موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

postImg

سید زاہد جان

postImg

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

سید زاہد جان

ڈیڑھ ماہ قبل سوشل میڈیا پر اچانک ضلع اپر دیر میں گلیشیر پگھلنے (گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ) سے ممکنہ سیلاب کی باتیں شروع ہو گئیں۔ مقامی لوگ ان اطلاعات پر پریشان تھے۔ اسی اثنا میں اسسٹنٹ کمشنر شرینگل نے وادی کمراٹ کے ہوٹل مالکان کے نام ایک پبلک ںوٹس جاری کر دیا۔

"لاسپور جھیل کے آس پاس گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے پانی بڑھ رہا ہے اور جھیل پھٹنے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا ہدایت کی جاتی ہے کہ دریائے پنجکوڑہ کے قریب رہائش پذیر لوگ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے احتیاظی تدابیر اختیار کریں۔"

یہ نوٹس پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈپٹی کمشنر اپر دیر کو لکھے گئے خط کے نتیجے میں جاری کیا گیا تھا اور خط کی کاپی کمشنر مالاکنڈ، این ڈی ایم اے سمیت متعلقہ حکام و محکموں کو بھی بھیجی گئی تھیں۔

وادی کمراٹ، کلکوٹ اور ارد گرد کے لوگوں کو شکایت ہے کہ انتظامیہ نے نوٹس تو جاری کر دیے مگر حکام نے جھیل کا جائزہ لیا نہ ہی کوئی عملی اقدام کیا۔

خیبر پختونخوا کے ضلعے اپر دیر کی مغربی اور شمالی مغربی حدود صوبے کے آخری ضلع چترال سے ملتی ہیں جہاں کوہ ہندوکش کی بلندو بالا برف پوش چوٹیاں اور لواری پاس دونوں کو جدا کرتی ہیں۔

اس ضلعے کے مشرق میں سوات، جنوب میں لوئر دیر اور باجوڑ واقع ہیں۔ مغرب اور جنوب مغرب میں اپر دیر کا علاقہ افغان بارڈر سے جا ملتا ہے۔

اپر دیر بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح موسمیاتی تبدیلوں کے شدید اثرات کی زد میں ہے۔ اس ضلعے میں جہاں میدانی علاقوں میں کئی فٹ برف پڑتی تھی وہاں اب پوری سردیوں میں چند انچ سے زیادہ برفباری نہیں ہوتی۔

کئی سال سے یہاں پہاڑوں کا موسم بھی میدانی علاقوں کی طرح گرم ہونے لگا ہے۔ یہاں جنگلوں میں آگ بھڑکنے کا کوئی تصور نہیں تھا مگر اب ایسے واقعات بارہا دیکھے گئے ہیں۔

عالمی بینک بھی خطے میں حدت بڑھنے کی تصدیق کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 20ویں صدی کے دوران پاکستان میں گرمی بڑھنے کا اندازہ 0.57 سینٹی گریڈ تھا تاہم اس میں تیزی آچکی ہے۔ 1961ء سے2007ءکے درمیان حدت میں اضافہ0.47 درجے سنٹی گریڈ رہا۔

"گرمی، سردیوں اور بارشوں کے بعد کے مہینوں( نومبر- فروری) کی طرف زیادہ بڑھ رہی ہے۔ علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا کے شمال میں گرمی 0.52 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھی۔"

اسی رپورٹ کے مطابق برکلے ارتھ ڈیٹا کہتا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں حدت بہت زیادہ رہی ہے۔ اسلام آباد کے قرب و جوار میں درجہ حرارت کراچی کے گردونواح کی نسبت 0.9 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

ایسی ہی گرمی میں دیر بالا کے پہاڑوں پر گلشئیر تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریائے پنجکوڑہ وادی کے ساتھ زیریں میدانوں میں بھی تباہی مچا دیتا ہے۔ ضلعے کے یہ علاقے تین چار سال سے مسلسل سیلاب کی زد میں آرہے ہیں۔

دیر بالا، سوات اور چترال کی مٹتی ابھرتی برفانی جھیلیں

رواں سال مارچ میں عالمی ویب سائٹ 'سائنس ڈائریکٹ' پر ایک تحقیق  شائع ہوئی۔ اس تحقیق کا مقصد موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں برفانی جھیلوں کے پھٹنے (گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ) سے سیلاب کے ممکنہ خطرات کی چھان بین کرنا تھا۔

