49 سالہ احمد نعمان نے پانچ سال پہلے لاہور شہر کے مضافات کی ایک تنگ سی گلی میں ایک چھوٹا سا رہائشی پلاٹ خریدا۔
اِس پلاٹ کی پچھلی طرف گیٹ والی شاندار رہائشی سوسائٹی ویلنشیا ٹاؤن تھی جہاں تمام شہری سہولیات مہیا تھیں لیکن اس کے سامنے سیاہی مائل آلودہ پانی کا ایک جوہڑ تھا۔ قریب واقع قبرستان میں فاقہ زدہ کتے کچھ کھانے کو تلاش کرتے پھرتے اور ننھے بچے ننگے پاؤں پلاسٹک کے کچرے سے کھیلتے رہتے۔ یوں ان کا یہ پلاٹ دو مختلف دنیاؤں کے سنگم پر تھا۔
احمد لاہور کے ایک بڑے نجی سکول سسٹم میں آپریشنل آفیسر ہیں۔ وہ اپنا مکان بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے دس سال تک دن رات کام کرتے رہے۔ پانچ مرلے کے پلاٹ پر اب بنا براؤن پینٹ والا یہ مکان ان کی برسوں کی سخت محنت کا ثمر ہے۔
احمد کی گلی اور اِسی طرح کی ایک اور گلی اب ویلنشیا وَیلی کہلاتی ہیں۔ 11 کنال 18 مرلے پر پھیلی ہوئی اس آبادی میں کُل 32 مکان ہیں۔
7 اکتوبر 2022ء کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے اردو روزنامہ جنگ میں ایک اشتہار کے ذریعےشہر کی 116 رہائشی سوسائٹیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ان میں ویلنشیا ویلی بھی شامل تھی۔
اشتہار میں وضاحت کی گئی کہ یہ رہائشی سوسائٹیاں ایل ڈی اے کے قواعد و ضوابط پر پوری نہیں اُتری تھیں۔ مانگا وَیلی فیز 3، نیو لاہور سٹی فیز 4، احساس وِلاز اور مکہ گارڈنز اُن میں نمایاں تھیں۔ اشتہار میں خبردار کیا گیا کہ اِن غیر قانونی سوسائٹیوں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے۔
اس نوعیت کے اشتہارات کوئی انہونی بات نہیں۔ یہ ہر چند ماہ بعد شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن سوسائٹیوں کو غیر قانونی قرار دینے کا معاملہ ان اشتہارات سے آگے نہیں جاتا تو آخر اس عمل کا حاصل کیا ہے؟
ایل ڈی اے نے اِن غیر قانونی سوسائٹیوں میں سے تقریباً چالیس کو 'لینڈ سب ڈویژن' (یعنی ایک سو کنال سے کم رقبہ) قرار دیا۔ زیادہ تر سب ڈویژنز بڑی اور امیرانہ سوسائٹیاں کے وسط میں ہیں۔ ان چھوٹی سوسائٹیوں میں رہنے والے کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے بہتر رہائشی سہولیات کی خاطر بڑی سوسائٹیوں کی ہمسایہ چھوٹی سوسائٹیوں میں سرمایہ لگایا ہوتا ہے۔
ویلنشیا وَیلی کی زمین کے اصل مالک اشتیاق ڈوگر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے 2011ء میں اُس وقت کے ریگولیٹری ادارے یعنی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) سے اپنی سوسائٹی کی باقاعدہ منظوری لی تھی۔ "جب ہم نے 2014-15ء میں کام شروع کیا تو ایل ڈی اے نے آکر ہمیں روک دیا اور کہا کہ ہماری سوسائٹی اُن سے منظور شدہ نہیں۔"
چھوٹی سوسائٹیوں کی منظوری پہلے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے دائرہ اختیار میں ہی تھی لیکن 2013ء میں پنجاب حکومت نے ایل ڈی اے ایکٹ 1975ء میں ایک ترمیم کے ذریعے اتھارٹی کا دائرۂ اختیار بڑھا کر پورے لاہور ڈویژن کی حدود میں واقع تمام رہائشی معاملات اس کے سپرد کر دیے۔ گویا ایل ڈی اے لاہور، قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے اضلاع میں واقع تمام رہائشی سکیموں کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی بن گئی۔
