بائیس سالہ شاہین شیخ کا خاندان سندھ میں آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وہ چھ ماہ کی حاملہ ہیں اور انہوں نے حمل کا بیشتر عرصہ دربدری میں کاٹا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اگست میں سیلاب آیا تو اس میں میرے گھر اور جہیز سمیت ہمارا سب کچھ ڈوب گیا اور اب ہمارے چاروں طرف گدلے پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔''
دوپہر کی دھوپ میں کھلے آسمان تلے بیٹھی شاہین اپنے پیٹ کے ابھار کی جانب دیکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ''یہ میرا پہلا بچہ ہے'' یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ ان کے ہاتھ اور بازو گرمی کی تمازت سے جھلسے دکھائی دیتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کھیتوں میں مشقت کرتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں چار سیلاب دیکھ چکی ہیں۔
شاہین شیخ کا تعلق چوکی جمالی سے ہے۔ یہ سندھ کی سرحد پر بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کی تحصیل گنداخہ میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ کبھی یہاں چار سو سبزہ اور چاول کے لہلہاتے کھیت دکھائی دیتے تھے لیکن اب یہ جگہ کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
یہاں مقامی لوگوں کے لیے سیلاب کوئی نئی چیز نہیں۔ ہر سال گندگی، مویشیوں کی لاشوں اور کیمیائی مواد سے اٹا پانی اس گاؤں کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ صاف پانی یہاں کے لوگوں کے لیے گویا بہت بڑی آسائش ہے۔
شاہین بتاتی ہیں کہ "جب سیلاب آیا تو میرا خاندان گدھا گاڑی کے ذریعے شہداد کوٹ بائی پاس کے قریب ایسی جگہ چلا آیا جو قدرے محفوظ تھی۔ لیکن ہم زہریلے پانی اور مچھروں کے درمیان ایسے پھنسے ہیں کہ اب ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا"۔
شاہین جس جگہ رہتی ہیں وہاں جھونپڑیوں کے چاروں طرف تقریباً پانچ فٹ اونچا سیلابی پانی جمع ہے جو اب زہریلا ہو چکا ہے۔ یہاں رہنے والی حاملہ خواتین دو سے تین مرتبہ ملیریا میں مبتلا ہو چکی ہیں اور مسلسل بیماریوں سے لڑنے کے نتیجے میں ان کی صحت خطرناک حد تک گر گئی ہے۔
سرخ رنگ کی شلوار قمیض اور گہرے سبز دوپٹے میں ملبوس شاہین اپنے حمل کے بارے میں جھجھکتے ہوئے بات کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''سیلاب کا عرصہ بہت کٹھن تھا۔ کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ کچھ لوگ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہمارے لیے امدادی خوراک کے پیکٹ پھینک جاتے تھے جو عام طور پر چاولوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ یہ پیکٹ ہمارے لیے کافی نہیں تھے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے بھی دور تک بھاگنا پڑتا تھا۔ کبھی تو بھوک اور بے بسی کے عالم میں ہم اور ہمارے بچے رونے لگتے تھے۔''
شاہین کو اپنی جسمانی مشکل کے باوجود کھانا بنانے اور صفائی ستھرائی سمیت تمام کام کرنا پڑتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ یہاں عورتیں کس عذاب سے گزر رہی ہیں۔ خاص طور پر حاملہ عورتوں کی زندگی ناقابل بیان حدتک مشکل ہے۔ سیلاب میں لوگوں کا روزگار اور مویشی ختم ہو گئے ہیں۔ ایسے میں خواتین کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جبکہ انہیں ڈاکٹر اور طبی امداد بھی میسر نہیں۔
ہنگامی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر کے زیراہتمام کئی شعبوں کی فوری ضروریات کے بارے میں اگست میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 64 لاکھ ہے جن میں سے پچاس فیصد خواتین ہیں۔ سیلاب کے وقت ایک لاکھ 27 ہزار 642 حاملہ خواتین میں سے تقریباً 14 ہزار 182 ایسی تھیں جن کے بچے کی پیدائش میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا۔ سیلاب میں قریباً 198 طبی مراکز کو نقصان پہنچا اور ان میں سے کئی مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ ان ہسپتالوں کے زچگی وارڈ ہی قریبی علاقوں کی حاملہ خواتین کے لیے طبی مدد کا واحد ذریعہ تھے۔
لاہور جنرل ہسپتال میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر عالیہ حیدر نے شاہین کے گاؤں اور سیلاب سے متاثرہ کئی دیگر علاقوں میں طبی کیمپ لگائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "بلوچستان میں صحت کے شعبے میں پہلے سے موجود مسائل نے سیلاب کے دوران اور اس کے بعد بدترین صورت اختیار کر لی ہے۔ میں نے وہاں ایک ہفتہ گزارا ہے۔ امدادی کیمپ میں چار گھنٹوں کے دوران ہمیں تقریباً تین ہزار مریضوں کا معائنہ کرنا پڑتا تھا جن میں بڑی تعداد حاملہ عورتوں اور بچوں کی ہوتی تھی۔''
