بٹ گرام کی تحصیل الائی کے گاؤں جنگڑئی کی آبادی دو ہزار ہے جسے ضروریات زندگی کے لیے تواتر سے بٹنگئی جانا پڑتا ہے۔ علاقے کا مرکزی بازار، گورنمنٹ مڈل سکول اور بنیادی مرکز صحت بھی (بی ایچ یو) وہیں واقع ہیں۔ جنگڑئی سے بٹنگئی کا سفر پیدل طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے اور سالہا سال سے یہاں کے لوگ دونوں جگہوں کے درمیان پیدل ہی آتے جاتے تھے۔
اپریل 2019 میں لوگوں نے اس وقت سکون کا سانس لیا جب ایک مقامی شخص نے ان کے گاؤں سے بٹنگئی تک چیئر لفٹ (کیبل کار) لگا لی۔ اب وہی راستہ جسے پیدل طے کرنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا، چیئر لفٹ کی بدولت پانچ منٹ میں طے ہونے لگا۔
22 اگست 2023 کی صبح آٹھ بجے جنگڑئی کے 22 سالہ دکاندار گل فراز اور 19 سالہ عرفان اللہ سمیت سکول کے سات طلبہ اس کیبل کار میں سوار ہوکر بٹنگئی کیلئے روانہ ہوئے مگر راستے میں ایک رسی ٹوٹنے کےباعث کیبل کار رک گئی اور اس میں سوار آٹھوں افراد تین سو میٹر بلندی پر پھنس کر رہ گئے۔
پھنسی ہوئی چیئر لفٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی یہ واقعہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر رپورٹ ہونے لگا۔ 15 گھنٹے کی تگ و دو کے بعد پاکستان آرمی کے لائے گئے زپ لائن ماہرین اور بشام شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مقامی رضا کاروں نے رات کے ساڑھے گیارہ بجے تک تمام افراد کو ریسکیو کر لیا۔
اس واقعے کے نتیجے میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ ان چیئر لفٹس کی تنصیب کے اجازت ناموں، ان کے معیار کی جانچ وغیرہ کے حوالے سے باتیں شروع ہوئیں، چیئر لفٹس سیل ہوئیں، مالکان گرفتار ہوئے لیکن اصل سوال وہیں کا وہیں رہ گیا کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ لوگ سفر کے اس پرخطر طریقے کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہم نے علاقے کا دورہ کیا۔ بٹگرام کے علاقے تھاکوٹ میں قراقرم ہائے وے سے تحصیل الائی کیلئے موڑ لیتے ہی اس علاقے کی پسماندگی کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔
ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے ہوتے ہوئے ہم تین گھنٹوں میں بنہ الائی پہنچے جہاں گاڑی پارک کرنا پڑی کیونکہ پاشتو کی طرف جانے والی سڑک پر صرف اُونچی فور بائی فور گاڑی ہی چل سکتی ہے۔
مقامی ڈرائیور پرویز کے ساتھ پاشتو کیلئے سفر انتہائی تکلیف دہ، مشکل اور پرخطر تھا، تین گھنٹوں میں ہم پاشتو بٹنگئی پہنچے، چیئر لفٹ کے پھنسنے کے مقام پر ہم نے نیچے دریا کی طرف دیکھا اور پھر آس پاس نظر دوڑائی تو کوئی سڑک نظر نہیں آئی۔ وہیں پر لفٹ میں پھنسے رہنے والے عرفان اللہ کے والد اکسٹھ سالہ عمریز سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ 2019 سے پہلے لوگ روزانہ کی بنیاد پر دریا کےسامنے سے دوسری طرف تک راستے پر سفر کرتے تھے، یہ کافی لمبا راستہ ہے جس پر ان کے بقول گھنٹے دو گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے۔
عمریز کے مطابق جنگڑئی میں صرف ایک پرائمری سکول ہے، قریب کوئی خاص دکان بھی موجود نہیں اور بی ایچ یو ہسپتال بھی بٹنگئی میں ہے، اس لئے لوگوں کو دونوں مقامات کے درمیان روزانہ آنا جانا رہتا ہے جن میں سکول جانے والے بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگڑئی میں اس سے قریب کوئی مڈل یا ہائی سکول نہیں ہے اور بچے روزانہ اسی چیئر لفٹ کے ذریعے سکول آتے تھے کیونکہ ان کیلئے پیدل آنا مشکل تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر چیئر لفٹ نہ ہوتی تو شاید بہت کم بچے ایسے ہوتے جو صبح سویرے پیدل چل کر مڈل سکول بٹنگئی جا سکتے۔ یہ تو ان کیلئے ایک نعمت ہے۔
