پینسٹھ سالہ عبدالرحیم ضلع آواران کے علاقے شمالی لنجار جاھو کے رہائشی ہیں۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی بنجر زمینوں پر کبھی سرسبز لہلہاتی فصلیں نظر آئیں گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس 15 ایکڑ کے قریب وراثتی اراضی موجود تھی مگر وہ اسے آباد کرنے سے قاصر تھے۔ ان کا 30 افراد پر مشتمل کنبہ ہے جس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتی تھیں اور بعض اوقات تو نوبت فاقوں تک آ جاتی تھی۔
"ہم دوسروں کی زرعی زمینوں پر مزدوری کیا کرتے تھے۔ کٹائی کے موسم میں اونٹوں اور گدھوں پر تحصیل جاھو سے 90 کلومیٹر دور بیلہ (ضلع لسبیلہ)کی جانب خاندان سمیت نقل مکانی کر کے جاتے تھے۔ وہاں پہنچنے میں ہمیں چھ دن لگتے تھے اور کٹائی سے سال بھی کے لیے 25 کٹہ (تقریباً 30 من)گندم کما لاتے تھے۔"
وہ اپنے چھوٹے بیٹے ریاض جو قوت گویائی و سماعت سے محروم ہیں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کو پتا نہیں ایک دن کیا سوجھی کہ کسّی اٹھائی اور زرعی زمین کے درمیان کھدائی شروع کر دی۔ انہوں نے استفسار کیا تو ریاض نے دوسروں کی فصل اور سورج کی طرف اشارہ کر دیا۔
"ہم سمجھ گئے وہ سولر ٹیوب ویل کا کہہ رہا ہے مگر کسی نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ صرف کنواں کھودنے سے کچھ نہیں ہوگا ہمارے پاس اتنا بڑا سرمایہ کہاں؟ مگر یہ اپنے جنون میں کھدائی کرتا چلا گیا۔"
ریاض اپنے والد کی گفتگو کو سمجھے بغیر مسکرا دیے اور عبدالرحیم نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔
"جب ریاض نے اکیلے دس فٹ کھدائی کر لی تو خاندان کے دیگر نوجوان بھی ان کا ساتھ دینے پہنچ گئے۔ ہم نے ہاتھوں سے 105 فٹ گہرا کنواں کھود ڈالا مگر پانی نہیں نکلا۔ تب میں نے اپنے بڑے بیٹوں راشد اور پیر بخش کو فون کیا جو دبئی میں مزدوری کرتے تھے۔"
"انہیں بتایا کہ ہم اپنی زمینیں آباد کرنے جا رہے ہیں آپ پیسوں کا انتظام کریں۔ انہوں نے وہاں سے اپنی ساری پونجی اور ادھر اُدھر سے قرض پکڑ کر ہمیں رقم بھیجی جس سے مشینی بور ہوا اور ہم نے سولر لگا کر آدھی زمین کو قابل کاشت بنا لیا۔"
عبدالرحیم نے اپنی کپاس کی تیار فصل پر نظر ڈالتے ہوئے بتایا "یہ سب کچھ سولر سسٹم کی بدولت ممکن ہوا۔ ہم نے خواب دیکھے اور سولر سسٹم نے ان کو تعبیر دے دی۔ ایک ماہ بعد ہم اس کی پیداوار اٹھائیں گے۔"
عبدالرحیم کے 36 سالہ صاحبزادے پیر بخش بتاتے ہیں کہ یہاں روزی کی بہت تنگی تھی جس پر وہ 2013ء میں دبئی چلے گئے تھے۔
"وہاں ہم اونٹوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور دن رات کی محنت کے بدلے مجھے 800 درہم ماہانہ ملتے تھے۔ پھر ایک دن ابو کا فون آیا انہوں نے کہا کہ جتنی مشقت تم دبئی میں کرتے ہو اس سے آدھی محنت میں اپنے کھیتوں سے کہیں زیادہ کما سکتےہو، واپس آ جاؤ۔"
پیر بخش والد کی بات سنتے ہی واپس ہو لیے۔
"جو کمائی ساتھ لایا تھا اس سے دوسرا سولر ٹیوب ویل لگایا اور باقی زمین آباد کرنا شروع کر دی جس کے بعد بڑے بھائی راشد کو بھی واپس بلا لیا۔ اب کھیتی سے ہم تینوں (پیربخش، راشد اور ریاض) کے گھر چل رہے ہیں، تینوں کے پاس اپنی اپنی موٹر سائیکل ہے اور دبئی جانے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔"
عبدالرحیم اب اپنی زمین سے سال میں تین فصلیں (گندم، پیاز اور کپاس) اٹھاتے ہیں۔علاج معالجے اور خاندان کی کفالت کے بعد کچھ بچت بھی کر لیتے ہیں۔
بلوچستان شمسی توانائی سے مالا مال ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق صوبے کے تقریباً 40 فیصد رقبے میں چھ کلو واٹ فی مربع میٹر فی دن سے زیادہ براہ راست شمسی توانائی (solar insolation) مل سکتی ہے جب کہ باقی علاقے میں 4.5 کلو واٹ فی مربع میٹر یومیہ براہ راست شمسی توانائی (solar radiation) حاصل ہو سکتی ہے۔
