'چمن کے انگور' پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اچھے انگور کا کوئی متلاشی جب بازار جائے تو عام طور پر دکان دار سے چمن کے 'سندر خانی' انگور طلب کرتا ہے۔ مخصوص سیزن میں یہ انگور بازاروں میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ جو انگور خرید رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ چمن سے آیا ہو۔
مارکیٹ میں موجود بیشتر انگور افغانستان سے درآمد ہوتے ہیں اور ان کا چمن سے تعلق بس اتنا ہے کہ وہ چمن بارڈر کے راستے پاکستان آتے ہیں۔
چمن چیمبر آف کامرس کے سابق صدر عمران کاکڑ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں انگور کی پیداوار جون کے مہنے میں تیار ہو کر ایک ماہ میں ملک بھر کی منڈیوں میں پہنچ جاتی ہے۔
"جب مقامی انگور کا سیزن ختم ہوتا ہے تو 10 جولائی تک افغانستان میں قندھار کے انگور پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر یہ انگور افغان صوبے قندھار سے آتے ہیں اور انہیں چمن کے راستے پاکستان پہنچایا جاتا ہے۔ یہی انگور ملک بھر میں 'چمن کے سندرخانی انگور' کے نام سے فروخت ہوتے ہیں"۔
عمران کاکڑ بتاتے ہیں کہ چمن میں انگور کی اتنے بڑے پیمانے پر پیداوار نہیں ہوتی کہ اسے ملک بھر کی منڈیوں میں بھیجا جا سکے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 22۔2021ء میں پاکستان بھر میں انگور ساڑھے 39 ہزار ایکڑ پر کاشت کیا گیا تھا۔ اس سال کُل ملکی پیداوار ایک لاکھ سات ہزار میٹرک ٹن تھی۔ اس میں سے 99 فیصد یعنی ایک لاکھ 6 ہزار میٹرک ٹن حصہ بلوچستان کا تھا۔
اُس سال بیرون ملک سے ایک لاکھ 53,000 میٹرک ٹن انگور منگوایا گیا جس کی مالیت نو ارب 68 کروڑ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ اس میں ایک لاکھ 42,357 میٹرک ٹن انگور افغانستان سے آیا تھا۔
دو سال پہلے چمن کو قلعہ عبداللہ سے الگ کر کے الگ ضلع بنایا گیا۔ 21-2020 میں ان دونوں جگہوں پر انگور کا زیر کاشت رقبہ تقریباً پانچ ہزار ایکڑ تھا۔
بلوچستان کے ڈائریکٹر زرعی تحقیق سلیم یوسف زئی کے مطابق اس وقت چمن میں انگور کی سالانہ پیداوار 1600 میٹرک ٹن ہے۔
چمن میں 65 فیصد سے زیادہ کسان اپنے انگورکے باغات کاریزوں سے سیراب کرتے ہیں۔ کاریز پہاڑوں سے آنے والی وہ زیرزمین قدرتی ندی ہوتی ہے جس کے ذریعے آبپاشی مقاصد کے لیے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ ان میں موسم بہار سے سردیوں تک پانی کا محفوظ طریقے سے بہاؤ جاری رہتا ہے۔
سوئی کاریز کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے علی اللہ چھ ایکڑ پر اپنے باغات میں انگور اگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں خشک سالی کے باعث کاریزوں میں پانی کم ہو گیا ہے جس سے انگوروں کی کاشت بھی متاثر ہوئی ہے۔
"اب کسان کاریز سے ہٹ کر ٹیوب ویل کے پانی پر انحصار کرنے لگے ہیں لیکن گرمیوں میں جب انگور کو پانی چاہیے ہوتا ہے تو اس دوران لوڈ شیڈنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے انگور کی بھرپور پیداوار کے لیے حالات کچھ ایسے سازگار نہیں ہیں"۔
