چار سال پہلے تھر کے 55 سالہ کاشت کار عبدالغنی سمیجو اور ان کی تین بیٹیوں کو قاتلانہ حملے میں شدید زخمی کر دیا گیا۔ ان پر یہ حملہ زمین آباد کرنے کے تنازع پر سمیجا قبیلے کے دو فریقین میں جھگڑے کے دوران ہوا۔ اس حملے میں مجموعی طور پر ان کے گھرانے کے پانچ افراد لاٹھیوں اور کلہاڑیوں کے وار سے شدید زخمی ہوئے۔ جب ان زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو حملہ آوروں نے ان کے کھیتوں پر قبضہ کر لیا۔
عبدالغنی سمیجو کے بیٹے سمو سمیجو بتاتے ہیں کہ جن کھیتوں کو آباد کرنے پر جھگڑا ہوا تھا وہ زمین 'اینیمی پراپرٹی' ڈکلیئرڈ ہے لیکن ان کے والد اسے 1971ء سے کاشت کرتے آ رہے ہیں۔ تاہم اب اس پر بااثر افراد کا قبضہ ہو چکا ہے اور چار سال سے تھانوں اور وڈیروں کے بنگلوں کے چکر لگانے کے باوجود انہیں انصاف نہیں مل سکا۔
صحرائے تھر میں جرائم کم ہی ہوتے ہیں مگر جولائی کی بارشوں کے بعد بارانی زمین پر کاشت کے لیے کسانوں اور حق ملکیت کے دعویدار افراد میں اکثر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان جھگڑوں کے نتیجے میں لوگ ہسپتالوں اور تھانے کچہریوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور پولیس بھی تین مہینے مصروف رہتی ہے۔
بندوبست اراضی اور لینڈ گرانٹ سروے نہ ہونا ان تنازعات کی بنیادی وجہ ہے۔
علی شیر سمیجو عمر کوٹ میں بطور تحصیلدار(مختیار کار) کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحرائے تھر میں کبھی بندوبست اراضی (قلعہ بندی/پیمائش) نہیں ہوا۔تاہم سیٹلمینٹ سرویز کا ریکارڈ ایکڑوں میں موجود ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا اور دیگر ویب سائٹس پر پاکستان میں صحرائےتھر کا مجموعی رقبہ 30ہزار مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے کا مجموعی رقبہ 22 ہزار 15 مربع کلو میٹر یعنی 54 لاکھ ایکڑ ہے۔
سر کاری اراضی ،اینیمی پراپرٹی اور جھگڑے
انجنیئر علی اکبر راہموں تھر کی تحصیل چھاچھرو کے گاؤں تڑ دوست کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نجی ملکیت کے سوا تھر کی اراضی کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلی قسم وہ سرکاری اراضی ہے جس میں ریزرو ایریاز، جنگلات، پانی کے کنویں اور قدرتی تالابوں (ترائی) کی اراضی اور قدیم بنجر قدیم (ناقابل کاشت) اراضی آتی ہیں۔ان زمینوں کو نہ تو کاشت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ الاٹ ہوتی ہیں۔
علی اکبر نے بتایا کہ شہروں اور قصبات کے قریب زمین کی دوسری قسم 'گئوچر' (چراہ گاہ) کہلاتی ہے۔ تیسری طرز کی اراضی وہ ہے جو برصغیر کی تقسیم کے وقت خالی ہوئی۔ یہ اویکیو(متروکہ)پراپرٹی کہلاتی ہے اور چوتھی وہ زمین ہے جو65ء اور 71 کی جنگوں کے دوران بھارت چلے جانے والے لوگ چھوڑ گئے تھے۔ یہ اینیمی پراپرٹی (دشمن کی تحویل میں لی گئی) کہلاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گئوچر، اویکیو اور اینیمی پراپرٹی بھی سرکاری ہی ہے مگر اس کے انتظام میں فرق ہے۔ سرکاری اراضی میں کل قابل کاشت رقبہ چھ لاکھ 13ہزار 374 ایکڑ بتایا جاتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کےمطابق ضلع تھرپارکر میں اینیمی پراپرٹی کا ایک لاکھ 89 ہزار 194 ایکڑ رقبہ ہے۔ باقی سرکاری قابل کاشت رقبے کے علاوہ ہے۔ ضلع عمرکوٹ کے صحرا ئی علاقے میں آٹھ ہزار 976 ایکڑ اینیمی پراپرٹی موجود ہے۔