تاہم سولر ٹیکنالوجی عام ہونے کے بعد کاشت کار اس سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں اور یہ توانائی بلوچستان کی زرعی صلاحیت بڑھاتی نظر آ رہی ہے۔
بتیس سالہ روشن 15 سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کی زمینوں میں کنواں کھودنے کے نو تجربے ناکام ہو چکے ہیں۔ جب بھی انہوں نے زیر زمین پانی نکالنے کوشش کی ہے بور کے دوران نیچے چکنی مٹی (مقامی زبان میں 'غل') آجاتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ بور کے مسائل کی وجہ سے وہ روایتی آبپاشی کے ذریعے فصل کاشت کیا کرتے تھے جس کا انحصار مون سون پر ہوتا تھا۔ بارشیں ہو گئیں تو ٹھیک ورنہ خشک سالی میں زمینیں بنجر پڑی رہتی تھیں۔ دوسرا یہاں ایک ہی فصل یعنی گندم کاشت ہوتی تھی جس میں محنت زیادہ اور پیداوار کم ملتی تھی۔
"میں نے ایک اور تجربہ کرنے کی بجائے اپنی زمین سے کچھ فاصلے پرسولر ٹیوب ویل لگایا اور تین ہزار 300 فٹ اضافی پائپ کے ذریعے پانی اپنے کھیت تک پہنچا دیا ہے۔ ابھی پہلی فصل (کپاس) ہی کاشت کی ہے، امید ہے آمدن اچھی ہو گی۔ اب یہاں سال میں تین فصلیں کاشت ہو سکتی ہیں۔"
دلدار خان، تحصیل جاھو کے علاقے کنڈی کے رہائشی اور 22 ایکڑ کے زمیندار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں مشینری کے ذریعے کھتی باڑی 1994ء میں شروع ہوئی۔ ان کے والد نے 1996ء میں زمین آباد کرنا شروع کی تو چائنا کے ڈیزل انجن پر چلنے والے ٹیوب ویل سے سیراب ہوتی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ایرانی ڈیزل یہاں سستا مل جا تا تھا لیکن پھر ڈیزل مہنگا ہوتا گیا اور بہت سے کاشت کاروں کی دسترس سے باہر ہوگیا۔ چونکہ زرعی پیداوار کی قیمتیں کم تھیں اس لیے زمینیں دوبارہ غیر آباد ہونا شروع ہو گئیں۔
"میرے ساتھ بھی یہی ہوا جب پیاز کی قیمتیں گریں تو میں نے بھی 2012 ء میں زمین کی کاشت چھوڑ دی۔ پانچ سال قبل میں نے ڈیزل انجن کے ساتھ ٹیوب ویل پر سولر سسٹم لگا دیا۔ ہم تیل کے خرچے سے آزاد ہوئے تو وہی رقم کھاد اور زرعی ادویات پر خرچ کرنا شروع کی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
شمسی توانائی، قبائلی ضلع خیبر کے لوگوں کی تکالیف کیسے کم کر رہی ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ ڈیزل انجن اب بھی موجود ہے۔جب بادل ہوں تو مجبوراً ڈیزل انجن چلانا پڑتا ہےجس پر یومیہ پانچ ہزار اضافی خرچ ہوتا ہے۔
"پہلے میری آدھی زمین آباد تھی لیکن سولر آنے کے بعد میں نے دوسرا بور لگا دیا ہے اور ساری زمین کاشت کر رہا ہوں۔"
بلوچستان میں حال ہی میں ایک بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے صوبے میں تقریباً 28 ہزار بجلی پر چلنے والے زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے آٹھ جولائی کو کوئٹہ میں وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے مابین معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
معاہدے کے تحت 55 ارب روپے کے اس منصوبے کے لیے 70 فیصد رقم وفاقی حکومت جبکہ 30 فیصد صوبائی حکومت ادا کرے گی۔وزیرِ اعظم نے وزیرِ اعلی بلوچستان کو سولرائیزیشن کا یہ منصوبہ تین ماہ میں مکمل کرنے کا ٹاسک دیا۔
وفاقی حکومت بجلی کے بِلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہر سال سبسڈی کی مد میں 70سے 80 ارب روپے دیتی تھی مگر پھر بھی کسانوں کو صرف دو سے چھ گھنٹے بجلی ملتی تھی۔ معاہدے کے موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولارائیزیشن سے یہ دیرینہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر رہے ہیں۔
سولر ٹیکنالوجی اور خاص طور پر 55 ارب کے اس منصوبے کی تکمیل سے یقیناً بلوچستان کی زرعی اور دیہی معیشت میں بڑی تبدیلی دکھائی دے گی۔
تاریخ اشاعت 23 جولائی 2024