محمد زئی چمن کے وسط میں اپنے دو ایکڑ باغ میں عام طور پر سندرخانی اور کشمشی انگور اگاتے ہیں۔ یہ باغ دوعشرے قبل ان کے بڑے بھائی نے کاشت کیا تھا۔ اس سے انہیں 2021ء میں ایک لاکھ 65 ہزار اور 2020ء میں ڈیڑھ لاکھ روپے آمدنی ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال بارشوں اور سیلاب سے انگور خراب ہو گئے تھے اور وہ فصل سے بمشکل 50 ہزار روپے کما سکے تھے۔ اس سال انہوں نے اپنا ایک باغ ایک لاکھ 85 ہزار روپے میں ٹھیکے پر دے دیا ہے۔
علی اللہ کہتے ہیں کہ پورا صوبہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی زد میں ہے۔ پچھلے اپریل میں بہت ژالہ باری ہوئی کہیں کہیں تو پتھر نما اولے گرے جس سے بعض جگہوں پر انگور کی فصل پوری طرح تباہ ہو گئی۔
"جب بارشیں شروع ہوتی ہیں تو رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ زیادہ بارش سے بیل خراب ہوجاتی ہے یا بیماری لگ جاتی ہے۔ انگور کو منڈی میں پہنچانا ایک الگ مسئلہ ہے۔ راستے خراب ہیں، کبھی کسی ہڑتال یا احتجاج کے باعث سڑکیں بند ہوں تو انگور گاڑیوں میں ہی خراب ہو جاتا ہے"۔
بلوچستان میں انگور کی چھ اقسام اگائی جاتی ہیں جن میں کلمک، آئتہ ،سندرخانی ،کشمشی ، طور یا کالا انگور اور روچہ شامل ہیں۔چمن میں روچہ، سندر خانی اور کشمشی انگور کی کاشت زیادہ ہے۔
روچہ انگور سب سے پہلے تیار ہوتا ہے جو دس جون تک مارکیٹ میں آ جاتا ہے اور ایک ماہ رہتا ہے۔ اس کے بعد کشمشی، کالا انگور ،کلمک اور سندرخانی آتے ہیں۔ آخر میں آئتہ انگور بازاروں میں آتا ہے جو موسم خزاں سے بیس روز پہلے تیار ہوتا ہے۔
مطیع اللہ نے چمن کے علاقے کلی لنڈی کاریز میں چار ایکڑ انگور کاشت کر رکھا ہے جس سے وہ ہر سال دو سو من پیداوار حاصل کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انگور کی نئی بیل پر کاشت سے پیداوار تک اوسطاً خرچ 500 کے قریب ہوتا ہے۔ایک ایکڑ میں تقریباً 500 بیلیں ہوتی ہیں۔ نئے باغ پر کاشت سے پہلی پیداوار تک فی ایکڑ اخراجات سوا دو سے سوا تین لاکھ روپےتک آتے ہیں۔جس میں صرف آبپاشی کا خرچ تقریباً 95 ہزار روپے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے باغ کی پیداوار 50 من فی ایکڑ ہے ۔ محمکہ زراعت رہنمائی کرے اور حکومت سستی کھاد اور سپرے فراہم کرے تو پیداوار بڑھ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان پاکستان کو انگور اور انار کیوں نہیں بھیج رہا؟
چمن ہی کے ایک اور کاشت کار محمد زئی بھی یہی بات کرتے ہیں کہ یہاں انگور کے کاشت کرنے والوں کو محکمہ زراعت کی کوئی مدد میسر نہیں ہے۔
فصل کا جائزہ لینے کے لیے کبھی کوئی کاشت کار باغات میں نہیں آیا۔ اس علاقے میں انگور کی پیداوار کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو قدم بڑھانا ہو گا۔
دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت ثناء اللہ کا دعویٰ ہے کہ انگور کے کاشت کاروں کو اچھی فصل کے حصول میں ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
اس بات کے ثبوت میں وہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پانچ برس کے دوران ضلع چمن میں انگور کی کاشت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔یہاں اب انگور کا زیر کاشت رقبہ 180 ایکڑ اور پیداوار لگ بھگ 400 میٹرک ٹن بڑھ گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھار مائٹس، جویں اور امریکن سنڈی جون جولائی میں فصل کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم رواں سال اب تک چمن میں انگوروں کو کوئی بیماری نہیں لگی۔
تاریخ اشاعت 27 جولائی 2023