آواران میں کوے، گدھ اور چیل جیسے گوشت خور پرندے کہاں غائب ہو گئے؟

postImg

شبیر رخشانی

postImg

آواران میں کوے، گدھ اور چیل جیسے گوشت خور پرندے کہاں غائب ہو گئے؟

شبیر رخشانی

پچپن سالہ لال بخش ضلع آواران کے علاقے سستگان جاھو کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تین روز قبل وہ اپنے ساتھی الٰہی بخش کے ساتھ اونٹ پر مزری اٹھانے جارہے تھے۔

"راستے میں کوے کی آواز سنائی دی جو ہم دونوں نے سنی لیکن کوا کہیں نظر نہیں آیا۔ اگلے روز میرا اونٹ بیمار ہوا علاج معالجے کرایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اونٹ مر گیا۔"

لال بخش کے خیال میں کوے کی آوازہی ان کے اونٹ کی ہلاکت کا باعث بنی۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ مردہ اونٹ دو دن سے وہیں پڑا ہے مگر نہ تو کوئی کوا وہاں منڈلاتا نظر آیا اور نہ ہی کوئی گوشت خور پرندہ جانور کا گوشت کھانے آیا۔

مختلف جانور اور پرندوں کے حوالے سے کئی لوگوں میں توہمات پائے جاتے ہیں۔ کوا شاید وہ واحد پرندہ ہے جس سے صرف برصغیر، بلکہ جاپان سے لے کربرطانیہ اور امریکا تک میں کئی شگون اور کہانیاں (میتھالوجیز) منسوب ہیں۔

بھارت میں لوگ کوے کو'روحوں کا قاصد' سمجھتے ہیں جبکہ ہندودھرم میں اسے عقلمندی کی علامت (کاکا بھوشندی یا کوا دیوتا) قرار دیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں کوے کی 'کائیں کائیں' کو بد قسمتی اور مصیبت کا شگون مانا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں کچھ لوگ اسے مہمان کی آمد کی نوید تو بعض 'نحوست'خیال کرتے ہیں۔

فوک کہانیوں کا حصہ ہونے سے اندازہ ہو تا ہے کہ کوے کی کوئی نہ کوئی قسم دنیا کے بیشتر خطوں میں پائی جاتی تھی مگر بدقسمتی سے یہ پرندہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کچھ علاقوں میں میں ناپید ہو گیا ہے۔

بلوچستان میں کبھی کوئی باضابطہ 'پرندہ شماری' تو نہیں ہوئی تاہم لگتا ہے آواران میں صرف کوا ہی نہیں گدھ، چیل اور شکرے بھی علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔

چونسٹھ سالہ بہرام واجہ باغ بازار میں دو دہائیوں سے قصاب کا کام ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کوے، چیل ہمیشہ ان کی دکان کے ارد گرد منڈلاتے نظر آتے تھے۔ جونہی جانور ذبح ہوتا تھا ان پرندوں کا جمگھٹا لگ جاتا تھا۔

"کچھ سالوں سے یہ پرندے غائب ہو گئے ہیں اب کئی کئی روز آلائشیں پڑی رہتی ہیں مگر کوئی پرندہ انہیں کھانے نہیں آتا۔"

آواران کی تحصیل جاھو کی پہاڑیاں گدھ کی مصری نسل(مقامی نام گوتو ) کا مسکن ہوا کرتی تھیں۔ اگر کہیں کوئی جانور مر جاتا تو پل بھر ہی بڑی تعداد میں گدھ وہاں جمع ہوجاتے۔ ان کی دیکھا دیکھی کوے چیلیں بھی اپنا حصہ بٹورنے پہنچ جاتے تھے۔

دمب جاھو کے رہائشی گہرام بتاتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے یہاں ایک بڑی جسامت والا گدھ(گریفن ) دیکھا تھا مگر اب گدھ تو کیا چیل بھی کہیں نہیں ہے۔

"کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک گائے مری تو اسے دفن کرنے کے بجائے کسی نے ندی میں پھینک دیا۔ گوشت کی سڑاند سے ہر طرف تعفن پھیلا رہا مگر کوئی جانور یا پرندہ اس کے قریب بھی نہیں آیا۔ پہلے جب گدھ، چیل کوے ہوتے تھے تو مردہ سڑنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔"

