورتحال مال روڈ کے درختوں کی ہے۔ البتہ شالامار باغ، باغ جناح، جلوپارک، گورنرہاؤس اور چڑیا گھر میں اب بھی پرانے پرندوں کے گھونسلے نظر آتے ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ترجمان مدثر حسن بتاتے ہیں کہ شہروں میں پائے جانیوالے پرندوں کو اربن وائلڈ لائف کہا جاتا ہے۔ لاہور میں ان پرندوں کے بارے میں محکمے کی جانب سےکبھی کوئی سروے نہیں کیا اس لیے شہر میں پرندوں کی اقسام کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ تاہم بعض تعلیمی ادارے وقتاً فوقتاً اس حوالے سے کام کرتے رہتے ہیں۔

1997 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ زوآلوجی کے سروے میں لاہور کی حدود میں پرندوں کی 74 اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زوآلوجی کے ماہرین یہ تعداد 85 بتاتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زوآلوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرزوالفقار علی کے مطابق 1965 کے ایک جائزے میں یہ تعداد 240 تھی اور 1992 میں یہاں پرندوں کی 101 اقسام کا پتا چلایا گیا تھا۔

پرندے کہاں گئے

محکمے کے ایک اور ڈپٹی ڈائریکٹر زاہد بھٹی کہتے ہیں کہ بیس پچیس سال پہلے لاہور میں دکھائی دینے والے پرندوں کی نسلیں ختم نہیں ہوئیں مگر وہ نظر اس لئے نہیں آتے کہ اب انہوں ںے اپنے مساکن تبدیل کر لیے ہیں۔ آجکل سب سے زیادہ پرندے لاہور کے کنٹونمنٹ ایریا میں پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں برسوں پرانے کئی درخت ہیں جنہیں کاٹا نہیں گیا۔ شہرکے دیگرعلاقوں کی نسبت کینٹ ایریا میں اربن وائلڈلائف زیادہ ہے۔

تحفظ جنگلی حیات کے لیے کام کرنے فہد ملک ان کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اربن وائلڈ لائف میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان پرندوں کے مساکن ختم ہو گئے زیادہ تر پرندے مقامی اور پرانے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے پرانے درخت کاٹے گئے پرندوں کے گھونسلے بھی ختم ہو گئے۔ دوسری غلطی یہ کی گئی کہ شجرکاری کے دوران مقامی پودے اور درخت لگانے کے بجائے غیرملکی اور فینسی پودے لگائے گئے جن پر پرندے گھونسلا نہیں بناتے۔

اسی طرح شہروں کی تیز روشنیوں اور شورشرابے نے بھی پرندوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ پرندوں کو اپنے گھونسلوں میں بریڈنگ کے لئے اندھیرا اور سکون درکار ہوتا ہے لیکن شہروں کی چکاچوند نے ان کی بریڈنگ پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں۔

فہد ملک نے بتایا شہرکے مختلف علاقوں میں صدقے کا گوشت بیچا جاتا ہے۔ یہ گوشت کھانے کے لئے جمع ہونیوالی چیلوں اور کوؤں نے ان علاقوں میں پائے جانیوالے دیگرپرندوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض اوقات بھوکی چیلیں چھوٹے پرندوں پر بھی حملہ کردیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ پرندے اب یہاں سے ہجرت کر گئے ہیں۔

گورنمنٹ کالج کے زیراہتمام اس جائزے میں سامنے آنے والے 44 پرندے مقامی اور 30 مہاجر تھے۔ مہاجر پرندوں میں 17 سردیوں اور 13 گرمیوں کے موسم میں یہاں آتے تھے۔ ان میں کامن چڑیا، سنہری چڑیا، کوئل، سرخ پشت والی بلبل، راطوطے، کاٹھے طوطے، ممولے، کالاتیتر، بھوراتیتر، بٹیرے، ہدہد، ہڑیل، مینا، سفید گالوں والی بلبل، رام چڑا، ماہی خور، فاختہ، لالیاں، نیل کنٹھ، چیل، کوے، بجڑا، الو، شارک، کبوتر اور چمگادڑیں قابل ذکر ہیں۔