سیٹیلائٹ امیجز اور ٹیلی ڈیٹا کی مدد سے کی جانے والی یہ تحقیق بتاتی ہے کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران کوہ ہندوکش کے مشرقی ریجن(سوات، چترال اور دیربالا) میں برفانی جھیلوں کی تعداد اور رقبے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

یہاں 2000ء میں برفانی جھیلوں کی تعداد 101 تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 162 ہو گئی۔ ان جھیلوں کا مجموعی رقبہ 9.72 مربع کلومیٹر تھا جو 20 برس کے دوران بڑھ کر 12.36 مربع کلومیٹر ہو گیا، یعنی گلیشیئرز پگھل گئے۔

ان برسوں کے دوران مشرقی ہندوکش ریجن میں 79 نئی برفانی جھیلیں نمودار ہوئی ہیں جبکہ 16 برفانی جھیلیں غائب ہوگئیں جن میں سے سات چترال، تین سوات اور چھ دیر بالا میں تھیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اس ریجن کی کل 162برفانی جھیلوں میں سے 31 کی شناخت ممکنہ خطرناک (آؤٹ برسٹ ہونے کے خطرے دوچار ) جھیلوں کے طور پر کی گئی جن میں سے چھ چترال، 16 سوات اور نو ضلع اپر دیر میں واقع ہیں۔

دیربالا میں ممکنہ خطرہ کس برفانی جھیل سے ہے

دیر شہر (ضلعی صدر مقام) سے سیاحتی مقام وادی کمراٹ جائیں تو شہر سے نکلتے ہی چھ کلومیڑ پر دریائے بنجکوڑہ دکھائی دیتا ہے جو شمال میں تھل ٹاؤن اور کمراٹ تک تقریباً 100 کلومیٹر سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

ضلع اپر دیر کی دو تحصیلوں شرینگل اور کلکوٹ کی دو لاکھ گیارہ ہزار آبادی اسی دریائے پنجکوڑہ کے ارد گرد (اس علاقے کو دیرکوہستان بھی کہا جاتا ہے) رہتی ہے۔

 اس دریا میں جب بھی طغیانی آتی ہے کمراٹ، تھل، مکرالہ، کلکوٹ، سیرئی، بریکوٹ، بیاڑ، شرینگل سمیت دیرکوہستان اور نیچے کی آبادیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ 2022ء کے بعد سے یہاں ہر سال سیلاب آ رہا ہے۔

رواں سال 30 اگست کو جب سیلاب آیا تو مقامی لوگوں کے ایک گروپ نے گلیشیئرز پر جا کر جھیلوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ انتظامیہ کو حالات سے آگا کیا جا سکے۔

 نوجوانوں کے اس گروپ میں رحیم اللہ کوہستانی، جمعہ فقیر و دیگر شامل تھے جو مشکل پہاڑی اور برفانی راستے طے کر کے گلیشیئر تک پہنچے تھے۔

ان نوجوانوں کی گلشئیر پگھلنے اور جھیلوں میں ممکنہ شگاف (آؤٹ برسٹ) کی ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یہاں لوگوں میں شدید بے چینی پھیل گئی اور انتظامیہ نے بھی معاملے کا نوٹس لیا۔

 تھل کے رہائشی رحیم اللہ کوہستانی بتاتے ہیں کہ تھل ٹاؤن سے 20 کلومیٹر آگے کمراٹ کے پوانٹ 'دوجنگا ' تک گاڑیاں جاتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 26 ستمبر 2024ء کو دوجنگا سے روانہ ہوئے اور چھوٹے گلیشیئر یعنی شہزور جھیل تک کا 10 کلومیٹر فاصلہ چار گھنٹے میں طے کیا۔

