تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

postImg

اشفاق لغاری

postImg

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

اشفاق لغاری

تھرپارکر میں کوئلہ نکالنے اور کول پاور پلانٹ چلانے والی سندھ اینگرو کول کمپنی کو عالمی ادارے الائنس فار واٹر سٹیورڈشپ (اے ڈبلیو ایس) نے چار ماہ قبل گولڈ سرٹیفکیشن سے نوازا ہے۔ یہ ایوارڈ کمپنی کو پانی کے ذمہ دارانہ استعمال اور اس کی پائیدار انتظام کاری پر دیا گیا ہے۔

کمپنی اے ڈبلیو ایس سرٹیفکیشن کو اپنی "ماحول دوست" کارکردگی کی سند کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ تاہم اہل علاقہ خاص طور پر گوڑانو گاؤں، دھکڑچو اور ارد گرد کے باسی اس ایوارڈ پر حیرت زدہ ہیں جو کوئلے کی کانوں کا گندہ پانی ٹیلوں میں چھوڑنے کے خلاف شروع ہی سے احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ گوڑانو اور دھکڑچو کے جوہڑ نما تالابوں (مصنوعی جھیلیں) نے علاقے میں تباہی مچا رکھی ہے جس سے ناقابل تلافی ماحولیاتی و معاشی نقصان ہو رہا ہے۔

اب نو سال بعد سندھ حکومت نے ناصرف ان لوگوں کا معاوضے کے بقایا جات کی ادائیگی کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے بلکہ گوڑانو میں کانوں کے آلودہ پانی کی نکاسی مکمل طور پر روکنے کا اعلان بھی کیا ہے جو تھر باسیوں کے موقف کی تائید ہے۔

صوبائی وزیر توانائی و پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ سید ناصر حسین شاہ نے چند روز قبل (جمعہ 8 اگست) کو رکن قومی اسمبلی مہیش ملانی کے ساتھ کول بلاک ٹو اور گوڑانو کا دورہ کیا۔

بعدازاں اسلام کوٹ میں کھلی کچہری سے خطاب کے دوران انہوں نے بتایا کہ کمپنی انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ گوڑانو ڈیم میں تھر کول کے پانی کی نکاسی تین/ چار ماہ میں مکمل طور پر روک دی جائے گی۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کوئلے کی کانوں سے نکلنے والے اس آلودہ پانی کو اب کہاں پھینکا جائے گا۔

یہ کسی آزاد ادارے کی طرف سے ایوارڈ نہیں

سندھ اینگرو کول کمپنی نے لوک سجاگ کو تحریری جوابات میں بتایا ہے کہ کمپنی نے الائنس فار واٹر سٹیوارڈشپ (اے ڈبلیو ایس) کی باضابطہ رجسٹریشن حاصل کی اور سرٹیفکیشن کے لیے درخواست دی تھی۔

اس عالمی تنظیم کی آڈٹ ٹیم نے گزشتہ اکتوبر میں سائٹ کا دورہ کیا تھا اور رواں سال 14 مئی کو کمپنی کو تین سال کے لیے گولڈ کیٹیگری میں سرٹیفکیشن دی گئی۔

کمپنی کے بقول اے ڈبلیو ایس سرٹیفکیشن کے تقاضوں میں گڈ واٹر گورننس، پانی کا پائیدار توازن، اچھی واٹر کوالٹی اور سب کے لیے محفوظ پانی، صفائی اور حفظانِ صحت شامل ہیں۔

آبی ماہر اور محقق ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ سندھ اینگرو کول جیسی بڑی کمپنیاں آئی یو سی این جیسے اداروں سے اپنے حق میں رپورٹس لکھواتی ہیں اور اپنی درخواست پر پانی کی بہتر انتظام کاری کے ایوارڈ بھی لے لیتی ہیں۔ یہ کسی آزاد ادارے کی طرف سے ایوارڈ نہیں ہے۔

"تھر میں مقامی آبی وسائل کی آلودگی اور پانی کی قلت عوامی صحت کا سنگین مسئلہ بن چکے ہیں اور یہ بات میں کول منصوبے سے متعلق اپنی رپورٹ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔"
گوڑانو کے رہائشی بھیم راج بھی ایوارڈ کو فرمائشی قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ کمپنی جھیلوں کا پانی ان دنوں میں ٹیسٹ کراتی ہے جب بارشوں کا سیزن میں پانی کی ہیئت بدل چکی ہوتی ہے۔ وہ رپورٹس بھی مقامی لوگوں کے سامنے نہیں آتیں۔

