پنجاب کے جنگلوں میں رہنے والا اڑیال بے ضرر سا جانور ہے لیکن پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان کی تعداد بڑھانے کے لیے ہر سال ان کا شکار ضروری ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف سمیت پنجاب کے جنگلی حیات کے محکمے نے اس سال بھی اڑیال کے شکار کی ا جازت دے دی ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف نے اڑیال کی "ٹرافی ہنٹنگ" یعنی شکار کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے پنجاب حکومت کو اڑیال ٹرافی ہنٹنگ کے 16 پرمٹ جاری کرنے کا کوٹہ دیا گیا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کی ریزرو پرائس 21 ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔ یکم فروری سے 31 مارچ تک ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہوگی دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے شیڈول کا اعلان تاخیر سے ہونے کی وجہ سے ٹرافی ہنٹنگ سیزن کے پہلے تین ماہ ضائع ہو گئے ہیں۔
ٹرافی ہنٹنگ کے لئے ملکی اور غیرملکی شکاریوں، آؤٹ فٹرز کو پنجاب وائلڈ لائف سے خصوصی پرمٹ حاصل کرنا ہوگا۔ پنجاب وائلڈ لائف ٹرافی ہنٹنگ کے 16 پرمٹس کی نیلامی 18 جنوری کو لاہور میں کرے گی۔ نیلامی کے لئے ایک اڑیال کی ریزرو پرائس 21 ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔ نیلامی میں حصہ لینے والے شکاریوں کو پانچ ہزار امریکی ڈالر بطور سیکیورٹی جبکہ 800 امریکی ڈالر شوٹنگ لائسنس فیس جمع کروانا ہوں گے۔
اڑیال کہاں رہتے ہیں؟
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اڑیال پاکستان میں پائے جانے والے لمبے سینگوں والے بکرے کی ایک قسم ہے۔ یہ پہاڑی بکرے اڑیال، جس کو ارکارس یا شاپو بھی کہتے ہیں ان کی پاکستان میں مجموعی طورپر چھ اقسام ہیں، اڑیال ان میں سے ایک ہے۔
اڑیال سالٹ رینج اور چٹا کالا رینج کی پہاڑیوں پر پایا جاتا ہے تاہم اس کے علاوہ یہ پنجاب کے دو آبہ کے علاقے میں بھی دیکھا گیا ہے۔
یہ ایک خاکی رنگ کا بکرا ہے جس کا نچلا دھڑ سفید اور ان دونوں کو جدا کرتی ایک سیاہ پٹی ہوتی ہے- اس کے سینگ تمام عمر بڑھتے رہتے ہیں اور جس بکرے کے جتنے بڑے سینگ ہوں اس کی عمر اتنی ہی بڑی ہوگی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں، بڑھتی ہوئی آبادی، جنگلات میں کمی، غیرقانونی شکار نے پنجاب میں اڑیال کی آبادی کو نقصان پہنچایا ہے۔
ٹرافی ہنٹنگ کیوں کروائی جاتی ہے؟
ماہر جنگلات و جنگلی حیات و سابق چیئرمین ٹاسک فورس برائے وائلڈ لائف پنجاب بدر منیر کہتے ہیں پنجاب وائلڈ کی طرف سے ہر سال عمر رسیدہ پہاڑی بکروں کی ٹرافی ہنٹنگ کروائی جاتی ہے۔ ہنٹنگ ٹرافی میں ایسے جانور آفر کیے جاتے ہیں جن کی طبی عمر پوری ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اڑیال کی اوسط عمر 12 سے 13 سال ہوتی ہے۔ اس عمر کے جانور کا اگر شکار نہ کیا جائے تو وہ خود مر جائے گا جبکہ بوڑھے اڑیال افزئش کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں، یہ خود افزائش کے قابل نہیں رہتے جبکہ نوجوان اڑیال کو مادہ کے قریب نہیں جانے دیتے جس کی وجہ سے ان کی بریڈنگ رک جاتی ہے۔
" ٹرافی ہنٹنگ میں ایک جانور اپنی جان دے کر100 دوسرے جانوروں کی جان بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے"۔
مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ شکاری جوان اور بوڑھے اڑیال میں تفریق کیسے کریں گے؟
ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی آمدن کہاں جاتی ہے؟
ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونیوالی آمدن کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی بیسیڈ آرگنائزیشن (سی بی او) کو دیا جاتا تھا جو یہ رقم اپنے علاقے میں جنگلی حیات کے تحفظ سمیت مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود پرخرچ کرتی ہیں۔ سال 2022ء تک پنجاب میں پانچ سی بی اوز رجسٹرڈ تھیں جنہیں ختم کر دیا گیا اور اب انہیں کمیونٹی بیسیڈ کنزروینسی (سی بی سی ) کا نام دیا گیا ہے۔ سال 2022ء تک ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونیوالی آمدن کا 80 فیصد مقامی سی بی اوز کو دیا جاتا تھا۔ جس سی بی او کے علاقے میں جتنی ٹرافیاں ہنٹ کی جاتی تھیں، اس کے مطابق اس سی بی او کو معاوضہ دیا جاتا تھا۔تاہم 2023ء میں سی بی اوز ختم ہونے کی وجہ سے ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی رقم ابھی تک پنجاب وائلڈلائف کے پاس موجود ہے۔
پنجاب میں اڑیال اور تیتر کے مساکن کو مدنظر رکھتے ہوئے 20 زون مقرر کئے گئے ہیں اور ہر زون میں ایک سی بی سی کو رجسٹرڈ کیا جائے گا تاہم ابھی تک پنجاب میں کوئی بھی سی بی سی رجسٹرڈ نہیں کی جا سکی ہے۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کی قیمت 12 ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی ہے تاہم پنجاب وائلڈلائف نے ریزرو پرائس 21 ہزار امریکی ڈالر مقرر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سیزن یعنی سال 2022-23ء میں ٹرافی ہنٹنگ کی ریزرو پرائس 25 ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی تھی لیکن نیلامی 20 ہزار پانچ ڈالر میں کی گئی تھی۔
پنجاب وائلڈلائف حکام کا کہنا ہے ٹرافی ہنٹنگ اشتہار میں ریزور پرائس غلطی سے 25 ہزار ڈالر لکھی گئی تھی۔
حکام کے مطابق محکمے نے 25 ہزار ڈالر پر نیلامی کروانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی بھی شکاری اور آؤٹ فٹر نے دلچسپی ظاہر نہ کی جس کے بعد ڈائریکٹر جنرل پنجاب وائلڈ لائف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ریزرو پرائس 20 ہزار امریکی ڈالر کر دی جبکہ 20 ہزار پانچ ڈالر میں پرمٹ جاری کئے گئے۔
پنجاب وائلڈ لائف حکام کے مطابق 2019-20ء میں ریزرو پرائس 18ہزار امریکی ڈالر تھی جس میں 2022-23ء میں طباعت کی غلطی سے سات ہزار ڈالرکا اضافہ ہو گیا لیکن اصل میں یہ اضافہ دو ہزار امریکی ڈالر تھا۔
پنجاب وائلڈلائف کو گزشتہ 10 سال سے ٹرافی ہنٹنگ کے 16 پرمٹ نیلام کرنے کا کوٹہ دیا جا رہا ہے۔ سال 2018ء میں 16 پرمٹ نیلام ہوئے جس سے محکمے کو دو لاکھ 80 ہزار امریکی ڈالر آمدن ہوئی، سال 2019ء میں کورونا وبا کی وجہ سے ٹرافی ہنٹنگ نہیں ہوسکی تھی۔ 2020ء میں بھی 16 پرمٹ نیلام ہوئے اور محکمے کو دولاکھ 88 ہزار ڈالر حاصل ہوئے۔ 