محمد اشرف ڈھڈی کا تعلق ضلع بہاولنگر کے قصبے ڈونگہ بونگہ سے ہے۔ وہ کپاس کے ایک بڑے کاشت کار ہیں۔ رواں سال بھی انھوں نے ایک سو ایکڑ رقبے پر یہ فصل کاشت کر رکھی ہے لیکن ان دنوں وہ اپنی جنس کو فروخت کرنے کے حوالے سے فکر مند ہیں کیوں کہ مارکیٹ میں اس کے نرخ بہت کم ہو گئے ہیں۔
اشرف کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ ماہ سے کپاس کی فی من قیمت میں دوگنا تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اب مارکیٹ میں کپاس کے نرخ 6800 روپے تک گر گئے ہیں۔ یہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ 8500 روپے کے مقابلے میں بھی 1700 روپے کم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ موجودہ مارکیٹ ریٹ پر اپنی فصل فروخت کرتے ہیں تو ان کو نقصان اٹھانا پڑے گا کیوں کہ اس مرتبہ ڈیزل، کھاد، سپرے اور دوسرے زرعی مداخل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں۔
اشرف کے پاس چونکہ وسائل ہیں تو انھوں نے آخری چنائی سے حاصل ہونے والی تقریباً ڈھائی سو من کپاس سٹاک کر لی ہے، اب وہ اسے اس وقت فروخت کرنا چاہتے ہیں جب اس کا فی من ریٹ کم از کم سرکاری قیمت 8500 روپے تک نہیں پہنچ جاتا ہے۔
وہ وقفے وقفے سے منڈی کا چکر بھی لگاتے رہتے ہیں تاکہ انہیں ریٹ کا پتا چل سکے اسی سلسلے میں وہ یکم نومبر کوبھی اپنے قصبے ڈونگہ بونگہ کی منڈی گئے تھے جہاں پر ان کے بقول آڑھتیوں نے بتایا کہ چونکہ ڈالر کی قیمت بہت کم ہو گئی ہے اس لیے کپاس کی مارکیٹ میں بھی مندہ چل رہا ہے۔
" ڈالر کی قدر کم ہونے سے صرف کپاس کے نرخ ہی کیوں کم ہوئے ہیں، زرعی مداخل جیسا کہ کھاد، سپرے اور ڈیزل کی قیمتوں پر اس کا فرق کیوں نہیں پڑا؟"
ان کا موقف ہے کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، اصل میں پچھلے کچھ سالوں سے ایک مافیا مارکیٹ میں داخل ہو گیا ہے جو کسانوں کو نقصان پہنچا کر خود سرمایہ بٹورنا چاہتا ہے۔
حکومتی دعوؤں کے مطابق رواں سال پاکستان میں 48 لاکھ ایکڑ رقبے سے زائدہ پر کپاس کاشت ہوئی ہے جو پچھلے پانچ سال کے مقابلے زیادہ ہے۔ حکومت نے تخمینہ لگایا ہے کہ رواں سال پاکستان اس زیر کاشت رقبے سے ایک کروڑ 20 لاکھ بیلز حاصل کر پائے گا۔
جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ان تین ڈویژن میں پنجاب میں کاشت ہونے والے کل زیر کاشت رقبے کا لگ بھگ 85 فیصد حصہ ہے۔
یہاں پر اس وقت تقریباً کپاس کے تمام کاشت کار ہی محمد اشرف جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔
جن کاشت کاروں کے پاس وسائل ہیں، وہ تو اپنی جنس کو کچھ دیر تک روک رہے ہیں لیکن چھوٹے زمیندار جنہوں نے کپاس سے حاصل ہونے والے منافع سے گندم کی فصل کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کرنا ہیں، وہ انتہائی مشکل میں ہیں اور اونے پونے اپنی جنس فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں کپاس کی پیداوار کے حوالے سے کچھ روز پہلے نگران وفاقی وزیر صنعت و تجارت گوہر اعجاز نے میڈیا پر بتایا تھا کہ پاکستان گیارہ سال کے وقفے کے بعد اس فصل کی ریکارڈ پیداوار حاصل کرنے جا رہا ہے۔ ان کے بقول یکم اکتوبر 2023ء تک کپاس کی 50 لاکھ گانٹھیں جنرز فیکٹریوں میں پہنچ چکی ہیں جو کہ پچھلے سال پورے سال کے 49 لاکھ کاٹن بیلزکے اعداد وشمار سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی ویب سائیٹ پر جاری ایک رپورٹ کے مطابق 16 اکتوبر تک فیکٹریوں کے پاس 60 لاکھ بیلز(گانٹھیں) آچکی ہیں۔ اسی طرح ایسوسی ایشن کی جانب سے 18 اکتوبر کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سات لاکھ 34 ہزار 737 گانٹھیں کاٹن جنرز کے گوداموں میں موجود ہیں جن کی مالیت تقریباً 75 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔
اس کے باوجود ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان اس کی خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ ایسوسی ایشن کے موقف کے مطابق اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آڑھتیوں نے بھی کاشتکاروں سے کپاس اونے پونے داموں خریدنا شروع کر دی۔
وسیم اکرم ملتان کے مضافاتی علاقے جلالپور میں کاٹن جننگ فیکٹری چلاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کپاس کی سرکاری نرخ پر خریداری نہ ہونے کی وجہ اس کا کم معیار ہے۔
"ستمبر میں ہونے والی بارشوں اور حبس نے کپاس کی پیداوار بری طرح متاثر کی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بھی حکومت کے مقرر کردہ ریٹ آٹھ ہزار 500 روپے پر خریداری ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اب بجلی اور مال برداری کے اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بینکوں کا شرح سود انتہائی بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے فیکٹری مالکان بینک فنانسنگ کروانے سے محروم ہیں کیونکہ کوئی بچت نظر ہی نہیں آتی۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری وحید بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وقت جننگ فیکٹریوں میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ گانٹھ کپاس موجود ہے "اور ہم مزید خریداری کی سکت نہیں رکھتے"۔