"گوڑانو اور دھکڑچو کے جوہڑوں میں سوکھے درخت، ویرانی، مقامی لوگوں کا احتجاج اور عدالتوں میں دائر کیسز بھی کول کمپنی کے لیے ایک 'سرٹیفکیشن' ہیں۔ لیکن عالمی ادارے (اے ڈبلیو ایس) نے ان ساری چیزوں کو شاید نہیں دیکھا اور ناں ہی ہم سے رابطہ کیا۔"

گوڑانو جھیل پر موت کے سایے

دسمبر 2018ء میں انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے ماہرین نے گوڑانو کا دورہ کیا۔ 2019ء میں ان کی رپورٹ سامنے آئی جس میں اس جھیل کو مہمان پرندوں کا نیا مسکن قرار دیا گیا۔ سندھ اینگرو نے اس رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر بھی لگایا۔

تاہم ماحولیات پر کام کرنے والے ادارے زی زیک کی رپورٹ  بتاتی ہے کہ اب یہاں مہمان پرندے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ تقریباً 500 ایکڑ رقبے پر مشتمل اس جھیل کی زد میں آنے والے تمام درخت، پودے اور جڑی بوٹیاں پہلے ہی مر چکی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق کانوں سے جھیل میں جانے والے پانی میں نمکیات (ٹی ڈی ایس) کی مقدار تین ہزار پی پی ایم (پارٹس پر ملین) کے قریب ہے لیکن بخارات بننے سے جھیل میں ٹی ڈی ایس کی مقدار بڑھ رہی ہے۔

"ہماری ٹیم نے مارچ 2019ء سے فروری 2024ء تک گورانو کے تین دورے کیے۔ اس دوران جھیل میں آنے والے پانی میں ٹی ڈی ایس کی مقدار تو ایک جیسی رہی مگر پہلے سے موجود پانی میں یہ بڑھ کر پانچ ہزار پی پی ایم سے تجاوز کر گئی۔"

واضح رہے کہ پینے کے لیے پانی کا ٹی ڈی ایس کسی صورت ایک ہزار سے اوپر نہیں ہونا چاہیے۔

جھیل میں 2019 ء میں جب ٹی ڈی ایس تقریباً تین ہزار تھا تو یہاں پرندے دیکھے گئے لیکن 2023ء اور 2024ء میں دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔ گاؤں کے کنویں بھی کھارے ہو چکے ہیں۔

یہ رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ ڈیم کے اردگرد لوگوں کی صحت، صفائی، مویشی بانی، زراعت وغیرہ سب متاثر ہو رہے ہیں۔ مویشیوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ نہ تو ان کے لیے یہاں پانی بچا ہے اور ناں ہی چراگاہ۔

گوڑانو جھیل پانی میں بڑھتے نمکیات (سیلینیٹی) کے باعث موت کی علامت بنتی جا رہی ہے۔

زیر زمین پانی کا قدرتی نظام تباہ ہو رہا ہے؟

اوپن پٹ یا اوپن کٹ کول مائننگ  ایسا طریقہ کار ہے جس میں کوئلہ نکالنے کے لیے وسیع کھدائی کر کے کھلی کان (سٹیڈیم نما پٹ) بنائی جاتی ہے۔ یہ طریقہ ان علاقوں میں اپنایا جاتا ہے جہاں کوئلے کی تہیں سطح زمین کے قریب ہیں جس سے کم لاگت اور تھوڑے وقت میں زیادہ کوئلہ نکالنا آسان ہوتا ہے۔

چینی ماہرین بتاتے ہیں کہ کوئلے کی کان کنی سے زمینی ماحولیاتی نظام، زیرِ زمین پانی کی بحالی (ری چارج)، بہاؤ اور نکاسی آب کا قدرتی عمل بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے صرف زیرزمین آبی ذخائر (ایکویفائرز) کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ پانی کا معیار اور مقدار بھی بدل جاتی ہے۔

کوئلہ چونکہ ایکویفائرز کے درمیان ہوتا ہے اس لیے جب اسے نکالا جاتا تو زمین میں دراڑیں اور شگاف پڑتے ہیں، زمین دھنسنے لگتی ہے۔ اوپر والے ایکویفائرز کا پانی کان میں بہنے لگتا ہے اور پھر کان کو خشک رکھنے کے لیے اس پانی اور مڈ کو پمپس لگا کر نکالنا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کوئلہ نکالے جانے سے خالی ہونے والی جگہیں (گوفس)، راستے اور کنویں زیرِ زمین پانی (ایکویفائرز) کے قدرتی چکر کو تباہ کر دیتے ہیں۔

اس عمل سے ناصرف زیرِ زمین پانی کے ذخائر ختم اور کنویں خشک ہو جاتے ہیں بلکہ پانی نیچے چونے کی تہوں میں جذب ہو جاتا ہے جس سے گہرے آبی ذخائر بھی آلودہ ہو جاتے ہیں۔