واقعے کے دن کو یاد کرتے ہوئے عمریز نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر کے دورازے سے دیکھا جب یہ سب ڈولی (چیئر لفٹ) میں سوار ہورہے تھے، جوںہی وہ گھر کے اندر گئے تو شور سنائی دینے لگا۔ انہوں باہر آ کر دیکھا کہ ڈولی ہوا میں اُچھل رہی ہے، اس موقع پر انہوں نے کلمہ پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
عمریز نے جب آنکھیں کھولی، تو ڈولی اُچھلنا بند ہوگئی تھی اور ایک طرف لٹک رہی تھی جبکہ اس میں بیٹھے سکول کے بچے چلّا رہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں گاؤں کے لوگ اکھٹے ہوگئے مگر افسوس کہ اُس وقت موبائل فونز کام نہیں کررہے تھے۔ کیونکہ علاقے میں شام چھ بجے سے صبح دھوپ نکلنے تک موبائل کے سگنل نہیں آتے۔ ایسے میں سب لوگ پاشتو کی طرف گئے تاکہ انتظامیہ کو اطلاع دی جا سکے۔
بائیس سالہ گل فراز آٹھ محصور افراد میں عمر میں سب سے بڑے تھے، وہ بٹنگئی میں اپنی دکان چلاتے ہیں، اس دن کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ جب چیئر لفٹ کی رسی ٹوٹ گئی تو اپنی زندگی سے اُمید ختم ہوگئی تھی۔
"جب ریسکیو کیلئے آنے والے ہیلی کاپٹر کی رسی چیئر لفٹ کی رسی سے اٹک گئی تو یقین ہو گیا کہ اب گر کر مر ہی جائیں گے، لیکن چونکہ سکول کے بچے ساتھ تھے تو انہیں حوصلہ رہا۔جب عرفان اللہ بیہوش ہوا تو اسے ہوش میں لانے کی بھرپور کوشش کی اور ہیلی کاپٹر کی رسی سے بھی سب سے پہلے عرفان اللہ کو باندھا، کیونکہ اُس کی حالت زیادہ خراب تھی۔
چیئر لفٹ میں سفر سے جڑے خطرات کے بارے میں گل فراز نے بتایا کہ حادثات تو ہوتے ہیں، خود انہوں نے پندرہ گھنٹے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارے، مگر یہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ کیبل کار زندگی کیلئے خطرہ ہے۔ وہ 2019 سے لے کر اس واقعے کے رونما ہونے تک اپنی دکان جانے کیلئے روزانہ اسی پر سفر کرتے آرہے ہیں۔
"جہاز بھی گرتے ہیں، سڑکوں پر روزانہ حادثات ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اس علاقے میں پل یا سڑکیں بنا دے تو پھر ہمیں چیئر لفٹ پر سفر کی ضرورت نہیں رہے گی۔"
خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں بٹ گرام، شانگلہ، تورغر، مانسہرہ، کوہستان اور سوات کے مختلف علاقوں میں اُونچی جگہوں نالوں دریاوں کے اوپر ایسی کیبل کار اور چھوٹی ڈولیاں چلتی ہیں جس میں ہاتھ سے چلنے والی لفٹ کو زیادہ خطر ناک تصور کیا جاتا ہے۔
24 جون 2023 کو سوات کے علاقہ پیشمال میں چئیر لفٹ کی رسی ٹوٹنے سے ایک ماں اور اُن کے ساتھ نومولود بچی دریائے سوات میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئی تھیں۔
اسی طرح 30 دسمبر 2020 کو شانگلہ کے علاقہ الپوری کوٹکے میں 3500 فٹ بلندی پر واقع چیئر لفٹ کی رسی بھی اسی طرح ٹوٹ گئی تھی، جس میں دو افراد پھنس گئے تھے۔ انہیں ریسکیو کرنے کا کام بھی رات گئے تک جاری رہا اور بشام کے مقامی ولگوں نے دونوں کا بحفاظت لفٹ سے نکال لیا تھا۔
ضلع بٹگرام کے گاؤں کنڈورا، آلائی میں اباسین کے اوپر ہاتھ سے چلائی جانے والی چیئر لفٹ 2010 کے سیلاب کے بعد لگائی گئی ہے۔ اس کے ذریعے قراقرم ہائے وے بشام شنگ سے کنڈورا، الائی کیلئے مقامی لوگ یہی چئیر لفٹ استعمال کرتے آرہے ہیں۔
یہ چیئر لفٹ اڑسٹھ سالہ مقامی بزرگ گل زر نے لگائی ہے اور وہ خود اس کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ وہ خود، ان کے رشتہ دار اور مقامی لوگ اس چیئر لفٹ کو بلا معاوضہ استعمال کرتے ہیں اور چند ہی منٹوں میں اباسین عبور کر لیتے ہیں۔