کوّا، چیل اور گدھ کیوں ضروری ہیں؟

 ماحولیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ کوے ماحولیاتی نظام اور انسانوں کو کئی فائدے پہنچاتے ہیں۔ یہ ٹڈیاں پتنگے جیسے کیڑوں کو کھا کر ان کی آبادی کنٹرول کرنے میں مدد اور مردار کو صاف کرتے ہیں جس سے بیماریوں کا پھیلاؤ کم ہوتا ہے۔

"جنگل  میں چیلوں کی موجودگی ہی اس بات کی علامت ہے کہ جنگل صحت مند ہے۔ جبکہ چیل کے کئی ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔"

گدھ کو تو 'فطرت کا خاکروب' کہا جاتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے  میں شائع ہونے والی امریکن اکنامک ریویو کی تحقیق بتاتی ہے کہ مردہ جانور سڑنے سے زہریلے کیمیکلز اور گیسیں پیدا ہوتی ہیں جن سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ گدھ ان مردہ جانوروں کو کھا کر ماحول صاف کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جہاں جہاں یہ پرندے (گِدھ) ختم ہوئے وہاں مہلک بیکٹیریا پھیلنے کے واقعات سامنے آئے اور پچھلے پانچ سال کے دوران انفیکشن سے، ہر سال پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔

 یہ رپورٹ خاص طور پر انڈیا کے حوالے سے تھی جہاں تحقیق کاروں کا اندازہ ہے کہ 2000ء اور 2005ءکے درمیان گِدھوں کی تعداد میں کمی سے قبل از وقت اموات کے باعث معاشی اخراجات کی مد میں سالانہ 69 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کا کہنا ہے کہ دنیا میں گدھ کی نسلیں تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

تاہم پاکستان میں 2019 ء کے اعدادوشمار کے مطابق  تھر میں 450 پرندے پائے گئے تھے جبکہ کچھ تعداد کیر تھر نیشنل پارک اور گورکھ ہلز(ضلع دادو) میں بھی پائی گئی۔

وائلڈ لائف ریسرچر سلمان بلوچ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں کوے کی دو اقسام پائی جاتی ہیں جن میں کامن ریون(عام کوا) اور براؤن نک ریون (کالی گردن والا) شامل ہیں۔ جاھو میں کامن ریون پایا جاتا ہے مگر اس کی افزائش میں کمی آ ئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق  عام کوے کی ایشیا، شمالی افریقا، شمالی امریکا اور یورپ میں آبادی تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ بتائی ہے مگر آواران میں ایک بھی دکھائی نہیں دیتا۔

کوے، گِدھ کی طرح چیل ( شکاری پرندہ) بھی آواران میں کثیر تعداد میں تھا جو تازہ شکار(چوزے اس کی مرغوب غذا ہیں) کے ساتھ مردہ جانور کی صفائی میں بھی کردار ادا کرتا تھا۔ یہ پرندہ بھی کئی سال سے جاھو میں نظر نہیں آرہا حالانکہ دنیا میں اس پرندے کی آبادی 60 لاکھ کے قریب ہے۔

آخر یہ شکاری پرندے کہاں گئے؟

بشام گوٹھ جاھو کے رہائشی جمال اس کی وجہ یوں بتاتے ہیں کہ جاھو میں بڑے بڑے جنگل ان پرندوں کے لیے مسکن ہوا کرتے تھے اور لوگوں کا پیشہ گلہ بانی تھا۔ درختوں اور گلہ بانی سے گوشت خور پرندوں کو تحفظ و خوراک مل جاتی تھی۔

"تاہم لوگوں نے گلہ بانی چھوڑ کر زراعت شروع کر دی اور جنگلوں کو کاٹ کر زرعی اراضی میں بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرندے اپنی بقا کے لیے نقل مکانی کر گئے ہیں۔"

سلمان بلوچ کہتے ہیں کہ کوے کو اپنا گھونسلا بنانے کے لیے مسکن نہیں مل رہا۔ جب وہ کمزور مقام پر انڈے دیتے ہیں تو گھونسلا اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور انڈے یا بچے مر جاتے ہیں۔

تاہم چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف بلوچستان شریف الدین بلوچ جانوروں کی ویکسینیشن کو گوشت خور پرندوں کی اموات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

"تحقیقی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ ان پرندوں کی ہلاکتیں اُن جانوروں کا گوشت کھانے سے ہوئی ہے جنہیں ویکسین لگائی گئی تھی۔ ایسے جانوروں کا گوشت کھانے کی وجہ سے ان کے گردے فیل ہوگئے اور وہ مر گئے۔"