" عام لوگ شہزور جھیل ہی کو دریائے پنجکوڑہ کا منبع سمجھتے ہیں لیکن اصل میں دریا دو کلو میٹر اوپر تھلو کے مقام پر بڑےگلیشیئر کی جھیلوں سے شروع ہوتا ہے۔ برف کی یہ چوٹی 12ہزار فٹ بلند ہے جو بظاہر پہاڑی نظر آتی ہے مگر یہ جمی ہوئی برف ہے جس پر مٹی کی تہہ جم چکی ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ اس بڑے گلیشیئرکے شمالی طرف لاسپور جھیل ہے جس کا پانی چترال کو جاتا ہے۔ جنوب میں اوپر جھیل تھلو ٹو اور اس کے ساتھ نیچے تھلو ون(سرکاری میپنگ کے مطابق) واقع ہے۔ یہیں سے دریائے پنجکوڑہ میں پانی آتا ہے جہاں پہنچنے میں انہیں پانچ گھنٹے لگے۔

رحیم اللہ کوہستانی کہتے ہیں کہ بڑے بڑے گلیشئیرز کو دیکھ کر اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اصل حالات جاننے کے لیے وہاں جانا ضروری تھا۔

"لاسپور جھیل یا زگی چھٹ سے دیر کوہستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ تھلو ون سے جو پانی پنجکوڑہ میں آ رہا ہے اس کے ساتھ بڑا گلیشیئر موجود ہے۔ خدانخواستہ گرمی یا بجلی گرنے سے یہ گلشئیر پھٹ گیا تو بلاکج ہو سکتی ہے اور رکاوٹ ٹوٹنے پر جب تیزی سے پانی آتا ہے تو نیچے حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔"

انہوں نے دیکھا کہ تھلو ٹو جھیل کا پانی تھلو ون میں گر رہا ہے جس کے راستے میں 15/20 فٹ کا برفانی تودہ رکاٹ بن رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس تودے کو ہٹانا ضروری ہے تاکہ جھیل مزید کسی شگاف سے بچ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اب سردیاں تقریباً شروع ہو چکی ہیں تو اب تازہ برفباری اور پانی جم جانے کا امکان ہے۔ اسی لیے انہیں نہیں لگتا کہ فوری طور پر کوئی نقصان ہوگا۔ تاہم آنے والے موسم گرما میں کیا ہو؟ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

پی ڈی ایم اے نے خطرے کو کہاں دیکھا

ڈپٹی کمشنر اپر دیر نوید اکبر نے  لوک سجاگ کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جھیل پھٹنے کی افواہوں کے بعد انہوں نے اولین فرصت میں تحصیل انتظامیہ اور آفیشل پیج کے ذریعے عوام کو احتیاط برتنے کی فوری ہدایات جاری کرائیں تاکہ زیادہ نقصان نہ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پی ڈی ایم اے کو ایک مراسلہ بھی لکھا جس کی روشنی میں صوبائی اتھارٹی نے اپنے ڈائریکٹر کی سربراہی میں متعلقہ علاقے میں اپنی ٹیم بھیجی۔ اس ٹیم نے مقامی افراد کے ساتھ ملاقات کی اور معلومات حاصل کیں۔

"تھلو کا مقام کافی اوپر ہے جہاں ٹیم اور آلات کو پہنچانا ہیلی کاپٹرکے بغیر ممکن نہیں۔ میری معلومات کے مطابق سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب اس ٹیم کے ارکان نے بھی مقامی افراد سے جھیلوں اور گلیشئر کی معلومات لی ہیں۔"

رحیم کوہستانی تصدیق کرتے ہیں کہ تھل آنے والے پی ڈی ایم اے حکام نے تھلو کا جائزہ لینے والے نوجوانوں سے ہی تفصیلات معلوم کی تھیں۔

 "ہم نے گلیشیئر اور جھیلوں پر جودیکھا، محسوس کیا اور ویڈیوز بنائے تھے وہ سب پی ڈی ایم اے ماہرین کے ساتھ شیئر کیے۔"

جمعہ فقیر جن کی کوہستانی زبان میں تبصرے کے ساتھ گلیشیئر کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی ان کا خیال ہے کہ آسمانی بجلی گرنے سے پہاڑ یا گلیشیئر کا ایک بڑا حصہ سرک گیا ہے۔ حکومتی ماہرین کواس کا خود جائزہ لےکر خطرے کا تدارک کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟

چیرمین تحصیل کلکوٹ ضیاالرحمٰن شکوہ کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم اے حکام تھل کے لوگوں کے ساتھ فوٹو سیشن کرکے چلے گئے۔