 نتیجتاً فراہمی آب کے مقامی نظام کے ساتھ زمین کی زرخیزی و پیداواری صلاحیت متاثر اور نباتات ختم ہونے لگتی ہیں۔

 آبادیوں کے قریب درجنوں کنویں خشک ہو چکے ہیں

ضلع تھرپارکر میں نو ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے کول فیلڈ کو 14 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں ابھی صرف دو بلاکس سے کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔

کول بلاک ون لگ بھگ 122 مربع کلومیٹر علاقے پر مشتمل ہے جس کو ایک چینی کمپنی نے ڈیویلپ کیا ہے اور وہی یہاں سے کوئلہ نکال رہی ہے۔

بلاک ٹو میں تحصیل اسلام کوٹ کا تقریباً 95 مربع کلومیٹر علاقہ آتا ہے۔ یہاں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کام کر رہی ہے جو سندھ حکومت اور نجی کمپنی کا جائنٹ ونچر ہے۔

تھر میں اوپن کٹ مائننگ کے ذریعے کوئلہ نکالا جا رہا ہے جس میں کانوں سے بڑے پیمانے پر آلودہ پانی اور گاد (مڈ) بھی باہر نکالنا پڑتا ہے۔ اس سے قریبی علاقوں میں پانی کی سطح گر جاتی ہے اور جہاں کانوں کا آلودہ پانی پھینکا جاتا ہے وہاں سیلینیٹی، سیم تھور کے سنگین مسانل جنم لیتے ہیں۔

یونیورسٹی آف سڈنی (آسٹریلیا) کے محقق پال ون نے تھرکول فیلڈ سے نکاسی کے ممکنہ اثرات سے متعلق اپنی رپورٹ 2020ء میں جاری کی تھی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ تیس سال بعد مائننگ کے علاقے میں پانی کی شدید کمی ہو جائے گی اور یہ سلسلہ مغرب و شمال میں دور تک پھیل جائے گا۔ لاکھوں باشندے زیر زمین پانی سے محروم ہو سکتے ہیں یا انہیں زیادہ گہرےکنویں کھودنا پڑیں گے۔

یہ پیش گوئی سات آٹھ سال میں ہی درست ثابت ہوئی اور مائنز کے قریب آبادیوں میں درجنوں کنویں خشک ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف 2016ء میں بلاک ٹو کے فضلے اور نکاسی کے لیے کانوں سے 35 کلومیٹر دور گوڑانو گاؤں میں ذخیرہ (ریزروائر یا مصنوعی جھیل) بنایا گیا جسے 'گوڑانو ڈیم' بھی کہا جاتا ہے۔

 'آبی انتظام کاری' نہیں، ماحولیاتی تحفظ بھی ضروری ہے

ماہرین سمجھتے ہیں کہ کوئلہ نکالنے کے لیے محض نکاسی کا بندوبست کافی نہیں، ماحولیاتی تحفظ بھی آبی انتظام کاری (کول مائن واٹر منیجمنٹ) کا اہم حصہ ہے۔ جامع آبی انتظام کاری  میں کم از کم تین ذیلی نظام شامل ہونے چاہیئیں جن میں کان سے پانی کی نکاسی، پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی تحفظ کا نظام شامل ہیں۔

یعنی کانوں اور ان سے متصل علاقوں میں زیر زمین پانی (دوران آپریشن اور کانیں بند ہونے کے بعد) گھریلو، صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے قابل استعمال رہنا چاہیے۔

چینی محققین  کا کہنا ہے کہ کانوں سے نکالا جانے والا پانی یا فضلہ بغیر صفائی (ٹریٹمنٹ) چھوڑ دیا جائے تو یہ زمین کے اوپر اور نیچے والے پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔ کوئلے کے فضلے سے زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں جو قریبی آبی ذخائر، مٹی اور رہائشی علاقوں میں انسانی صحت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

وہ اس آلودگی پر قابو پانے کے دو فعال طریقے تجویز کرتے ہیں جن میں سے ایک اکٹیویٹڈ کاربن ہے جو زیادہ مہنگا نہیں اور سیوریج کی صفائی کے لیے بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئلے کے گندے پانی کی ٹریٹمنٹ ہے۔

ماہرین کے خیال میں حیاتیاتی ٹیکنالوجی کا استعمال مؤثر طریقہ ہے جو آلودہ پانی سے بدبو اور زہریلے مادوں کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ناں صرف تیزی سے آلودگی ختم کرتی ہے بلکہ پانی دوبارہ قابل استعمال بھی ہو جاتا ہے۔

