رحیم یار خان کے شہریوں کا ناک میں دم کس نے کیا ہوا ہے؟

postImg

بلال حبیب

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

رحیم یار خان کے شہریوں کا ناک میں دم کس نے کیا ہوا ہے؟

بلال حبیب

loop

انگریزی میں پڑھیں

رحیم یا ر خان کی میونسپل کارپوریش نے شہر میں پیدا ہونے والے سیکڑوں ٹن کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا انوکھا طریقہ دریافت کیا ہے تاہم اس سے شہر بھر کے لوگوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔  

ریاض احمد، جناح پارک رحیم یار خان کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میونسپل کمیٹی کا عملہ صفائی ان کے محلے سے کوڑا نہیں اٹھاتا بلکہ وہیں کسی کونے میں جمع کر کے اسے جلا دیتا ہے۔ سینٹری ورکرز کو روکا جائے تو کہتے ہیں"ہمارے پاس کوڑا اٹھانے کے لیے ٹرالی ہی نہیں ہے۔"

"اگر ہم زیادہ اصرار کریں تو صفائی والے ہفتوں ہمارے علاقے میں نہیں آتے اور جب آتے ہیں تو کچھ کوڑا لے جاتے ہیں۔ باقی یہیں جلا دیتے ہیں۔"

کینال پارک کے رہائشی ارسلان علی کو یہی شکایت ہے کہ ان کے علاقے میں کارپوریشن کا عملہ کچرے کو ایک خالی پلاٹ میں جمع کرتا ہے اور آگ لگا کر چلا جاتا ہے۔ جس سے اٹھنے والی بدبو اور دھواں محلے کے رہائشیوں کا جینا دو بھر کیے رکھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت صوبہ بھر میں فضائی آلودگی پر قابو پانےکے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن یہاں میونسپل کارپوریشن کا رویہ آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے اربن پلاننگ کے ایک رپورٹ بنوائی تھی جس کے مطابق انٹیگریٹڈ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ نے 2013ء میں رحیم یار خان شہر میں کوڑے کی روزانہ پیداوار کا تخمینہ 169.21 ٹن لگایا تھا۔اس رپورٹ میں دس سال بعد یعنی 2023ء میں کوڑے کی روزانہ پیداوار لگ بھگ 287.49 ٹن بتائی گئی تھی۔

اتنے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک بڑی "لینڈ فل سائٹ" کا ہونا ضروری ہے لیکن رحیم یار خان میں اب تک ایسی کوئی سائٹ نہیں بنائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریشن نے مختلف جگہوں پر کوڑا جمع کرنے کے "پوائنٹس" بنائے ہوئے ہیں۔

میونسپل کارپوریشن کے سینٹری سپروائزر محمد زبیر کانجو بتاتے ہیں کہ شہر کا کوڑا دس پوائنٹس پر جمع کیا جاتا ہےجہاں سے اسے ٹریکٹر ٹرالیوں کے ذریعے تین بڑے ڈمپنگ پوائنٹس پر منقل کیا جاتا ہے۔ ایک پوائنٹ شہر کے اندر ہی خان پور اڈا کے قریب اوور ہیڈ برج کے ساتھ واقع ہے۔ باقی دو شہر کے نواحی علاقوں نورے والی مو ڑ اور موہ مبارک میں بنائے گئے ہیں۔

کارپوریشن کے ریکارڈ کے مطابق شہر سے روزانہ 120 ٹن کوڑا جمع کرکے ڈمپنگ پوانٹس پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اس کام میں نو ٹریکٹر ٹرالیاں اور تین فرنٹ بلیڈ ٹریکٹرز استعمال ہوتے ہیں۔

پنجاب حکومت کے تخمینے اور کارپوریشن کے ریکارڈ کو اگر درست مان لیا جائے تو روزانہ 150 ٹن سے زائد کوڑا شہر ہی میں جلا دیا جاتا ہے۔ ڈمپنگ پوانٹس پر بھی کوڑے کے ڈھیروں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات کوئی عہدیدار تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

چیف افسر میونسپل کارپوریشن محمود احمد ڈمپنگ سٹیشن پر کوڑا کرکٹ جلانے کی تردید کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی تعیناتی کے بعد سے کوڑا ٹرالیوں میں موہ مبارک روڈ پر لے جایا جاتا ہے اور وہاں اسے زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔

"تاہم کچھ علاقوں میں پرائیویٹ کوڑا اٹھانے والے بھی کام کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہ آگ لگاتے ہوں۔ ہم نے اپنے سٹاف کو وارننگ دے رکھی ہے کہ اگر بلدیہ کا عملہ کوڑے کو آگ لگائے گا تو اس پر باقاعدہ ایف آئی آرز درج ہوں گی۔"

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسی کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

رحیم یار خان شہر کی سوا پانچ لاکھ کے قریب آبادی کا کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے ایک بھی 'لینڈ فل سائٹ' نہیں بنائی گئی ہے اور نہ ہی 287.49 ٹن کچرا اٹھانے کے لیے کارپوریشن کے پاس اتنا گاڑیاں اور مشینری دستیاب ہے۔ جس کی وجہ سے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔

ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رحیم یار خان احمد رضا بٹ بتاتے ہیں کہ محکمہ بلدیات نے سرکاری اراضی کا انتخاب کر لیا ہے۔ جہاں لینڈ فل سائٹ بنائی جا سکتی ہے۔ "چند ماہ تک ہمارا اربوں روپے کا پراجیکٹ شروع ہو رہا ہے۔ وہاں سالڈ ویسٹ کی مشینری لگا کر تمام کوڑا ڈسپوز آف کیا جائے گا۔"

شفقت علی شہر میں خان پور اڈہ اوور ہیڈ برج کے قریب رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچرے کا ایک ڈمپنگ پوائنٹ ان کے گھر کے قریب ہے۔ یہاں کوڑے کو زمین میں دبانے کی بجائے آگ لگا دی جاتی ہے۔ جس کی بدبو اور دھوئیں سے سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔

شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال میں شعبہ امراض سینہ و سانس (پلمونولوجی) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عمران بشیر بتاتے ہیں کہ وہ اکثر مریضوں سے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

 "بہت سے مریض ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے قریب کوڑا جلانے سے انہیں سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ سموگ سیزن سے پہلے آؤٹ ڈور میں روزانہ تین سو کے قریب مریض آتے تھے لیکن اب روزانہ تقریباً ساڑھے چار سو مریض آ رہے ہیں جن میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد لگ بھگ 20 فی صد زیادہ ہیں۔ جبکہ نزلہ، زکام اور کھانسی کے مریض بھی بڑھے ہیں۔

رجسٹرار شعبہ امراض چشم ڈاکٹر محمد رمضان بتاتے ہیں کہ کوڑا جلنے سے اٹھنے والا دھواں آنکھوں میں سوزش پیدا کر سکتا ہے۔ مریض بروقت دوائی نہ لے تو سوزش مزید بڑھ جاتی ہے۔ سموگ کے بعد ایسے مریضوں میں سات سے آٹھ فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد کے گھروں میں آنے اور صنعتوں سے جانے والے آلودہ پانی کے مابین کیا تعلق ہے؟

عامر رحمانی محکمہ تحفظ ماحولیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں ںے لوک سجاگ کو بتایا کہ سموگ سیزن کے آغاز پر ہی سیکرٹری بلدیات نے میونسپل کمیٹیز اور کارپویشنز کو کوڑا نہ جلانے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ اس لیے یہاں ایسا کوئی معاملہ ان کے نوٹس میں نہیں آیا۔

تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ گلی محلوں میں عملہ صفائی کوڑا جلا دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سموگ سیزن میں ائیر کوالٹی انڈیکس 140 پوائنٹس تک گیا تھا لیکن اب یہ اتنا کم ہو گیا ہے کہ مضر صحت نہیں۔ نومبر 2023ء کے پہلے ہفتے میں رحیم یارخان کی فضاء میں سموگ تھی تاہم بارش ہونے سے وہ سموگ ختم ہو گئی تھی۔

 تاہم دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعداد و شمار پیش کرنے والی ویب سائٹ آئی کیو ایئر کے مطابق رواں ماہ پانچ دسمبر کو بھی رحیم یار خان میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت کے قائم کردہ معیار سے 14.6 گنا زیادہ تھی اور ایئر کوالٹی انڈیکس 160 پوائنس تھا۔

خواجہ فرید انجنیئرنگ یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل اینڈ انوائرمینٹل انجینئرنگ عمیر اظہر بتاتے ہیں کہ صنعتی اخراج، فصلوں کی باقیات جلنے اور گاڑیوں کے دھوئیں سے زہریلے مرکبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مرکبات ہوا میں آبی بخارات سے مل کر سموگ بناتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کوڑا جلنے سے بھی سموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر پلاسٹک کی اشیا کو جلانا زیادہ خطرناک ہے، اس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

تاریخ اشاعت 12 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.