پیاسے تھر میں پانی فراہم کرنے کی کئی ناکام سکیموں کے بعد نیا منصوبہ کیا ہے؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

پیاسے تھر میں پانی فراہم کرنے کی کئی ناکام سکیموں کے بعد نیا منصوبہ کیا ہے؟

جی آر جونیجو

صحرائے تھر اور خشک سالی کا پرانا ساتھ رہا ہے لیکن 1998ء اور 2002ء کے درمیان چار سال تک جاری رہنے والے سوکھے نے پچھلے 50 برسوں  کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ جس سے زیریں سندھ کا ڈیلٹا بھی خشک ہو گیا تھا۔

ضلع تھرپارکر میں 2000ء خشک سالی کے عروج کا سال تھا جب صحرا سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بھوک اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے 13 لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے، 127 زندگی کی بازی ہار گئے اور 30 ہزار مویشی ہلاک ہوئے۔

اسی دوران اس وقت پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ "تھر سے 28 فیصد سے زائد آبادی بیراجی  علاقوں میں نقل مکانی کر چکی ہے اور باقی لوگوں میں 'لنگر' اور غلہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔"

تاہم اسی سال پہلی بار تھر پارکر کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مٹھی شہر کو پانی فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا جو 2002ء میں مکمل ہوا۔ اس دوران کمیونٹی کی مدد سے علاقے میں کنویں کھودنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

صحرائے تھر دنیا کا واحد خطہ نہیں جہاں خشک سالی یا کبھی کبھی کم بارشیں آتی ہیں بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک کے مختلف علاقوں میں سوکھا پڑتا ہے اور بعض اوقات مون سون میں بارش نہیں ہوتی مگر وہاں انسانی جانوں کا اتنا نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی اتنے زیادہ مویشی ہلاک ہوتے ہیں۔

تھرپارکر کی 17 لاکھ 78 ہزار آبادی میں سے صرف 8 فیصد  لوگ شہروں جبکہ 92 فیصد دیہات میں رہتے ہیں جن کا معاشی انحصار بارش پر ہے۔ اس ضلعے کی مجموعی زرعی پیداوار میں باجرے کا حصہ 41 فیصد، گنے کا 33 فیصد، گندم 13 فیصد،کاٹن 9 فیصد اور تلی کا حصہ لگ بھگ تین فیصد بنتا ہے۔ 

سندھ میں لائیو سٹاک کی مجموعی پیداوار کے اعتبار سے ضلع تھرپارکر مویشی (گائے، بیل) میں تقریباً 11 فیصد، بھیڑوں میں 30 فیصد اور بکریوں میں 17.6 فیصد  حصہ ڈالتا ہے۔ تاہم جب بارش نہیں ہوتی تو مخصوص علاقوں کے سوا کہیں کوئی فصل اور چارہ نہیں ہوتا۔

صحرا میں جہاں پہلے ہی غربت و افلاس کے ساتھ طبی سہولتوں کا فقدان اور زیر زمین پانی کڑوا ہے۔ فصلوں و چارے اور پینے کے لیےصاف پانی کی عدم دستیابی کے مسائل موجود ہیں۔ اور یہاں جب سوکھا پڑتا ہے تو قحط کی سی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس کے باعث انسانوں اور جانوروں کی ہلاکتیں شروع ہو جاتی ہیں۔

سال 2011ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ضلع تھرپارکر  میں صحرا کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے 33 ملین ڈالر سے 750 آر او (ریورس اوسموسس) پلانٹس لگانے کا منصوبہ بنایا جن میں سے شمسی توانائی سے چلنے والے 700 پلانٹس کی تنصیب 2016ء میں مکمل ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

ان میگا منصوبوں کے علاوہ ضلع کونسل کے سب مرسیبل پمپس اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی تھر میں صاف پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے لگائے گئے۔

بدقسمتی سے 2014ء میں تھرپارکر کو ایک بار پھر خشک سالی  نے لپیٹ میں لینا شروع شروع کر دیا۔ بارشوں میں کمی آتی گئی جس کو ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات قرار دے تھے۔ تاہم اس بار بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ سوکھے کا یہ سلسلہ 2018ء تک چلا۔

قومی ذرائع ابلاغ  نے 18نومبر 2018ء کو تھر کا نقشہ کچھ یوں بتایا "سول ہسپتا ل مٹھی میں ایک اور نومولود دم توڑ گیا ہے جس سے تھر میں رواں ماہ میں ہلاک بچوں کی تعداد 30 ہو گئی جبکہ اسی سال اب تک غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث 549 بچوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