تیسرا حل مصنوعی جھیل (جیسا کہ گوڑانو ڈیم) بنانا ہے تاہم ماہرین اسے ایک غیر فعال طریقہ قرار دیتے ہیں۔

سماجی اثرات کا کبھی جائزہ ہی نہیں لیا گیا

گوڑانو اور دھکڑچو(ایک اور گاؤں) جھیلوں کے پوسٹ مائننگ (بعد از کان کنی) سماجی اثرات بھی نہایت تشویش ناک ہوں گے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق اگر کانیں جھیل میں نمکین پانی کا اخراج بند کر دیں تب بھی پانی سوکھنے کے بعد جھیلوں کا علاقہ نمک زار (سالٹ پین) میں بدل جائے گا۔

سطح زمین پر نباتات نہ ہونے کے باعث ہوائیں ان نمکیات کو فضا میں پھیلائیں گی جن سے لوگوں میں سانس اور بینائی کے مسائل پیدا ہوں گے۔ جھیلوں کے قریب آباد لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گا۔

زک زیک کے مطابق سندھ اینگرو کول کی آپریشنل ٹیم سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے گوڑانو جھیل اور نواح کے لیے بعد از کان کنی اثرات کا کوئی تجزیہ کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ایسی کوئی ماڈلنگ یا سٹڈی (جائزہ) نہیں کی گئی۔

الائنس فار واٹر سٹیورڈشپ (AWS) کی ویب سائٹ  کے یہ ادارہ 2009ء میں پانی کے درپیش عالمی چیلنج کے جواب میں اقوام متحدہ، بین الاقوامی این جی اوز سمیت پانی کی سرکردہ تنظیموں کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔

 یہ ادارہ جانچ پڑتال کے بعد کمپینوں/سائٹس کو پانی کے بہتر انتظام پر تین درجوں پر مشتمل سرٹیفکیشن جاری کرتا ہے جن میں کور، گولڈ اور پلانٹیم (اعلیٰ ترین) کیٹیگری شامل ہیں۔

جمعہ کو گوڑانو ڈیم میں مزید آلودہ پانی نہ ڈالنے کے حکومتی اعلان پر صوبائی وزیر کی کھلی کچہری میں موجود تھر کے ایک باسی کا کہنا تھا کہ کانوں سے نکاسی تو ہوگی، پتا نہیں اب یہ بلا (مصیبت) کس کے گلے پڑنے والی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔

طویل احتجاج اور عدالتی جنگ

گوڑانو ڈیم بنانے کے خلاف مقامی لوگ ناصرف برسوں سے احتجاج کر رہے ہیں بلکہ عدالتوں سے بھی رجوع کر رکھا ہے جن کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
درجنوں پٹیشنرز میں سے ایک دھارو میگھواڑ تھرکول منصوبے کے منفی اثرات کے خلاف 2016ء سے مسلسل احتجاج میں شامل رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کول مائننگ سے پہلے گوڑانو کے سیکڑوں خاندان یہاں موجود 27 کنووں ہی کا پانی پیتے تھے لیکن اب یہ تمام کنویں اتنے زہریلے (کھارے) ہو چکے ہیں کہ یہ پانی استعمال کے قابل نہیں رہا۔

اس منصوبے کے ماحولیاتی ودیگر مسائل پر گاؤں کے رہائشیوں نے سندھ ہائیکورٹ حیدرآباد سرکٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی جسے بعد ازاں مرکزی بنچ میں کراچی منتقل کر دیا گیا۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ نے 10 مئی 2023ء کو اپنے فیصلے میں ان کا موقف تسلیم نہیں کیا جس کو انہوں نے سپریم کورٹ میں جیلنج کر رکھا ہے۔

دھارو کے مطابق عدالت عالیہ نے فیصلے میں جن دستاویزات اور رپورٹس پر انحصار کیا وہ 'مینیجڈ' تھیں اور ان میں سے کوئی بھی کانوں کے پانی کی تباہ کاریوں سے متعلق نہیں تھی۔

پٹیشن میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ایڈووکیٹ لیلا رام کا کہنا ہے کہ نکاسی و فضلے کے بدبو دار جوہڑ (گوڑانو ڈیم ) سے علاقے کی زرعی اراضی، زیر زمین پانی اور ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ تاہم کمپنی ان الزامات کو رد کرتی رہی ہے۔

ایسی ہی ایک اور آئینی درخواست گزشتہ سال ہائیکورٹ کے میرپور خاص سرکٹ میں دائر کی گئی تھی جس کو عدالت نے اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ پٹیشنر گوڑانو سائٹ کے براہ راست متاثر نہیں ہیں۔

تاریخ اشاعت 28 اگست 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.