ریونیو ریکارڈ کے مطابق عمر کوٹ کی اینیمی پراپرٹی پر 235 مقامی لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ اسےآباد بھی کر رہے ہیں۔ محکمہ ریونیو عمرکوٹ نے یہ رپورٹ اگست 2021 میں تیار کی ہے۔
علی اکبر راہموں کہتے ہیں کہ قبضے کے تنازعات ویسے تو تمام سرکاری زمینوں اور چراگاہوں پر ہوتے ہیں۔ تاہم اینیمی پراپرٹی پر زیادہ جھگڑے دیکھنے میں آتے ہیں کیوں کہ ان زمینوں کی دیکھ بھال کا کوئی سرکاری نظام نہیں ہے۔
تھر میں ملکیتی حقوق دینے کے لیے پہلے بھی پالیسیاں بنتی رہیں مگر کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا۔ پہلی تھر لینڈ گرانٹ پالیسی 1930ء، دوسری 1986ء تیسری 2000 ء اورچوتھی گرانٹ پالیسی کا اعلان 2002ء میں کیا گیا۔ مگر یہاں کبھی بندوبست اراضی نہیں ہوا۔
محقق اور لکھاری بھارو مل امرانی تھرپارکر کے شہر چیلہار کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنی کتاب' تھر کی لوک دانش' (اصل نام اور کتاب سندھی میں ہے) میں بتاتے ہیں کہ 1930 کی لینڈ گرانٹ پالیسی میں یہ لازم تھا کہ "زمین آباد کرنے والا کسان فصل اکٹھی کر کے رکھے گا اور گاؤں کے نیک مرد (مکھیا/وڈیرا)کو دے گا۔
1986 کی پالیسی میں پرانی پالیسی کو رد کرتے ہوئے اس میں ملکیت دینے کے لیے کاشت کی مدت دس سے کم کر کے پانچ سال کر دی گئی۔2000ء اور 2002 ء کی پالیسیاں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں۔
بھارو مل امرانی کا ماننا ہے کہ چاروں پالیسیاں بناتے وقت مقامی دانش کو پس پشت ڈالا گیا تھا۔ اس لیے ان ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
دیپ سنگھ سوڈھو تھرپارکر کے گاؤں ویجھیار کےرہائشی اور محکمہ ریونیو کے ریٹائرڈ پٹواری (تپے دار) ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ضلع تھرپارکر میں کل47 لاکھ91 ہزار ایکڑ بارانی زمین ہے جس میں 14 لاکھ 89 ہزار 955 ایکڑ اراضی قبولی (کاشت کاروں کے نام رجسٹرڈ) ہے۔
2022ء میں تھر میں چار لاکھ18 ہزار ایکڑ بارانی رقبہ کاشت کیا گیا۔ یہ کاشت بارشوں کی بنیاد پر کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
اسی طرح تحصیل عمرکوٹ کے 25 صحرائی دیہات میں چھ لاکھ 32 ہزار 405 ایکڑ بارانی زمین موجود ہے۔ پٹواری چندر پرکاش سوٹھڑ بتاتے ہیں کہ یہاں صرف 30 ہزار ایکڑ زمین ہی رجسٹرڈ (قبولی) ہے۔
چندر پرکاش کے مطابق تھر میں بارشوں کی صورت میں کھیت مالکان سے دو روپے فی ایکڑ ریونیو وصول کیاجاتا ہے۔ تھر کی بارانی زمین کی خرید و فروخت کے سلسلے میں پانچ ایکڑ پر مجموعی طور پر سب رجسٹرار لینڈ ریونیو آفس میں دو سے ڈھائی لاکھ کا خرچہ ہوتا ہے جس میں رجسٹریشن فیس شامل ہے۔
زمین کاشت کار کی ملکیت کیسے بنتی ہے