احمد نعمان نے بتایا "پلاٹ خریدتے وقت مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ سوسائٹی غیر قانونی ہے۔ میں نے ایک زمیندار سے زمین لی جس نے میری معلومات کے مطابق تمام قواعد پر عمل کرتے ہوئے زمین کو ڈویلپ کیا تھا۔" انہوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ اُس کی سوسائٹی کو واپڈا سے بجلی کیسے مل گئی جبکہ واپڈا ایل ڈی اے کی منظوری کے بغیر بجلی فراہم نہیں کرتا۔
ویلنشیا وَیلی واحد سوسائٹی نہیں جو اس وقت قانونی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ اشتیاق ڈوگر کے مطابق 2013ء میں بھی ایل ڈی اے نے 256 سوسائٹیوں کو اِسی طرح نشانہ بنایا تھا۔ "متعدد سوسائٹیوں نے مل کر یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں اُٹھایا۔ ہم نے 19 ستمبر 2019ء کو کمشنر لاہور کو بھی ایک درخواست بھیجی۔"
2013ء میں اختیارات کی منتقلی پر ٹی ایم اے کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری سے متعلقہ تمام ریکارڈز دو سال کے اندر ایل ڈی اے کو بھیجنے تھے۔ اشتیاق کا کہنا ہے کہ جب معاملے کی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ ٹی ایم اے کا ریکارڈ رکھنے والا شخص منتقلی کے دوران فوت ہو گیا تھا اور اُس کے پاس محفوظ تمام دستاویزات کھو گئے تھے۔
اشتیاق ڈوگر نے کہا "میں پھنس گیا ہوں۔ ٹی ایم اے نے ہمارا تعمیراتی نقشہ منظور کیا تھا لیکن معاملات ایل ڈی اے کے زیرِ اختیار آنے کے بعد ٹی ایم اے نے منظوری کے کاغذات اُسے بھیجے ہی نہیں"۔
اشتہاربازی اور پلاٹوں کی منڈی کے اتار چڑھاؤ کی باریکیاں
ویلنشیا وَیلی کو بنے تو ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن ایل ڈی اے کی اشتہاری پابندیوں کی زد میں کئی ایسی سوسائٹیاں بھی ہیں جنہیں آباد ہوئے کئی عشرے بیت چکے ہیں۔
طیب ٹاؤن بیس سال سے زائد عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا اور اب مکمل طور پر آباد ہے لیکن ایل ڈی اے نے اسے بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس سے چند کلومیٹر دور واقع المدینہ گارڈن کی بھی یہی بپتاہے۔
ایک مقامی پراپرٹی ڈیلر میاں محمد اکرام کو یقین ہے کہ چھوٹی سوسائٹیوں کو دبانا بڑی سوسائٹیوں کو تحفظ دینے کا طریقہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایل ڈی اے ان اشتہارات کے ذریعے غریب لوگوں کی زمین کی قیمت گھٹاتا ہے تاکہ قریب کی زیادہ بڑی سوسائٹیوں میں رہنے والے امیروں کو خوش کرے اور فائدہ پہنچائے۔ ان کے خیال میں یہ بات بڑی سوسائٹیوں کے مفاد میں ہے کہ ان کے آس پاس سستی زمین دستیاب نہ ہو کیونکہ اس سے اُن کی زمین کی قیمت بھی گھٹ جاتی ہے۔ اکرام نے کہا "اگر ایل ڈی اے کا مقصد واقعی پالیسی میں درج معیاروں کے مطابق سوسائٹیوں کو ریگولیٹ کرنا ہے تو چھوٹی سوسائٹیوں کو تعمیر کے برسوں بعد کیوں غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے (پہلے کیوں نہیں؟)۔"
فیروزپور روڈ پر ایک اور غیرقانونی قرار دی گئی سوسائٹی ایلیٹ ٹاؤن کے رہائشی میاں اسلم کے ایل ڈی اے کے بارے میں خیالات بھی اس سےکچھ مختلف نہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ریحان گارڈن فیز 2 جیسی بڑی سوسائٹیاں توسیع کی سرکاری منظوری کے بغیر کیسے پھل پھول رہی ہیں؟ "ان کے نام اشتہارات میں کیوں نہیں؟ کیا ایل ڈی اے ان کو نظرانداز کرنے کی کوئی 'قیمت' وصول کرتا ہے۔ ہم جیسے غریب لوگوں کے پاس اداروں کو خریدنے کے لیے رقم نہیں۔"
اُن کا کہنا ہے کہ ایلیٹ ٹاؤن میں لوکیشن کے حساب سے پلاٹوں کی فی مرلہ قیمت تین تا پانچ لاکھ روپے تک ہے۔ لیکن ساتھ ہی آباد سنٹرل پارک جیسی ایل ڈی اے کی منظور شدہ سوسائٹیوں میں ایک مرلہ کی قیمت دس لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔
کیا ایل ڈی اے اپنی اصل ذمہ داری بھول چکا ہے؟
ایل ڈی اے کی جانب سے چھوٹی سوسائٹیوں کے بارے میں دھمکی آمیز انضباطی اختیارات کا مظاہرہ رہائشی سہولیات کے ایک مہیب بحران کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ شہر منصوبہ سازی کے بغیر پھیل رہے ہیں اور رہائشی سہولیات کی قلت آبادی کے بڑے حصے کو متاثر کر رہی ہے جن میں سے ایک بڑی اکثریت کم آمدنی والوں کی ہے۔ 2013ء سے 2018ء تک پاکستان میں مکانات کی قیمتوں میں 134 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرائے بھی لگ بھگ اسی تناسب سے بڑھ گئے ہیں۔
پنجاب اربن ریسورس سنٹر نامی این جی او کے سابق ڈائریکٹر طارق لطیف شہری ترقی سے متعلقہ مسائل کو سمجھتے ہیں، انھوں نے دو عشروں سے زائد عرصے تک ایل ڈی اے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ ایل ڈی اے "ہر کسی کے لیے نہیں ہے" اور ساتھ ہی ایک اہم سوال کی طرف توجہ دلاتے ہیں: سارے لاہور میں ایل ڈی اے کی اپنی رہائشی سکیمیں بھی ہیں، اگر ایل ڈی اے خود مارکیٹ کا حصہ ہے تو وہ اس سیکٹر کی ریگولیٹری اتھارٹی کیسے ہو سکتا ہے؟
لاہور میں کچی آبادیوں کے ڈائریکٹوریٹ جنرل میں ڈائریکٹر راشد محمود کا کہنا ہے کہ یہ اشتہارات ایل ڈی اے کا اپنی اصل ذمہ داری سے بچنے کا بہانا ہیں۔ "اشتہارات شائع کرنے کے علاوہ، ادارہ اس ضمن میں کچھ اور نہیں کرتا اور ان کا رہائشی بحران کو حل کرنے میں بھی کوئی کردار نہیں۔ رہائشی سہولیات مہیا کرنا ایل ڈی اے کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ میرے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ وہ کم آمدنی والے لوگوں کو رہائش مہیا کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟"
وفاق نے گزشتہ برس حکومت پنجاب پر زور دیا کہ صوبے بھر میں چھ ہزار سے زائد غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو ریگولرائز کرنے (باضابطہ بنانے) کی راہ تلاش کی جائے۔
اِسی مقصد کے پیش نظر پنجاب کمیشن فار ریگولرائزیشن آف ارریگولر ہاؤسنگ سکیمز آرڈی نینس 2021ء کے تحت ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کو کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا، جبکہ اراکین میں جسٹس (ر) وقار الحسن اور ڈاکٹر شاکر محمود میو شامل تھے۔
ڈاکٹر شاکر انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی لاہور کے سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے شعبے کے چیئرمین بھی ہیں، ان کے مطابق اداروں کے اپنا کردار صحیح ادا نہ کر پانے میں بنیادی مسئْلہ ترجیحات کے غلط تعین کا ہے۔ "چھوٹی سوسائٹیوں کو ریگولرائز کرنا چاہیے، لیکن پالیسی کے فقدان کا سارا الزام ایل ڈی اے کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس رہائشی بحران کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری سب پر ہی آتی ہے۔"
اُن کے خیال میں ایل ڈی اے کے پاس پنجاب کی طاقتور لینڈ مافیا کے احتساب کے لیے مناسب اختیارات نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے امیر کبیر لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی تبدیلی آئے۔ "ہم اُن سے مقابلہ تو نہیں کر سکتے، بس اُنہیں مثبت سمت میں ہی چلا سکتے ہیں۔"
سجاگ نے ایل ڈی اے کے حکام کا مؤقف جاننے کے لیے بارہا رابطے کیے لیکن متعلقہ لوگ بات کرنے پر رضامند نہیں ہوئے۔
تاریخ اشاعت 14 جنوری 2023