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق جب وہ چوکی جمالی پہنچیں تو یہ دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی کہ وہاں دیہی طبی مرکز ویران پڑا تھا جس میں نہ تو علاج معالجے اور ادویات کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی انہیں وہاں کوئی ڈاکٹر دکھائی دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب نے بلوچستان میں صحت کے شعبے کی بدترین حالت اور اس میں حکومت کی ذمہ داری کو آشکار کر دیا ہے۔
فلڈ ایمرجنسی رسپانس کمیٹی برائے بلوچستان کے چیئرمین ڈاکٹر میر یوسف خان کہتے ہیں کہ کہ صوبائی اور ضلعی حکومتوں نے اس آفت کا مقابلہ کرنے کی تیاری نہیں کی تھی جو ان کی غلطی ہے تاہم وہ اپنی ٹیم کے کام کے بارے میں اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب آیا تو ان کی ٹیم کو بہت سے متاثرہ علاقوں تک فوری رسائی نہ مل سکی جس کے باعث متاثرین مدد سے محروم رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں حکومت کو ہنگامی امدادی اقدامات میں خواتین کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس مرتبہ ان کے پاس آفت زدہ علاقوں میں خواتین کو طبی امداد پہنچانے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں تھا۔
مقامی لوگوں کے مطابق چوکی جمالی میں مدت کمیونٹی نامی مقامی فلاحی تنظیم سیلاب کے دوران اس علاقے کا واحد سہارا تھی جبکہ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں سے انہیں کوئی خاص مدد نہیں مل سکی۔ حاملہ خواتین کی خراب حالت کو دیکھ کر اس تنظیم نے ہی ڈاکٹر عالیہ سے رابطہ کیا اور ان سے طبی معاونت کی درخواست کی تھی۔
اس تنظیم کے بانیوں میں شامل مریم جمالی کہتی ہیں کہ "اگست میں جب سیلاب آیا تو مقای لوگ بے آسرا ہو گئے جبکہ کسی حکومتی ادارے نے انہیں مدد نہ دی۔ ان حالات میں خواتین کی حالت بہت زیادہ خراب تھی جنہیں کئی طرح کے انفیکشن کا علاج کرانے کے لیے ڈاکٹر دستیاب نہیں تھے۔ اس صورت حال میں ہمیں لوگوں کو منت سماجت کر کے مدد کے لیے بلانا پڑا۔''
مریم جمالی کی تنظیم نے چوکی جمالی کے کیمپ میں رہنے والی تمام خواتین کا سروے کرایا جس سے سامنے آیا کہ وہاں 240 میں سے تقریباً 70 خواتین حمل کے آخری مہینوں میں تھیں۔ اس سروے کے بعد فوری طبی معاونت کی منتظر خواتین کو مدد دینے کے اقدامات کیے گئے۔
شاہین کے خیمے سے کچھ ہی دور ماسی شہزادی نامی دایہ رہتی ہیں۔ انہیں اپنی صحیح عمر کا اندازہ نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ 1967 میں آنے والے سیلاب کے وقت ان کی عمر تقریباً 20 برس تھی۔ یہ خاتون پچھلے پچیس سال سے دایہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ سیلاب کے دوران انہوں نے چوکی جمالی میں چھ بچوں کی پیدائش میں مدد دی۔ ماسی شہزادی یہاں حاملہ خواتین کا واحد سہارا ہیں۔
ماسی شہزادی کا کہنا ہے کہ وہ کئی مرتبہ سیلاب کے دوران بچوں کی پیدائش میں مدد فراہم کر چکی ہیں لیکن ہر مرتبہ سیلاب ایک نئی تباہی لاتا ہے اور اس مرتبہ آنے والے سیلاب کا پانی زہریلا ہے۔ یہیں موجود سات ماہ کی حاملہ پچیس سالہ ریما کا کہنا ہے کہ سیلاب کے ایام ان کے لیے بہت مشکل تھے اور ہر دو ہفتے کے بعد وہ اور ان جیسی دیگر خواتین ملیریا یا اس سے ملتی جلتی بیماریوں مبتلا ہو جاتی تھیں کیونکہ دن بھر بیرون خانہ کام کرتے ہوئے ان کے لیے اپنی صحت کا خیال رکھنا آسان نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں
ملازمت پیشہ حاملہ خواتین کی مجبوری: 'زچگی کے لیے بغیر تنخواہ چھٹی کرو یا نوکری چھوڑ دو'۔
ڈاکٹر عالیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے ان خواتین کو پوری طرح نظرانداز کر دیا ہے۔ سیلاب متاثرین اور ان کی امداد کے حوالے سے سرکاری رپورٹیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ انہیں تشویش ہے کہ غذائی قلت اور زچگی کے مسائل حاملہ خواتین کی صحت پر دوررس منفی اثرات مرتب کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد کھڑے پانی سے بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور حاملہ خواتین کو جراثیمی انفیکشن لاحق ہونے کا خطرہ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
شاہین کو چوکی جمالی میں واپس آئے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں لیکن وہ جس خیمے کو اپنا گھر کہتی ہیں اس کی سفید رنگت اب سیاہ ہو چکی ہے۔ انہیں خوف ہے کہ یہ سیاہ رنگ ان کے پیٹ میں پلتے بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ سیلاب کے بعد وہ ایک مرتبہ ہی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرا سکی ہیں۔ وہ گھبراہٹ میں اپنے پیٹ کو سہلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ''میں یہی امید کرتی ہوں کہ حالات مزید خراب نہ ہوں اور ہماری آئندہ زندی محفوظ ہو۔''
تاریخ اشاعت 17 دسمبر 2022