گل زر کے مطابق ان کے گاؤں کو دیگر علاقوں سے ملانے والی یہی ایک ڈولی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے جبکہ چیئر لفٹ خستہ حال ہو چکی ہے اور حکومت اسے بند کرنا چاہتی ہے، ان کے پاس روٹی کیلئے پیسے نہیں، چیئر لفٹ کس طرح مرمت کریں لیکن وہ کوشش کر رہے ہیں کہ چندہ اکھٹا کرکے اس کی رسیوں اور بنیادوں کی مرمت کریں۔
کاشف محمد خان بٹگرام سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ہیں، جنہوں نے تعلیم و صحت پر کئی مرتبہ ضلع بٹگرام میں سروے کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع بٹگرام، شانگلہ، کوہستان، تورغر، سوات، دیر، چترال، مانسہرہ میں تعلیم اور صحت تک رسائی کے بڑے مسائل ہیں۔
"ان علاقوں میں 60 سے 70 فیصد تک آبادی پہاڑوں میں رہتی ہے جس کو تعلیم و صحت کی سہولیات تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ پیدل راستوں پر انہیں کئی گھنٹے لگتے ہیں اور جن علاقوں میں کچی سڑکیں ہیں وہ بہت زیادہ خطر ناک ہیں۔
جہاں سڑکیں نہیں ہیں وہاں پیدل راستوں پر بہت زیادہ وقت لگتا ہے تو لوگ سکول، بازار اور ہسپتال جانے کیلئے چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ جلدی پہنچ جائیں اور بروقت گھروں کو لوٹ سکیں۔
بدر منیر نے شانگلہ کوٹکے بورڈ سے مانڑئی سر کیلئے 17 سال پہلے کیبل کار لگائی ہے جس میں روزانہ سو سے زیادہ مقامی افراد سفر کرتے ہیں وہ ان سے فی سواری 30 روپے وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مانڑئی سر سے سکول کے بچوں کے علاوہ نوکر پیشہ افراد الپوری کیلئے آنے جانے کیلئے چیئر لفٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔
لفٹ کی مرمت اور دیکھ بال کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہیں کہ مہینے میں ایک دفعہ پوری مرمت کی جائے کیونکہ لوگوں کی جانیں قیمتی ہیں اور اگر حکومت اسے بند کراتی ہے تو انہیں روزگار بھی دے اور مانڑئی سر کی ہزاروں کی آبادی کیلئے پل بھی تعمیر کرے۔
یہ بھی پڑھیں
الائی میں خستہ حال خطرناک سڑکیں 50 سال سے مرمت کی منتظر: خطرناک گڑھے آئے روز انسانی جانیں لینے لگے
بٹ گرام کے ڈپٹی کمشنر بٹگرام تنویر احمد نے بتایا کہ علاقے میں 11 چیئر لفٹ چل رہی ہیں جن میں چھ تحصیل الائی اور باقی پانچ بٹگرام میں ہیں تاہم اسسٹنٹ کمشنر الائی جواد علی نے بتایا کہ ان میں چار کیبل کاروں کو غیر تسلی بخش قرار دینے کے بعد سیل کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام چیئر لفٹ مالکان کو ٹی ایم اے کے ذریعہ مطلع کیا گیا ہے کہ فوری طور پر اپنی چئیر لفٹ مرمت کروائیں اور فٹنس سرٹیفکیٹ فراہم کریں۔
اسی طرح ضلع شانگلہ کے ڈپٹی کمشنر حسن عابد نے بتایا کہ شانگلہ میں کل 9 چیئر لفٹس ہیں جن میں سات اباسین پر قائم ہیں جنہیں مقامی لوگ آمدورفت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
ڈی سی شانگلہ نے بتایا کہ ٹی ایم ایز کو اس حوالے سے انسکپشن کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، تمام چیئر لفٹس کو چیک کیا جارہا ہے اور مالکان کو ہدایت جاری کردی گئی ہیں کہ مرمت کا کام کرکے فٹنس سرٹیفکٹ ٹی ایم اے آفس میں جمع کروائیں، بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
ڈی سی شانگلہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کے پاس سفر کیلئے اس سے مناسب اور سستا ذریعہ موجود نہیں، اگر اس کی ماہانہ دیکھ بھال اور مرمت کی جائے تو یہ سفر کیلئے محفوظ بھی ہیں۔
تاریخ اشاعت 14 ستمبر 2023