2021ء میں بھی یہ رقم دولاکھ 96 ہزار امریکی اور 2022ء میں بھی 16 پرمٹوں کی نیلامی سے محکمے کو تین لاکھ، 20 ہزار ڈالر حاصل ہوئے تھے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے سابق ڈائریکٹر اور ماہر جنگلی حیات غضنفر علی لنگاہ کہتے ہیں پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے ٹرافی ہنٹنگ کا اعلان کافی تاخیر سےکیا گیا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن عموما نومبر سے شروع ہو جاتا ہے اور 31 مارچ تک رہتا ہے لیکن پنجاب وائلڈ لائف کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے سیزن کے پہلے تین ماہ ضائع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ میں زیادہ تر وہی غیرملکی شکاری اور آؤٹ فٹر حصہ لیتے ہیں جو مارخور کی ٹرافی ہنٹ کرنے آتے ہیں۔ غیرملکی شکاری ٹرافی ہنٹنگ کے لیے بہترین آپشن ہوتے ہیں لیکن ٹرافی ہنٹنگ شیڈول میں تاخیر کی وجہ سے یہ موقع ضائع ہو گیا ہے، انہیں توقع نہیں ہے کہ اس سیزن میں تمام 16 پرمٹ نیلام ہو سکیں گے۔
دوسری طرف پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ جنید کہتے ہیں اس وقت چونکہ پنجاب میں کوئی بھی سی بی سی رجسٹرڈ نہیں ہے اس لئے ٹرافی ہنٹنگ کا کوٹہ کسی سی بی سی کو نہیں دیا جائے گا۔ تاہم محکمے کی طرف سے ایک سمری وزیر اعلی پنجاب کو منظوری کے لئےبھیجی گئی ہے جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونیوالی رقم کا 80 فیصد مقامی ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کو دیا جائے جو اپنے علاقے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور ڈیویلپمنٹ پر یہ رقم خرچ کرے گی۔
یہ رقم اس علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو دی جائے گی جس علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق اس مرتبہ شکار کے پرمٹوں کی نیلامی سے اس مرتبہ پنجاب وائلڈ لائف کو ممکنہ طور پر تین لاکھ چار ہزار ڈالر کی آمدن ہو گی۔
خواجہ جنید نے یہ بھی واضح کیا کہ ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت صرف اسی کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی میں دی جائے گی جو اجازت نامے میں درج ہو گی۔ شکاری اور آؤٹ فٹر نیلامی کے لئے درخواست میں ٹرافیوں کی تعداد کا حوالہ دیں گے۔ پرمٹ حاصل کرنے والے شکاریوں کو اپنے مقررہ علاقے میں سات دن کے اندر شکار کرنا ہو گا جبکہ اڑیال کے علاوہ کسی دوسرے جنگلی جانور کےشکار کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔
پنجاب میں اڑیال کی آبادی کتنی ہے؟
پنجاب وائلڈ لائف ریسرچ سنٹر گٹ والا کی ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹر مصباح سرور کے مطابق 2004ء میں کئے گئے ایک سروے میں پنجاب اڑیال کی تعدادکا تخمینہ صرف ساڑھے 400 لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد جب 2018ء میں ایک سروے کیا گیا تو اس میں اڑیال کی تعداد تین ہزار 700 کے قریب تھی، سال 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار 757 تک جا پہنچی اور اب 2023ء کے سروے میں اڑیال کی آبادی کا تخمینہ چھ ہزار 891 لگایا گیا تھا۔
ڈاکٹر مصباح کے مطابق سال 2023ء میں ایریا میں تبدیلی اور نئے علاقے شامل کرنے کی وجہ سے پنجاب اڑیال کی تعداد زیادہ ہوئی ہے۔