شریف الدین کے موقف کو نیشنل جیو گرافک کی ایک رپورٹ سے تقویت ملتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا میں، 1990 کی دہائی سے گدھوں کی آبادی میں 99 فیصد سے زیادہ کمی ہوگئی تھی۔ تحقیقات کے بعد گِدھوں کی موت کی ذمہ دار  پالتو جانوروں کو دی جانے والی دوا ڈیکلو فینک کو قرار دیا گیا تھا۔

یہ دوا جانوروں میں سوزش کو زائل کرتی ہے لیکن گِدھوں نے جب ایسے جانوروں کو گوشت  کھایا جنہیں مرنے کے بعد کھلے میں پھینک دیا گیا تھا تو ان کے گردے فیل ہو گئے۔

اس دوا سے گوشت خور پرندوں کی ہلاکتیں ایک طرف مردار کھانے سے جہاں ماحول کے مسائل سامنے آئے مردار کھانے سے کتوں میں ریبیز اور دیگر بیماریاں بھی دیکھنے میں آئی جن کا براہ راست نقصان انسانوں کو ہوا۔

انڈیا اور بنگلہ دیش دونوں نے بالترتیب 2006ء اور 2010ءمیں ڈیکلو فینک کے ویٹرنری استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ان ملکوں نے گِھدوں کی افزائش کے انتظامات کیے ہیں جس سے ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

جاھو میں ڈیکلو فینک انجکشن کا استعمال مویشی کے بجائے انسانوں میں عام ہے۔ ڈاکٹر نہ ہونے کے سبب یہاں کے عطائی جوڑوں کے درد یہاں تک کہ بخار کی صورت میں ڈیکلو فینک انجکشن کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

وٹرنری آفیسر جاھو محمد اشرف کہتے ہیں کہ یہاں مویشیوں کے علاج کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

درختوں پر طوطے، مینا، نیل کنٹھ اور فاختاؤں کی جگہ چیلوں اور کووں کا بسیرا، لاہور کے خوبصورت پرندے کہاں گئے؟

"مارچ 2023ء میں میری تعیناتی ہوئی تو یہاں جانوروں کے علاج کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ میں نے ڈیری فارم ہاؤس جاھو میں جانوروں کا ایک مفت ہیلتھ سنٹر قائم کیا مگر لوگ اس جانب متوجہ نہیں ہوئے اور مجھے یہ سینٹر بند کرانا پڑا۔"

وہ کہتے ہیں کہ یہاں جانوروں کا علاج معالجے کا دستور نہیں۔ اس لیے ان کے خیال میں یہاں ڈیکلو فینک کا جانوروں میں استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔

تاہم آواران کے رہائشی کاشت کار خادم حسین یہاں گوشت خور پرندوں کی ہلاکت کا ذمہ دار 'کتے مار مہم' کو سمجھتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ چند سال قبل لوگوں نے آواران میں کتے مارنے کے لیے گوشت کو خطرناک زہر لگا کتوں کو ڈالنا شروع کر دیا۔ مرنے والے کتوں کی لاشیں کھلے میں پڑی رہیں۔ انہیں جس گوشت خور پرندے نے کھایا وہ مر گیا۔

ماہر ماحولیات عبدالرحیم بلوچ کا ماننا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان پرندوں کا جونقصان ہوا اس کے ازالے کے لیے پرندوں کے مسکن اور خوراک کے نظام کو بحال کرنا ہوگا۔

"سب سے اہم مسئلہ آگہی نہ ہونا ہے۔ عام آدمی کو خبر ہی نہیں کہ قدرت کے نظام میں توازن کے لیے گدھ، کوے یا شکرے وغیرہ کا ہونا کتنا ضروری ہے؟سکولوں، مدارس، اور کمیونٹی میں آگاہی کے لیے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات سمیت ملکی و بین الاقوامی اداروں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔"

چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف بلوچستان کہتے ہیں کہ اتنے بڑے صوبے کے لیے محکمے کے پاس افرادی قوت بہت کم ہے۔ وائلڈ لائف پہلے محکمہ جنگلات کا حصہ تھا جس کو تین سال قبل الگ کیا گیا ہے۔

"رواں سال کچھ بھرتیاں ہوئی ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ ان پرندوں اور جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں جو معدومی کا شکار ہو رہے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 9 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.