تھرپارکر میں بد ترین خشک سالی اور قحط کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کی نقل مکانی کے باعث اکثر دیہات خالی ہو چکے ہیں۔"

سندھ حکومت نے 2018ء میں 'سوکھے سے متاثرہ تھر میں فوری ضرورت کا جائزہ' کے نام سے رپورٹ تیار کرائی جس کے مصنفین نے لکھا "حالیہ برسوں میں کم بارشوں کی وجہ سے تقریباً 60 فیصد آبادی فصل کاشت کرنے کے قابل نہیں رہی یہ لوگ مزدوری کے ذریعے مشکل سے ہی اپنے خاندان کی صرف ایک وقت کی روٹی کا انتظام کر سکیں گے ۔"

"یہاں سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ جو دیہات ہم نے دیکھے ان میں سے کوئی ایک گاؤں بھی ایسا نہیں جہاں کا پانی عالمی ادارہ صحت کے کم از کم معیار پر پورا اترتا ہو۔"

سندھ حکومت نے پانچ ارب 40 کروڑ روپے کی لاگت سے تھرپارکر میں نجی کمپنی پاک اوسیس کے ذریعے جو 635 آر او پلانٹس لگوائے تھے ان میں سے بیشتر کچھ عرصے بعد ہی بند ہو گئے اور ابھی تک فعال نہیں ہو سکے۔
 
سابق نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے دسمبر 2023ء میں مٹھی کا دورہ کیا تو یہاں پر لگائے گئے ایشیا کے بڑے آر او پلانٹ کی خراب حالت تھی جس پر انہوں نے پلانٹ لگانے والی کمپنی اوسلو کیخلاف تحقیقات حکم دیا۔

بعد ازاں صوبائی کابینہ نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی درخواست پر اسلام کوٹ اور مٹھی کے آر او پلانٹس بحال کرنے کی منظوری دی مگر ابھی تک دونوں پلانٹ فعال نہیں ہو سکے ہیں۔
 
مارچ 2024ء میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای )کے سیکریٹری سہیل قریشی نے اچانک مٹھی آر او پلانٹ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ 20 لاکھ گیلن پانی روزانہ میٹھا فراہم کرنے والا ایک ارب روپے کا آر او پلانٹ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے 2019ء سے بند پڑا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چند ماہ قبل اس پلانٹ کی مرمت کے لیے 10 کروڑ روپے جاری کیے مگر یہاں آ کر انکشاف ہوا کہ رقم خورد برد ہو چکی اور آر او پلانٹ پر کوئی کام نہیں ہوا جس پر انہوں نے ایگزیکٹیو انجینئر اسلم ڈاہری اور اسسٹنٹ انجینئر محمد ادریس کو معطل کر دیا ہے۔

ضلع بھر میں لگائے جانے والے باقی چھوٹے بڑے 635 سولر آر او پلانٹس کی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں جن کی بحالی کا کام اب محکمہ پی ایچ ای کے سپرد ہے۔

پی ایچ ای میں ریورس اوسموسس ایک مقامی ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمے کا کل بجٹ 50 کروڑ ہے جس میں سے 24 کروڑ تنخواہوں میں جاتے ہیں۔ بقایا رقم سے 50 پلانٹ بمشکل فعال کیے جا سکیں گے کیونکہ ایک چھوٹا آر او پلانٹ بحال کرنے پر 15 سے 20 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تھر کے ہر دیہات میں 15 ہزار گیلن روزانہ کی صلاحیت والا آر او پلانٹ لگایا گیا تھا جسے چلانے کے لیے ہر جگہ آپریٹرز تعینات کیے گئے تھے۔ ہر پلانٹ چلانے پر آپریٹر کی تنخواہ سمیت سالانہ 20 سے 22 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

تھرپارکر میں محکمہ پی ایچ ای اور ڈسٹرکٹ کونسل کی جانب سے مختلف اوقت پر الگ این آئی ٹی (نوٹس انوائٹنگ ٹینڈر ) کے ذریعے سب مرسبل پمپ لگوائے گئے تھے جو سولر، بجلی یا جنریٹر کے ذریعے زیر زمین پانی (ٹریٹ کیے بغیر) براہ راست فراہم کرتا ہے۔

