سونا اگلتی زمین، آم اور کیلے کے باغات کے لیے مشہور ٹنڈو الہیار 2005ء میں ضلع بنا مگر اس سے بہت پہلے یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ چلا آ رہا ہے۔ شہید بینظیر بھٹو بھی 1997ء میں یہاں سے الیکشن جیتی تھیں۔
آٹھ فروری کو اس ضلع میں ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ 51 ہزار 632 ہے جن میں سے دو لاکھ 309 ہزار 910 اور دو لاکھ 11 ہزار 722 خاتون ووٹرز ہیں۔
ضلع ٹنڈو الہیار کی واحد قومی نشست این اے 217 ہے جہاں گذشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ذوالفقار ستار بچانی نے جی ڈی اے کے محسن مگسی کو شکست دی تھی۔ اس مرتبہ بھی یہاں سے پی پی کے ذوالفقار بچانی اور جی ڈی اے کی ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی، پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ روزینہ بھٹو و دیگر امیدوار ہیں۔
چمبڑ کے سابق ناظم صالح محمد میمن بتاتے ہیں کہ ٹنڈو الہیار کا بچانی خاندان، شاہ پور رضوی کے سید، بکیرا شریف کے کھوکھر اور پتافی سردار کئی عشروں سے سیاست میں سرگرم چلے آ رہے ہیں جبکہ شہر میں قائمخانی اور خانزادہ برادریوں کا سب سے زیادہ ووٹ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عبدالستار بچانی 1977ء میں پہلی بار پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں پہنچے لیکن وہ انتخابات ملک میں مارشل لا لگنے کے باعث کالعدم قرار دے دیے گئے تھے۔ تاہم وہ 1988ء میں دوبارہ منتخب ہو کر صوبائی وزیر بنے تھے۔
لیکن مشرف دور میں گریجوایشن کی شرط کے بعد ستار بچانی کی اہلیہ شمشاد ستار یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتی رہیں اور پچھلی بار ان کے بیٹے ذوالفقار ستار منتخب ہوئے تھے جو اب بھی امیدوار ہیں۔
ٹنڈوالہیار کی نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 224 ٹنڈوالہیار اب این اے 217 ٹنڈوالہیار ہے
ضلع ٹنڈوالہیار کا قومی اسمبلی کا ایک ہی حلقہ ہے اور اس میں ضلع کی مکمل آبادی شامل ہے۔ اس حلقے میں بھی کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 60 ٹنڈوالہیار 1 اب پی ایس 58 ٹنڈوالہیار 1 ہے
ٹنڈوالہیار کا یہ حلقہ جھنڈو مری تعلقہ اور ٹنڈواللہ یار تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں معمولی تبدیلی کی گئی ہے۔ 2023ء کی حالیہ حلقہ بندیوں کے مطابق اس حلقہ میں جھنڈو ماڑی تعلقے کی ہالیپوتانی اور توسیعی ہالیپوتانی ٹپے دار سرکل کو اس میں شامل کیا گیا ہے تاہم ٹنڈو اللہ یار تعلقے کی ٹنڈواللہ یار ٹپے دار سرکل کو اس حلقے سے نکال دیا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 61 ٹنڈوالہیار 2 اب پی ایس 59 ٹنڈوالہیار 2 ہے
یہ حلقہ پورے چمبر تعلقہ، جھنڈوماڑی تعلقے اور ٹنڈوالہیار تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں معمولی تبدیلی کی گئی ہے۔ 2023ء کی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے سے جھنڈو مری تعلقے کی ہالیپوتانی اور توسیعی ہالیپوتانی ٹپے دار سرکل کو اس حلقے سے نکالا ہے۔ جبکہ ٹنڈوالہیار تعلقے کی ٹنڈوالہیار ٹپے دار سرکل کو اس حلقے میں شامل کیا ہے۔
اس قومی حلقے کے نیچے دو صوبائی نشستیں ہیں۔ ان میں سے پی ایس 58 تحصیل ٹنڈوالہیار اور جھنڈو مری پر مشتمل ہے جہاں سے پچھلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ضیا عباس شاہ کامیاب ہوئے تھے جبکہ پی ٹی آئی کے علی پلھ رنر اپ تھے۔
اب کی بار پی پی کے ضیا عباس شاہ کا جی ڈی اے کی راحیلہ گل مگسی سے مقابلہ ہو گا۔ جے یو آئی اور ایم کیو ایم کے امیدوار یہاں سے راحیلہ مگسی کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے علی پلھ کراچی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
صالح میمن کے مطابق رضوی خاندان کے سید بھورل شاہ بھی 1977ء میں پی پی رکن صوبائی اسمبلی اور ان کے بڑے بیٹے امید علی شاہ رکن قومی اسمبلی بنے تھے ۔ بعد ازاں امید علی شاہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی علی نواز شاہ اور پھر ان کے بیٹے ضیا عباس رکن صوبائی اسمبلی بنتے آ رہے ہیں۔
