پنجاب حکومت نے صوبے میں بجلی پر چلنے والے زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے کاشت کاروں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سےکاشت کاروں کو یقیناً فائدہ ہوگا لیکن کچھ ماہرین اس پر بھی تحفظ کا اظہار کر رہے ہیں۔
میاں محمد سلیم وٹو اوکاڑہ کے رہائشی ہیں جنہوں نے اپنے زرعی زمین کی آبپاشی کے لیے سولر سسٹم لگایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 585 واٹ کے 20 سولر پینل خریدے جن پر ان کا کل خرچہ آٹھ لاکھ روپے کے قریب آیا اور وہ اس پر 15 ہارس پاور کی موٹر استعمال کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اب بجلی کے بل اور ڈیزل کے خرچے سے جان چھوٹ گئی ہے جن کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ بجلی کے بل کی ادائیگی میں تاخیر پر کنکشن کاٹنے والے آ جاتے تھے اور پرچہ درج کرانے کی دھمکیاں بھی دیتے تھے۔
"جب ہم ڈیزل انجن استعمال کرتے تھے تو ایک گھنٹہ ٹیوب ویل چلانے پر تین سے چار لیٹر ڈیزل لگ جاتا تھا ۔ اب جتنا چاہے ٹیوب ویل چلائیں بل کی کوئی فکر نہیں ہوتی جبکہ سولر کا خرچ ایک سال میں ہی پورا ہو جائے گا۔"
اوکاڑہ ہی کے ایک اور کسان غلام رسول نے قرض لے کر سولر لگوایا ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو رقم بجلی کے بل اور ڈیزل پر خرچ کرنا تھی وہی اب قسط کے طور پر دیں گے۔ اسے سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ سولر سسٹم کی شکل میں اثاثہ بن جائے گا۔
پروگریسو فارمر اور زرعی ماہر عامر حیات بھنڈارا پاکپتن سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں کسان ٹیوب ویلوں کو تیزی سے سولر پر منتقل کر رہے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ ڈیزل انجنوں کا استعمال ختم ہو جائے گا جس سے شور اور آلودگی میں کمی آئےگی۔
"کاشت کی پیداواری لاگت کم ہو گی تو اجناس کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔ موسمی تغیرات کے باعث فصلوں کو پانی کی کمی کا سامنا نہیں ہو گا جس سے پیداوار میں اضافہ اور کسان خوشحال ہوگا۔"
پنجاب حکومت نے حال ہی میں 'ٹرانسفارمنگ پنجاب ایگریکلچر پروگرام' کے تحت بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے 12 ارب روپے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں سات ہزار ٹیوب ویلوں کو سولر پر لانے کے لیے کاشت کاروں کو 70 فیصد تک سبسڈی دی جائےگی۔
مگر کچھ ماہرین ہیں جو زیر زمین پانی کے بے تحاشہ استعمال پر سوال اٹھاتے ہیں۔
بین الاقوامی مرکز برائے بایوسیلائن ایگریکلچر یو اے ای کی سٹڈی رپورٹ (2020ء) کے مطابق پاکستان آبپاشی کے لیے زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں صرف 27 فیصد زرعی رقبہ نہری پانی اور 73 فیصد براہ راست یا بالواسطہ زیر زمین پانی کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔
"پنجاب 90 فیصد سے زیادہ زیر زمین پانی استعمال کرتا ہے۔ ملک میں 12 لاکھ پرائیویٹ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں، جن میں سے 85 فیصد پنجاب، 6.4 فیصد سندھ، 3.8 فیصد خیبرپختونخوا اور 4.8 فیصد بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان میں زیر زمین پانی کا مجموعی اخراج تقریباً 60 ارب مکعب میٹر ہے۔"
رپورٹ کے مطابق زمینی پانی تک رسائی نے بڑھتی آبادی کے لیے خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں کسانوں کی مدد کی ہے۔ تاہم پانی کے بے تحاشا استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح میں کمی اور مٹی کو نمکین بنانے کے مسائل میں اضافہ شامل ہے۔
"پنجاب کے 50 فیصد سے زیادہ آبپاشی والے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح چھ میٹر سے نیچے گر چکی ہےجس کے نتیجے میں پمپنگ کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے اور زیر زمین پانی کا معیار بھی گر گیا ہے۔"
رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبہ پنجاب میں تقریباً 85 فیصد ٹیوب ویل ڈیزل جبکہ 15 فیصد بجلی سے چلتے ہیں۔
انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ (آئی ڈبلیو ایم آئی) کے کمیونیکیشن ماہر امجد جمال کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے ہے وہاں بھی لوگ سولر ٹیوب ویل استعمال کرکے بے دریغ پانی نکال رہے ہیں۔
"آئی ڈبلیو ایم آئی ان ہاٹ سپاٹس کی نشاندہی کے لیے ایک سٹڈی کر رہا ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔"
سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو آئی ڈبلیو ایم آئی کے اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس پروگرام کے تحت صرف بجلی والے ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کیا جائے گا۔
"سولر ٹیوب ویل کے لیے پانی کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 60 فٹ مقرر کی گئی ہےجس پر15، 10 اور ساڑھے سات کلو واٹ طاقت کے مساوی پمپنگ سسٹم لگایا جائے گا۔ ٹیکنیکل ٹیم موقع پر جا کر درخواست گزار کی موجودگی میں پانی کی گہرائی معلوم کرے گی۔"
تاہم محکمہ زراعت (توسیع) پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور زرعی ماہر ڈاکٹر انجم علی بٹر صوبائی حکومت کے اس اقدام کی حمایت نہیں کرتے اور زیر زمین پانی کی سطح کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بلا شبہ توانائی کے قابل تجدیدذرائع استعمال کرنے سے کاشت کاروں کے اخراجات میں کمی آئےگی لیکن جتنے زیادہ ٹیوب ویل سولر پر منتقل کیے جا رہے ہیں اس سے زیر زمین پانی کا ضیاع بڑھ جائے گا۔
"جب کسان بجلی پر ٹیوب ویل چلاتا ہے تواس کی کوشش ہوتی ہے کم سے کم وقت میں زمین کو پانی دے کر ٹیوب ویل بند کر دیا جائے۔ لیکن بجلی کا بل آنے کا ڈر نہیں ہوگا تو کاشت کار ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کریں گے۔"
ان کا ماننا ہے کہ چولستان سمیت ایسے علاقے جہاں بارشیں کم ہوتی ہیں یا نہری پانی میسر نہیں ہے وہاں سولر ٹیوب ویل لگائے جا سکتے ہیں۔ باقی علاقوں میں توانائی کی بچت کے لیے کاشتکاروں کو ڈرپ ایری گیشن سسٹم سمیت جدید زرعی طریقوں اور کم پانی لینے والی فصلوں کی طرف لایا جائے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گنے اور چاول جیسی فصلوں کی کاشت میں کمی کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"
تاہم ڈپٹی ڈائریکٹر واٹر مینجمنٹ (ایگری کلچر) پنجاب طاہر محمود اس تاثر کو درست نہیں سمجھتے کہ سولر ٹیوب ویل سے زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ ہوگا۔
وہ آئی ڈبلیوایم آئی کی ایک رپورٹ (جو ابھی شائع نہیں ہوئی ) کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سولر ٹیوب ویلوں سے پانی کے استعمال میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے سہ پہر ساڑھے چار بجے تک ہی چلائے جاسکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیوب ویل صرف ان علاقوں میں تجویز ہی نہیں کیے جا رہے جہاں پانی کی زیرزمین سطح 60 فٹ سے نیچے ہے۔
"کاشتکار اتنا ہی پانی استعمال کریں گے جتنی انہیں ضرورت ہوگی۔ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ پانی سے ان کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔"
ڈاکٹر انجم علی بٹر کہتے ہیں کہ آبپاشی کا بہترین وقت شام اور رات کو ہوتا ہے، دن میں فصلوں کا پانی بخارات بن کر ضائع ہو جاتا ہے جبکہ رات کے وقت پانی کی بچت ہوتی ہے۔
"وہ کاشتکار جو پانی خرید کر فصل کاشت کرتے ہیں اب سولر ٹیوب ویل سے سستا پانی دستیاب ہونے پر چاول، گنا، مکئی اور گندم جیسی فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں گے جو زیادہ پانی مانگتی ہیں۔"
تاریخ اشاعت 27 جولائی 2024