پینسٹھ سالہ سائیں داد نھڑی عمر کوٹ کے گاؤں شہمیر ڈھانی میں 40 سال سے کاشت کاری کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اینیمی پراپرٹی پر کسان اجازت لے کر فصل اگاتے ہیں۔ ایک سال کی ڈھل (زرعی ٹیکس ) دینے والا کاشت کار 'یک سالو'کہلاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جو کسان ایک ہی زمین کا مسلسل پانچ سال ٹیکس دیتا ہے وہ زمین اس کے نام پر رجسٹر کر لی جاتی ہے۔اسے 'ہمیشگی' کہتے ہیں ۔یعنی زمین قانونی طور پر کسان کی ملکیت ہو گئی۔ مگر کسی کو ملکیت کے کاغذات نہیں ملتے۔
نئی تھر لینڈ گرانٹ کمیٹی اور سروے کا آغاز
ڈھاٹ کے رانا ھمیر سنگھ سوڈھو کئی مرتبہ ایم پی اے اور صوبائی مشیر رہ چکے ہیں اور اب تھر لینڈ گرانٹ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 76 برسوں سے زیر التوا تھر لینڈ گرانٹ پالیسی کو قانونی حیثیت دلانے کے لیے سندھ اسمبلی میں آواز اٹھائی۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 30 جولائی 2021ء کو تھر لینڈ گرانٹ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ مخدوم محبوب الزماں کو اس کا چیئرمین مقرر کیا گیا جبکہ اس کے ارکان میں ان سمیت متعدد ارکان اسمبلی کے علاوہ ریونیو پورڈ کے ممبران اور سیکرٹری کو رکن نامزد کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
حیدر آباد میں زرعی اراضی پر پھیلتی ہاوسنگ سکیمیں، بلڈرز نے کاشت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی
رانا ھمیر سنگھ کا کہنا تھا کہ محکمہ فنانس نے اس مد میں ابتدائی طور پر 11 کروڑ روپے جاری کیے تھے۔ تھرپارکر کی دو تحصیلوں کلوئی اور اسلام کوٹ کو ماڈل بنا کر ڈھائی لاکھ ایکڑ بارانی غیر رجسٹرڈ زمین کا سروے شروع کردیا گیا ہے ۔اس کا افتتاح مخدوم محبوب الزماں نے مٹھی میں پانچ اگست 2023 ءکو کیا تھا۔
لینڈ گرانٹ سروے کیوں اہم ہے
دوست محمد راہموں بھی چھاچھرو کے گاؤں مہران ویرو میں رہتے ہیں۔وہ پیپلز پاٹی کے سابق ایم پی اے اور صوبائی مشیر رہے اور اب تھر لینڈ گرانٹ کمیٹی کےبھی رکن ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر سال بارشوں کے بعد نئے تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے نئی کمیٹی مینڈیٹ کے تحت غیر رجسٹرڈ زمینوں کا سروے کرائے گی اور 'نئی لینڈ گرانٹ پالیسی'کے لیے سفارشات تیار کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں کمیٹی اینیمی اور غیر رجسٹرڈ زمینوں کی ریونیو ریکارڈ کے مطابق حد بندی کرائے گی۔ پٹوار(تپہ) سرکلز اور نقشے بنانے کا کام مکمل ہوگا ۔ دیہہ سے تحصیل تک تمام علاقوں کی حدود واضح ہو جائیں گی اور اس طرح صحرائے تھر میں مدتوں سے جاری 'مالکی حدود'کے جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ دوسرے مرحلے میں جب پالیسی مسودے کو قانونی شکل مل جائے گی تو زمین کا کھاتہ الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔ باقی تنازعات اسی سے حل ہو جائیں گے اور کوئی کسی کی رجسٹرڈ زمین آباد نہیں کرے گا۔
رانا ھمیر سنگھ کے مطابق پورے صحرائے تھر کا سروے ہو گا، علاقے میں ملکیتی زمینوں اور پراپرٹی کی قیمتیں بڑھیں گی اور تھر کے لوگوں کا 76 سال پرانا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 2 ستمبر 2023