زاہد بھٹی کہتے ہیں کہ چیلوں کی وجہ سے مقامی ماحول میں پائے جانے والے شکرے بھی غائب ہو گئے ہیں۔ اگرچہ شکرے بھی گوشت خود ہیں لیکن چیلیں انہیں بھگا دیتی ہیں۔ محکمے نے چند برس قبل شکرے فضا میں چھوڑے تھے تاکہ ان کی قدرتی ماحول میں افزائش ہو سکے جبکہ چیلوں کو بھگانے کے لئے وقتاً فوقتاً پٹاخے پھوڑے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود چیلوں نے ان شکروں کو لاہور میں نہیں رہنے دیا۔

پنجاب یونیورسٹی شعبہ زوآلوجی کے سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں فصلوں پر کئے جانیوالے زہروں کے سپرے کی وجہ سے بھی ایسے پرندوں کی نسل کو نقصان ہوا ہے جو کیڑے مکوڑے کھاتے تھے۔ دیہات میں بلیاں، کتے اور چوہے عام ہوتے ہیں جو پرندوں کے بچے اور انڈے کھا جاتے ہیں جس سے ان کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔

بدرمنیر کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آبادی، ہاؤسنگ سکیموں کے نام پر تیزی سے پھیلتے کنکریٹ کے جنگل نے پرندوں کو لاہور سے ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان راطوطے اور مقامی کاٹھے طوطے کو پہنچا ہے۔ را طوطے انڈیا سے ہجرت کرکے خوراک کی تلاش میں پاکستان آتے ہیں لیکن بارڈر ایریا میں نیٹنگ کے ذریعے ان کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

بدر منیر بتاتے ہیں کہ سیالکوٹ، شکرگڑھ، نارووال، ظفروال، قصور اور لاہور کے سرحدی علاقوں میں شکاری بڑے بڑے جال لگاتے ہیں جن میں یہ طوطے پھنس جاتے ہیں۔ را طوطے چونکہ کافی مہنگے فروخت ہوتے ہیں اس لئے ان کی بے تحاشا پوچنگ کی گئی ہے۔ ان کی بریڈنگ کرکے انہں فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج لاہور میں را طوطا خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔

مدثرحسن نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ) ایکٹ کے تحت اربن وائلڈلائف میں پائے جانے والے زیادہ تر پرندوں کا شکار کرنا یا انہیں پکڑنا جرم ہے۔ ان میں طوطے، لالیاں، فاختہ اور عام چڑیا بھی شامل ہیں۔ لیکن اس قانون پر عملدرآمد کمزور ہے۔

بدرمنیر کے مطابق لاہور میں پرندوں کی آبادی میں اضافے اور روٹھے پرندوں کو واپس لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں مقامی درخت لگانا ہوں گے۔ پرانے درختوں کے کاٹنے پرمکمل پابندی ہونی چاہیے اور پھل داردرخت اگائے جانے چاہیں۔ جلوپارک، جیلانی پارک، باغ جناح، شالامارباغ اور میو گارڈن پرندوں کے لیے پرسکون علاقے ہیں یہاں جھاڑیاں بھی اگائی جانی چاہئیں کیونکہ کئی پرندے جھاڑیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اورانہیں اپنے گھونسلے بنانے کے لئے تنکوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

رزق کا فقدان یا شکاریوں کا خوف: مہاجر پرندہ سیاہ سر دُرسہ ایک سال سے آواران کا مہمان نہیں بنا

اس کے علاوہ محکمہ وائلد لائف کو پرندوں کا غیرقانونی شکار کرنے والوں پر سختی کرنا ہو گی۔ شہروں کے اندر بڑی عمارتوں کی چھتوں پر پرندوں کے لئے پانی اور دانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ گھروں اوردفاترکے لان میں پرندوں کے مصنوعی گھونسلے رکھنا، برڈ ہاؤسزکی تعداد بڑھانا اور بچوں کے تعلیمی نصاب میں وائلڈ لائف کا مضمون شامل کرنا بھی پرندوں کو شہر میں واپس لانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کے شعبے کے طلبہ نے لاہور میں پرندوں کی موجودہ اقسام کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ایک ہفتے کے مطالعے کے دوران صرف 50 کے قریب اقسام کے پرندے ہی نطر آ سکے تھے۔ اگر ہجرت کرنے والے پرندوں کوبھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد اب بھی 80 اقسام تک ہو سکتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ لاہور اپنے پرندوں کی نصف سے زیادہ انواع کھو چکا ہے جو مقامی ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تشویشناک علامت ہے۔

تاریخ اشاعت 24 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.