تھر پارکر میں ایک ہزار 200 سے زائد سب مرسیبل پمپ کی سکیمیں لگ چکی ہیں جن پر ایک ارب خرچ کیا گیا ہے۔ تھر کے مختلف علاقوں میں اس پمپ پر(زیرزمین پانی کی گہرائی کے مطابق) سات لاکھ سے 17 لاکھ تک لاگت آتی ہے مگر یہ پانی کڑوا ہی ہوتا ہے۔
 
ڈیپلو شہر کے قریب گاؤں سڑھ کے رہائشی جگومل بتاتے ہیں کہ بعض دیہات میں سماجی اداروں نے بھی سب مرسیبل پمپ لگائے ہیں جن میں سے کچھ کا پانی نسبتاً کم کڑوا ہے جو مشکل سے 15 گھروں کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔

پی ایچ ای ذمہ دار کے مطابق تھر میں کل 832 آر او پلانٹس ہیں اور پچھلے پانچ سال میں 1200 کے قریب سب مرسیبل پمپ لگائے گئے۔

"محکمے کے پاس ٹیکنیکل سٹاف کی شدید کمی ہے۔ یہاں صرف ایک اسسٹنٹ انجینئر اور تین سب انجنئیر ہیں حالانکہ ایریا کے حساب سے انجنیئر اور سب انجینیئر کہیں زیادہ 14 ہونے چاہیئیں۔

ان کے بقول سب مرسیبل پمپ ' مکمل ناکام' سکیم ہے جو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ تھر میں نہر کا پانی اور آر او پلانٹس ہی مسئلے کا حل ہیں ۔

محکمہ پی ایچ ای کے اسسٹنٹ انجینئر باقر حسین شاہ بتاتے ہیں کہ نوکوٹ سے 2002ء میں بنائی گئی واٹر سپلائی لائن سے مٹھی شھر اور راستے میں آنے والے دیہات کو نہر کا میٹھا پانی ملا۔ لیکن ایک شہر کی گنجائش والی سپلائی کو پہلے اسلام کوٹ اور پھر 2023ء میں ننگرپارکر اور چیلھار تک پہنچا دیا گیا۔

"اب آبادی بڑھ گئی مگر سپلائی لائن وہی ہے جس سے مٹھی شہر، اسلام کوٹ اور درمیانی آبادی کو مشکل سے مہینے میں ایک بار پانی ملتا ہے۔ مٹھڑاؤ کینال (جہاں سے مٹھی کو پانی آتا ہے) پر وارا بندی، پمپنگ سٹیشن کے دیہی فیڈر پر بجلی کی 16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ اور پرانی پائپ لائن سے کئی مسائل ہیں۔"

صوبائی حکومت سندھ نے رواں بجٹ میں اس اسکیم کے لیے ایک ارب روپے سے زائد فنڈ رکھے تھے لیکن اب یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔

علی اکبر راہموں تھرپارکر کے ماحولیات اور پانی پر کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں جو ایسوسی ایشن فار واٹر، اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینیوایبل انرجی (اویئر) کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ تھر میں پانی کی فراہمی کے جتنے بھی منصوبے بنائے گئے ان میں آر او پلانٹس کی تنصیب ہی جدید اور قابل عمل پروگرام ہے۔

"مختلف این جی اوز نے یہاں پانی کے پراجیکٹس پر جتنا کام کیا وہ ایک الگ پنڈورا باکس ہے۔ نلکوں اور سولر پمپس وغیرہ کی تعداد بھی تھر کے دیہات سے تین گنا زیادہ ہے مگر ان کا کوئی مکینزم ہی موجود نہیں۔"

بد قسمتی سے بہتر نگرانی نہ ہونے کے باعث یہ آر او پلانٹس پراجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکا جس کو بہتر منصوبہ بندی کر کے کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں پی ایچ ای کے پاس تکنیکی عملہ کم ہے اور ان کے پاس لیبارٹری تو ہے ہی نہیں "

 محکمہ پی ایچ ای کے ایک اور افسر اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ مقامی افسروں نے کول بلاک ٹو سے گوڑانو ڈیم میں جمع ہونے والے پانی پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر اسے دیہات میں فراہم کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ پانی پورے تھر کی ضرورت پورا کر سکتا ہے مگر اس تجویز پر بھی کسی نے کان نہیں دھرا۔

ستاسٹھ سالہ محمد ادریس مٹھی کے گاؤں کاٹھو کے کاشتکار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھر میں پانی کا مسئلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ یہاں بہت کم علاقوں میں کچھ کنویں میٹھے ہیں باقی سب کڑوا پانی ہے۔ یہاں کے لوگ دہائیوں سے کینال کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے پورا تھر سرسبز ہو سکتا ہے۔

