محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا: 'ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے'

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا: 'ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے'

احتشام احمد شامی

پنجاب میں گندم کی سرکاری قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باوجود بعض کسان اور آڑھتی سرکار کو گندم دینے کے بجائے اسے منڈیوں میں بیچنا چاہتے ہیں۔

رواں سال پنجاب میں گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی گئی ہے جبکہ گزشتہ سال یہ قیمت 2300 روپے فی من تھی۔ یوں گندم کی قیمت میں 1600 روپے فی من کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں کبھی یکمشت اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ سرکاری قیمت بڑھنے کے باوجود بھی سرکار کو گندم بیچنا کسانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں؟

پنجاب کے سیکرٹری خوراک محمد زمان وٹو نے کہا ہے کہ اس سال گندم کی فی ایکڑ پیداوار خراب موسمی حالات کے باوجود بہت اچھی ہے اور پچھلے سال کی نسبت فی ایکڑ اوسطاً پانچ سے دس من تک زیادہ گندم حاصل ہو رہی ہے۔ حکومت نے امدادی قیمت میں اضافہ گندم پر کسانوں کی پیداواری لاگت بڑھنے کے پیش نظر کیا ہے۔

سرکاری قیمت کے برعکس وسطی پنجاب کے متعدد اضلاع کی منڈیوں میں گندم کی قیمت 4200 روپے فی من ہے اور 300 روپے کا یہ بڑا فرق کسانوں کو منڈیوں کی طرف لے جارہا ہے۔

دوسری طرف اگر مارکیٹ کا دورہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ گندم اور اس سے بنی اشیا کی قیمتوں نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔

آج ایک کلو گندم کی قیمت 108 سے 110 روپے، آٹے کی فی کلو قیمت 135 سے 145 روپے، 15 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت دوہزار سے زیادہ اور  منڈیوں میں گندم کی فی من قیمت 4200 روپے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ روٹی 20 روپے اور نان 30 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

گندم کی قیمت میں اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت اجناس کا کاروبار دوسرے کاموں کی نسبت زیادہ منافع بخش بن چکا ہے اور آنے والے مہینوں میں گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر گوہر عباس کا کہنا ہے کہ  گندم کی قیمتوں میں اضافے اور ذخیرہ اندوزی کا فلور ملوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

<p>رواں سال بھی پاکستان کو  45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا رہے گا<br></p>

رواں سال بھی پاکستان کو  45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا رہے گا

انہوں نے کہا کہ گندم کی بڑی مقدار غیر قانونی طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے جو موقع پاکر وہیں سے افغانستان سمگل کردی جاتی ہے۔

"جب مارکیٹ میں آٹے کی قلت ہو تو ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لاکر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے"۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال ملک کی 24 کروڑ سے زیادہ آبادی کے لیے ساڑھے تین کروڑ میٹرک ٹن سے زیادہ گندم درکار ہو گی جبکہ گندم کی پیداوار کا تخمینہ دو کروڑ 80 لاکھ میٹرک ٹن کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح رواں سال بھی پاکستان کو  45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا رہے گا۔

گوجرانوالا کے زمیندار لطیف رندھاوا کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں آڑھتی یا مڈل مین ہی اصل فائدہ اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فصل کی تیاری کے مرحلے میں ہی آڑھتیوں نے بہت سے کسانوں سے ان کی فصل کا سودا کرلیا تھا اور انہیں بیج، کھاد، ڈیزل اور زرعی ادویات وغیرہ کی مد میں پیشگی بھاری رقوم تھما دی تھیں۔

"ایسے میں کسان مجبور ہیں کہ اپنی فصل اسی آڑھتی کو دیں گے جس کے ساتھ انہوں نے فصل کا سودا کر رکھا ہے اور اس سے پیسے بھی وصول کر لئے ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ آڑھتیوں کو اندازہ تھا کہ اس سال بھی گندم کے ریٹ بڑھیں گے کیونکہ گزشتہ دو تین سال سے اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں تیز رہیں اور رواں سال منافعے کی شرح بھی گزشتہ سالوں سے زیادہ ہو گی۔

"اب یہی آڑھتی گندم کو گوداموں میں ذخیرہ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب گندم بیچی تو منافع سیکڑوں روپے میں ہو گا جبکہ چند ماہ روک کر سال کے آخری مہینوں میں بیچنے سے فی من ہزاروں روپے نفع ہو گا۔''

لطیف کہتے ہیں کہ زیادہ منافعے کا لالچ ہی نجی گوداموں کو بھر رہا ہے اور سرکاری گوداموں میں گزشتہ سالوں جتنی گندم دیکھنے کو نہیں مل رہی۔