ان کے مطابق سیزن کے ابتدا میں روئی کی قیمت 20 ہزار روپے فی من تھی جو آج 14 سے 15 ہزار روپے فی من تک پہنچ چکی ہے اور اس قیمت پر جنرز فیکٹریوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے اور کسانوں کو بھی۔
ملتان میں کسانون سے کپاس کی خریداری کرنے والے بڑے آڑھتی غلام عباس مغل کپاس کی مارکیٹ میں مندی کو ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان(ٹی سی پی) کی جانب سے خریداری شروع نہ کرنے سے بھی جوڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جننگ فیکٹریوں اورآڑھتیوں سے 10 لاکھ کاٹن بیلز خریدے گی لیکن انھوں نے ابھی تک خریداری شروع ہی نہیں کی ہے، جس سے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر گوڈان ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان میاں اسد مقبول مڑل نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ٹی سی پی نے کپاس کی (پروکیورمنٹ) خریداری کے لئے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کرلی ہیں جیسے ہی وزارت کی جانب سےضروری رسمی قانونی کارروائی مکمل ہونے کے احکامات ملیں گے تو کپاس کی خریداری کا عمل جلد شروع کر دیا جائےگا اور 10لاکھ کاٹن بیلز سرکاری نرخوں پر خریدی جائیں گی۔
واضح رہے کہ پچھلے سال اس حکومتی ادارے نے کپاس کی خریداری نہیں کی تھی جس کی تصدیق ڈپٹی ڈائریکٹر بھی کرتے ہیں۔
آڑھتیوں کے مطابق اس دفعہ اس ادارے کی خریداری کا مقصد ہی یہ تھا کہ مارکیٹ کو استحکام بخشا جائے اور حکومتی خریداری کی وجہ سے کسانوں کو اس کی کم از کم امدادی قیمت ضرور ملے۔
کسانوں کے مطابق رواں سال یکم نومبر تک لگ بھگ 80 فیصد چنائی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور ابھی تک 60 لاکھ بیلز جینرز فیکٹریوں میں پہنچی ہیں۔اس لیے خدشہ ہے کہ اس بار بھی 80 لاکھ بیلز تک ہی پیداوار ہو گی۔
کسان محمد اسماعیل اور محمد اشرف کہتے ہیں کہ رواں سال انھوں نے پہلے سے زیادہ رقبے پر کپاس کاشت کی ہے لیکن اگست اور ستمبر میں بارشوں کے بعد سفید مکھی کے حملوں نے اسے بہت زیادہ متاثر کیا ہے جس سے پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔
کوارڈینیٹر وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) طلعت سہیل کہتے ہیں کہ جس طرح حکومت نے اس بار پھٹی کا ریٹ مقرر کیا ہے تو اسی طرح اسے روئی کا ریٹ بھی مقرر کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس بار جو مسائل سامنے آ رہے ہیں وہ روئی کا ریٹ مقررنہ کرنے کی وجہ سے لگتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ کپاس جب جنرز فیکٹریوں کے پاس پہنچتی ہے تو انہیں ریشوں سے بنولہ کو الگ کرنے کے لیے بجلی، مزدوری اور مال برداری کی مد میں اب بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس لیے وہ نقصان میں رہنے کے بجائے کم خریداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ "حکومت جس طرح گندم اور پھر اس کی بائی پراڈکٹ آٹے کا ریٹ بھی مقرر کرتی ہے تو پھر کپاس اور روئی کے نرخ مقرر کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟"
یہ بھی پڑھیں
'حکومت کے کہنے میں آ کر کپاس اگائی اور اب فصل کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے'
وہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ابھی تک خریداری شروع نہ کرنے پرتنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کہتی ہے کہ رواں سال ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ گانٹھ پیداوار کا دعویٰ ہے۔ اس تخمینے کے مطابق ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو عملی طورپر دو ماہ قبل روئی کی خریداری شروع کرا دینی چاہیے تھی۔
طلعت سہیل کہتے ہیں کہ آئندہ کپاس کی کاشت موجودہ فصل کے معاوضے سے مشروط ہے۔ وہ ڈالر کے ریٹ میں کمی کو کپاس کی مارکیٹ پر اثر انداز ہونے کو بھی ایک من گھڑت پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھلے برس ڈالر 280 روپے پر تھا اور کپاس 10ہزار روپے من خریدی جا رہی تھی۔ اب ڈالر 275 روپے پر ہے تو کپاس کی خریداری ساڑھے آٹھ ہزار روپے کیوں نہیں ہوسکتی؟
انہوں نے کہا کہ حکومت کو مارکیٹ میں فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے اور حکومت کے اعلان کردہ ریٹ کے حساب سے خریداری شروع کرنی چاہیے۔
جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن(اپٹما)آصف انعام نے لوک سجاگ کو بتایا کہ حکومتی نرخ پر خریداری کو یقینی بنانا انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ٹیکسٹائل اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کر رہی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید خریداری کی بھی خواہاں ہے۔ ملکی ٹیکسٹائل کی ضرورت ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 40 لاکھ بیلز تک ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ خریداری کے خواہش مند ہیں۔
"مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے اور اس کو بہتر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ کوئی بہتر طریقہ کار اپنائے تاکہ کسانوں کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے"۔
تاریخ اشاعت 3 نومبر 2023