پنجاب اڑیال کے 2022ء کی سروے رپورٹ کے مطابق سالٹ رینج چکوال میں اڑیال کی آبادی کا تخمینہ 1871، جہلم میں 1894، کالاباغ رینج میں 1726 اور خوشاب میں 266 لگایا گیا تھا جبکہ 2023ء کے سروے رپورٹ کے مطابق چکوال میں اڑیال کی آبادی کا تخمینہ 2102، جہلم میں 1702، میانوالی میں 2050، تلہ گنگ میں 83 اور خوشاب میں 954 لگایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
درختوں پر طوطے، مینا، نیل کنٹھ اور فاختاؤں کی جگہ چیلوں اور کووں کا بسیرا، لاہور کے خوبصورت پرندے کہاں گئے؟
تاہم جنگلی حیات کے تحفظ اور ویلفیئر کے لئے کام کرنے والی این جی اوز ان اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتیں ہیں۔
جنگی حیات کے کارکنوں کا کہنا ہے بے تحاشا شکار کی وجہ سے اڑیال کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن محکمہ غلط اعداد و شمار کے ذریعے تعداد زیادہ ظاہر کرتا ہے۔
اگر پنجاب اڑیال کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا ہے تو وزارت موسمیاتی کی تبدیلی کی طرف سے ٹرافی پرمٹ کا کوٹہ کیوں نہیں بڑھایا گیا؟ دس سال پہلے جب اڑیال کی تعداد ایک،ڈیڑھ ہزار تھی اس وقت بھی کوٹہ 16 تھا اور آج جب یہ تعداد 6 ہزار سے بڑھ چکی ہے تو پھر بھی کوٹہ 16 ہی ہے؟
جنگلی حیات کے شکار پر پابندی کا مطالبہ
مشن اوئیرنس فاؤنڈیشن (ایم اے ایف) کے سربراہ فہد ملک کہتے ہیں جنگلی حیات کے قانونی اورغیرقانونی ہر قسم کے شکار پرپابندی ہونی چاہئے۔ وائلڈ لائف حکام کی اس پالیسی نے جنگلی حیات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے کہ قانونی شکار، غیرقانونی شکار میں کمی لا سکتا ہے۔ ماضی میں شکار خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے آج جنگلی حیات کا شکار کرنا ایک کھیل بنا دیا گیا ہے۔
"اگر کسی کو جنگلی حیات کے شکار کا اس قدر شوق ہے اور یہ اتنا ہی اہم ہے تو جس طرح گوشت کے حصول کے لیے بھیڑ بکریاں اور مرغیاں پالی جاتی ہیں، اسی طرح ہرنوں اور اڑیالوں کے لیے بریڈنگ فارم بنا دیے جائیں اور وہاں سے پھر جانور کسی مخصوص علاقے میں چھوڑ کر ان کا شکار کر لیا جائے"۔
نیشنل الائنس فار اینیمل رائٹس ایکٹویسٹ اینڈ ایڈووکیٹس (نعرہ) کی ترجمان عنیزہ خان عمر زئی بھی سمجھتی ہیں کہ جنگلی حیات کو گن کی بجائے کیمرے شوٹ کرنے کے رحجان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کا کام جنگلی حیات کا تحفظ ہے ناکہ اس کے شکار کی اجازت دینا۔ "محکمہ اگر قانون کے مطابق شکار کی اجازت دیتا بھی ہے تو کیا محکمے کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ وہ یہ چیک کر سکے کہ جن ایس اوپیز کے تحت شکار کی اجازت دی گئی ان پر عمل کیا جا رہا ہے؟"
وہ کہتی ہیں پنجاب وائلڈ لائف والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس فیلڈ سٹاف کی کمی ہے۔
"صرف شوق اور دکھاوے کے لیے جنگلی حیات کے بے دریغ شکار کو اسی صورت روکا جا سکتا ہے جب اس کے شکار پر مکمل پابندی کی جائےگی۔
عنیزہ خان کے مطابق شکار کے پرمٹ اور لائسنس جاری کرنے میں چونکہ محکمے کی عملے کی جیبیں گرم ہوتی ہیں اس لیے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ شکار پر مکمل پابندی لگائی جائے یا پھر ٹرافی ہنٹنگ کے لئے طے شدہ ایس اوپیزپر پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔
تاریخ اشاعت 20 جنوری 2024