<p>پیشگی رقم لینے کی وجہ سے کسان آڑھتی کو گندم بیچنے پر مجبور ہے<br></p>

پیشگی رقم لینے کی وجہ سے کسان آڑھتی کو گندم بیچنے پر مجبور ہے

پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال گندم کی خریداری کے ہدف میں 15 لاکھ ٹن کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور اب حکومت 50 کے بجائے 65 لاکھ ٹن گندم خریدے گی۔

نوشہرہ ورکاں کے کاشتکار محمد افضل گجر کو منڈیوں میں گندم کی قیمتیں کم یا زیادہ ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ دس ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں جو انہیں والد کی وراثت میں سے ملی تھی اور وہ خود کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
افضل گجر اپنی فصل ایک آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آڑھتی ان کی مجبوری بن چکے ہیں۔

"اگر آڑھتی نہ ہوں تو ہمارے لیے کھیتی باڑی کرنا مشکل ہو جائے۔ بیج،کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتیں ایک سال میں 70 سے 100 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ ڈیزل اور بجلی کے ریٹ بھی بڑھے  ہیں۔ کھیتی باڑی اب سستی نہیں رہی۔ کسان کہاں سے نقد پیسے لائے؟"

انہوں نے بتایا کہ وہ فصل کی نصف قیمت تین اقساط میں آڑھتی سے وصول کر کے فصل پر ہی خرچ کرچکے ہیں۔ باقی نصف قیمت کٹائی ہونے اور گندم کی سپلائی پر ادا کی جائے گی۔

"آڑھتی چاہے تو سرکار کو 3900 روپے من کے ریٹ پر گندم بیچے اور چاہے تو منڈیوں میں 4200 روپے من پر فروخت کرے۔ اس نے بھی تو کچھ نہ کچھ منافع کمانا ہے ناں؟"

شرافت علی گجر نوشہرہ ورکاں میں 22 ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔ وہ محکمہ خوراک کو ہی گندم فروخت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی آڑھتیوں نے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے سب کو ناں کردی ہے۔

"سرکار اور آڑھتی کے درمیان فرق کچھ زیادہ فرق نہیں۔ صرف ایڈوانس کا چکر ہے جس میں ہمارے کسان بھائی پھنس جاتے ہیں اور اپنی حق حلال کی کمائی گندم کو کم قیمت پر آڑھتیوں کو بیچ دیتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اس سال آڑھتیوں نے بہت سے کسانوں سے 3300 سے 3500 روپے فی من کے حساب سے گندم خریدی اور انہیں ایڈوانس رقم ادا کرکے سٹامپ پیپر لکھوا لیے۔ اب یہ کسان آڑھتیوں کو گندم دینے پر مجبور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گندم کی نئی فصل سندھ کو ایک نئے غذائی بحران کے دہانے پر لے آئی ہے؟ سات اہم باتیں

کسان پیشگی رقم لے چکا ہے اور اگر آڑھتی اس گندم کو دو چار ماہ بعد بیچے گا تو ایک ہزار سے بارہ سو روپے فی من منافع کمائے گا۔ اتنا منافع گندم کو اگانے والا کسان نہیں کما رہا جتنا یہ مڈل مین اپنے گھر لے جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ اس میں قصور صوبائی حکومت کا بھی ہے۔ اگر وہ دسمبر یا جنوری میں گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کردے تو ہوسکتا ہے کہ کسان، آڑھتی کے جھانسے میں نہ آئے اور اپنی گندم کا کم قیمت پر سودا نہ کرے۔

شرافت بتاتے ہیں کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کچھ ہفتے پہلے کیا ہے جب گندم کی کٹائی شروع ہونے والی تھی۔

''ہم منافع کیوں نہ کمائیں''

قلعہ دیدار سنگھ کے آڑھتی رانا وہاب کا کہنا ہے کہ آڑھتی دراصل سرمایہ دار ہیں جو اجناس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انہیں مڈل مین کہہ کر یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ مجرم ہوں۔

"اگر ہم غریب کاشتکاروں کو ایڈوانس نہ دیں تو وہ فصلیں ہی کاشت نہ کر پائیں۔ پھر انہیں گندم اور مونجی کے بجائے عام سبزیاں اگانا پڑیں گی جس سے نہ تو ان کو آمدنی ہو گی اور نہ ہی حکومت کے اہداف پورے ہوں گے"۔

وہ کہتے ہیں کہ آڑھت ایک ملک گیر نظام ہے۔ منافع حاصل کرنا ہر سرمایہ دار کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ صنعتکار اور تاجر کسی منافعے کے بغیر کاروبار نہیں کرتے تو ہم ایسا کیوں کریں؟

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو تین سال میں نومبر سے مارچ تک گندم مہنگی قیمت پر فروخت ہوئی۔ اس لیے جو آڑھتی رقم کو چھ آٹھ ماہ تک روکے رکھنے کی مالی استطاعت رکھتا ہے وہ اس سال بھی زیادہ منافع کمائے گا۔

تاریخ اشاعت 20 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.