"سنا ہے کہ بھارت میں اندرا گاندھی کینال کے ذریعے صحرا کو آباد کیا جا رہا ہے اگر وہاں ممکن ہے تو ہمارے ہاں بھی نہر آنی چاہیے۔"

واقفان حال کہتے ہیں کہ 1991ء میں جب مشترکہ مفادات کونسل کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے فارمولے پر مذاکرات ہو رہے تھے تو اس وقت سندھ کے نمائندے نے ایک کینال کے ذریعے تھر کو پانی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر معاہدہ ہونے کے بعد اس معاملے میں خاموشی چھائی رہی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں گندے پانی کا ذخیرہ: 'پانی زندگی دیتا ہے لیکن اس نے ہماری بقا کو مشکل بنا دیا ہے'۔

تاہم واٹر ریسورسز کے ماہر اور کنسلٹنٹ انجینئر ظفر وٹو کہتے ہیں کہ صحرائے تھرپارکر کو نہری پانی دینے کے منصوبے خا کہ ادارہ برائے سندھ بارانی علاقہ جات ( سازدا) نے 1993 ء میں پیش کیا تھا جس کے تحت گڈو بیراج سے مٹھی تک ایک بڑی کینال بنانے کی تجویز دی گئی تھی جس کی لمبائی 500 کلومیٹر تھی۔

 سال 2000ء میں وفاقی حکومت نے گدو بیراج سے رینی کینال نکالنے کا اعلان کیا جس کا دو سال بعدسنگ بنیاد رکھا گیا اور بتایا گیا کہ اگلے مرحلے میں تھر تک نہر پہنچائی جائے گی۔ واپڈا کے مطابق رینی  کینال کو سیزنل پانچ ہزار 155 کیوسک پانی مہیا کیا جائے گا جس کا مقصد رینی ٹریک کے نارا ریجن میں آبپاشی اور جھیلوں میں سیلابی پانی سٹور کرنا ہے۔

واٹر اینڈ پاور اتھارٹی کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق پہلے رینی کینال کا فیز ون شروع کیا گیا جس کی لمبائی 110 کلومیٹر، پانی کی گنجائش پانچ ہزار 155 کیوسک رکھی گئی۔ اوریجنل پی سی ون کے مطابق رینی کینال کا کل کمانڈ ایریا چار لاکھ 12 ہزار 400 ایکڑ بنتا ہے لیکن فیزون سے ایک لاکھ 13 ہزار 690 ایکڑ رقبے کو فائدہ پہنچےگا جس کی لاگت 18 ہزار 862 ملین روپے بتائی گئی۔
 
رینی کینال کے پہلے مرحلے پر کام اکتوبر 2002ء میں شروع ہوا اور منصوبے کا یہ مرحلہ جون 2014ء میں مکمل ہونا تھا۔ لیکن حسب روایت سے کام بھی تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا تاہم رینی کینال یہ حصہ جنوری 2022ء میں واپڈا نے مکمل کر کے محکمہ انہار سندھ کے حوالے کر دیا۔

جون 2022ء میں سندھ حکومت نے رینی کینال کا دوسرا مرحلہ یعنی تھر کینال اگست 2023ء میں مکمل کرنے کا اعلان کا اعلان کر دیا مگر اس کی فزیبلیٹی تک مکمل نہیں ہوئی تھی۔

2021ء میں فزیبلیٹی  رپورٹ کی تیاری کا کام کنسلٹنٹ نیسپاک، بارقاب، رحمان حبیب ( جے وی ) کنسلٹنٹ کو دیا گیا۔

اب دس روز قبل ہی ایک کنسلٹینٹ کمپنی کے ڈائریکٹر انجنیئر ظفر وٹو نے اعلان کیا ہے کہ تھر کینال کی فزییبلیٹی رپورٹ مکمل ہو گئی ہے۔

"تھر کینال سے رینی، نارا اور صحرائے تھر کا نہ صرف ڈھائی لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبہ سیراب ہو گا بلکہ دولاکھ سے زیادہ لوگوں کو پینے کا پانی ملے گا اور پانچ لاکھ سے زائد مویشی بھی پانی پئیں گے۔"

یکے بعد دیگرے کئی منصوبوں کی ناکامی کے بعد تھر کے باسیوں نے پانی کے لیے اب تھر کینال سے اپنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں جوکب پوری ہوں گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

تاریخ اشاعت 31 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.