حیدر آباد کے صحافی آفتاب احمد بتاتے ہیں کہ راحیلہ مگسی یہاں کے معروف بلڈر حاجی اللہ بخش مگسی کی بیٹی ہیں جو پرویز مشرف دور میں ق لیگ سے ٹنڈوالہیار کی پہلی ضلع ناظم بنی تھیں۔ بعد ازاں ن لیگ نے انہیں 2015ء میں سینیٹر منتخب کرایا لیکن بعد ازاں وہ قانون سازی میں پارٹی سے انحراف کرتی رہیں اور پارٹی سے الگ ہو گئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اب راحیلہ مگسی جی ڈی اے کا حصہ ہیں اور یہاں قومی اور ایک صوبائی دو نشست سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ جبکہ ان کے بھائی عرفان گل مگسی بھی مختلف پارٹیوں میں رہے ہیں اور صوبائی وزیر بھی بنے۔ اس خاندان کے حامیوں کا ایک حلقہ بھی ٹنڈو الہیار میں موجود ہے۔
پی ایس 59 میں زیادہ تر تحصیل چمبڑ کے علاقے شامل ہے جہاں سے 2018ء میں پیپلزپارٹی کے امداد پتافی نے جی ڈی اے کے حاجی خیر محمد کھوکھر کو ہراہا تھا۔
اب کی بار یہاں پیپلزپارٹی کے امداد پتافی اور جی ڈے اے کے محسن مگسی جو راحیلہ مگسی کے بیٹے ہیں کے درمیان میچ پڑے گا۔ یہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اسلم لغاری اور تحریک لبیک کے محمد جہانگیر بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جی ڈی اے کے سابق ٹکٹ ہولڈر خیر محمد کھوکھر اب پی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔
ٹنڈوالہیار ٹاؤن کمیٹی کے ممبر جبران علی بتاتے ہیں کہ سردار خیر محمد کھوکھر علاقے کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ایک ہیں اور کھوکھر برادری انہیں اپنا سربراہ مانتی ہے۔ انہوں نے پچھلی بار پی پی کے مقابلے میں 37 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ شہر کی اردو بولنے والی قائم خانی اور خانزادہ برادری ان کے ساتھ ہے جس کا پیپلز پارٹی کو بہت فائدہ ہو گا۔
ٹنڈوالہیار کی تحصیل مسن وڈی کے سماجی رہنما راجیش کمار بتاتے ہیں چمبڑ، جھنڈو مری اور ٹنڈو شھر میں اقلیتی برادری کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے جس کی اکثریت پیپلز پارٹی کو ووٹ کرتی ہے۔ لیکن پارٹی نے یہاں کبھی کسی اقلیتی برادری کے امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔
"عمرکوٹ اور مٹھی کے بعد اقلیتی برادری کی بڑی تعداد ٹنڈو الہیار میں رہتی ہے۔ یہاں اس برادری کو مخصوص یا جنرل سیٹ نہ دینا سراسر ناانصافی ہے۔ مگر کیا کریں مجبوری یہ ہے کہ دوسری کوئی پارٹی بھی ہمارا اتنا خیال نہیں رکھتی جتنا پی پی رکھتی ہے۔"
سینئیر صحافی خالد کھوکھر کہتے ہیں کہ ٹنڈوالھیار میں پیپلزپارٹی نے گزشتہ دو انتخابات میں کامیاب ہو نے والے امیدوار اس بار بھی میدان میں اتارے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ الیکشن لڑنے کا کافی تجربہ رکھتے ہیں اور ان کا ذاتی ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ اس لیے انہیں پارٹی ووٹ آسانی سے جتا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سرداروں کے گڑھ ضلع گھوٹکی کی سیاست میں 30 برسوں بعد کیا تبدیلی آئی ہے؟
ان کے مطابق پی پی کے سب سے بڑے مخالف کھوکھر سردار تھے جو اب پی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی کو کوئی ٹف ٹائم نہیں دے سکتا اور ان کے امیدوار اس بار بھی کامیاب ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی سندھ کے جنرل سیکریٹری علی پلھ کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی احکامات کے پابند ہیں اور انہیں پارٹی نے پی ایس 103 کراچی ڈیفنس سے ٹکٹ دیا ہے۔
"میرا گھر کراچی میں ہی ہے اور میں انتخاب بھی وہیں سے لڑ رہا ہوں۔ پارٹی کے صوبائی صدر حلیم عادل شیخ پانچ ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے حلقے میں انتخابی مہم بھی مجھے ہی چلانی ہے۔"
صوبائی اسمبلی کے لیے پی پی کے امیدوار اور سابق ایم پی اے امداد پتافی کا دعویٰ ہے کہ پپلز پارٹی ضلعے کی تینوں نشستیں جیت کر دکھائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے لوگوں کی بہتری کے لیے کام کیا ہے۔ یہاں سڑکیں، سیوریج اور پینے کے پانی سمیت تمام سہولیات فراہم کی ہیں۔ جبکہ اقلیتی برادری کے مسائل بھی ترجیح بنیاد پر حل کیے ہیں اور وہ بھی پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دے گی۔
تاریخ اشاعت 3 فروری 2024