"خدا نہ کرے کہ جھیلوں کو کوئی نقصان ہو ورنہ پہلے بھی سیلاب سے تحصیل کلکوٹ اور شرینگل کی پوری آبادی متاثر ہوئی تھی۔"

ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے سید نواب اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے ادارے کی ٹیم میں شامل ماہرین نے کمراٹ کے لوگوں سے آنکھوں دیکھا حال سنا اور ان سے تفصیلات معلوم کی ہیں۔

"ہم نے تمام ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا جن سے لگتا ہے کہ تھلو ٹو سے تھلو ون میں پانی کے بہاؤ میں مسائل جھیل کے آؤٹ برسٹ ہونے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تاہم اب سردیوں میں کم ٹمپریچر اور گلیشیئر جمنے سے فوری نقصان کا امکان نہیں ہے مگر آئندہ گرمیوں سے قبل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ جھیلوں کی مزید اسیسمنٹ کے لیے جیالوجسٹس، گلیشیئر ماہرین، واپڈا اور ایریگیشن انجینئرز پر مبنی ٹیم جانی چاہیے جو موقعے کا جائزہ لے کر صورت حال کو کنٹرول کرے۔

"ہم نے اپنی رپورٹ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اٹھارٹی (این ڈی ایم اے) کو بھیج دی ہے تاکہ وہ متعلقہ محکموں کی وساطت سے آئندہ اقدامات کرے۔"

شرینگل اپردیر میں قائم شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر اور چیئرمین انوائرمینٹل ڈیپارٹمنٹ جمعہ محمد بتاتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ یہاں گلیشیئرز پگھلنے کی اہم وجہ ہے مگر اس کے اور محرکات بھی موجود ہیں۔

 "گلیشئرز ان پہاڑوں پر صدیوں سے پڑے ہیں جن میں مٹی اور ریت مسسلسل مکس ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے کچھ اندازہ نہیں کہ ان کی گہرائی یا اصل حجم کتنا ہوگا؟ پہاڑوں سے درختوں کی کٹائی بھی گلیشیئرز کے لیے شدید خطرہ ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ پہاڑوں میں کچھ ایسے پودے ہنگامی بنیادوں پر لگائے جا سکتے ہیں جو کٹاو اور پہاڑ کو سرکنے سے کسی حد تک روکتے ہیں۔ متعلقہ ادارے چاہیں تو درخت لگانے اور تکنیکی اقدامات سے ڈیمج کنٹرول (نقصان سے بچاؤ) ہو سکتا ہے۔

"لیکن ہم اس وقت جاگتے ہیں جب آوٹ برسٹ کا خطرہ سر پر ہو جبکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہر سال پہلے ہی جھیلوں کا فزیکل معائنہ کر لینا چاہیے ۔"

وادی کمراٹ میں اندون و بیرون ملک سے سیاحت کے لیے سالانہ لاکھوں لوگ آتے ہیں جن کے قیام و طعام کے لیے یہاں سیکڑوں چھوٹے بڑے ہوٹل و ریسٹورنٹس آباد ہیں اور ان پر ہزاروں افراد کے روزگار کا انحصار ہے۔

 پہاڑوں پر زیادہ بارشوں یا گرمی میں گلیشیئر پگھلنے کے بعد دریائے پنجکوڑہ میں ہر سال سیلاب آتا ہے جو کمراٹ سے چکدرہ تک تقریباً 190کلومیٹر کے علاقے میں دونوں اطراف تباہی پھیلا دیتا ہے۔

کمراٹ کے ایک مقامی شخص جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کہتے ہیں کہ جو سرکاری افسران شہزور جھیل تک نہیں گئے اور یہیں سے معلومات لیتے رہے وہ غریب لوگوں کے لیے خطرات کا تدارک کیسے کریں گے؟

"سیلاب نے ایک بار پھر تباہی مچائی تو ان سرکاری لوگوں کا کیا بگڑے گا؟ نقصان تو ہمارا ہو گا۔ حکومت ہم پر رحم کرے اور اس معاملےکی مکمل جانچ کرکے ہمیں اصل حالات آگاہ کر ے۔"

تاریخ اشاعت 7 نومبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.