فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

postImg

نور فاطمہ

postImg

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

نور فاطمہ

اکیس سالہ سمیعہ وسیم تنگ و تاریک زینوں سے گزرتی چوتھی منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں پہنچتی ہیں جہاں بیٹری کی مدد سے ایک ننھا سا بلب ٹمٹمارہا ہے۔ تین بلاکس پر مشتمل اس چار منزلہ بلڈنگ میں مجموعی طور پر 40 فلیٹس ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ صبح گھر سے نکلتی ہیں، شام کو جب واپسی لوٹتی ہیں تو اکثر لوڈشیڈنگ کے باعث اندھیرا ان کا استقبال کرتا ہے۔ انہوں نے کئی بار سولر سسٹم لگوانے کا سوچا لیکن معلومات حاصل کیں تو اندازہ ہوا کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔

وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہیں جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ فرم میں جاب بھی کرتی ہیں۔ وہ کراچی کے مرکزی علاقے میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتی ہیں۔

"کرایہ دار کے لیے مالک سے سولر لگوانے کی اجازت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ میں اگر کسی طرح سولر لگا بھی لوں تو گھر تبدیل کرنے کی صورت میں دوبارہ اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جس کی میری جیب اجازت نہیں دیتی۔"

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گرین انرجی کے سستے آپشن یعنی روف ٹاپ سولر پینلز سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن کراچی کے گنجان آباد فلیٹس کے لاکھوں مکین اس سے استفادہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

پچیس سالہ سید زین وصال ضلع وسطی کی چار منزلہ بلڈنگ میں رہتے ہیں جس میں کل 99 فلیٹس ہیں۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو سولر سسٹم لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ بتاتے ہیں کہ ان کا ملکیتی فلیٹ پہلی منزل پر واقع ہے جس کے لیے انہوں نے عمارت کی چھت پر سولر پینل لگوائے ہیں۔

"میرے بجلی کے بل میں تقریباً 15 ہزار روپے کا فرق آ گیا ہے جو پہلے 20 ہزار ہوتا تھا اب پانچ ہزار کے قریب آتا ہے۔ تاہم پینلز لگوانے میں مجھے کئی رکاوٹیں کا سامنا کرنا پڑا۔"

سندھ حکومت  فلیٹس کے مکینیوں کی سولر تک آسان رسائی کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں کر رہی

اگرچہ کراچی کی گنی چنی عمارتیں ہی کونسل آن ٹال بلڈنگز اینڈ اربن ہیبیٹیٹ کے اونچی عمارتوں کے معیار (150 میٹر سے زیادہ بلندی) پر پورا اترتی ہیں تاہم اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک کے دیگر اربن سنٹرز کے مقابلے میں یہ شہر فلیٹس کا جنگل بن چکا ہے۔

ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج بتاتے ہیں کہ میٹروپولیٹن سٹی کے چار اضلاع میں مجموعی طور پر 67 ہزار 575 کثیرالمنزلہ (ہائی رائز) عمارتیں ہیں جن میں 44 ہزار 328 خالصتاً رہائشی ہیں، ایک ہزار 616 عمارتیں کمرشل اور 21 ہزار 631 کمرشل و رہائشی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

اس شہر کی رہائشی عمارتوں میں عموماً چھ سے 12 فلیٹ ہوتے ہیں لیکن ایسی درجنوں بلڈنگز موجود ہیں جن میں سے ہر ایک میں سیکڑوں خاندان مقیم ہیں۔ اب بھی یہاں گنجان آباد علاقے میں ایک 50 منزلہ رہائشی منصوبہ زیرتعمیر ہے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گزشتہ ماہ سندھ سولر انرجی پراجیکٹ کا اعلان کیا جس کے تحت کم آمدنی والے خاندانوں کو جولائی 2025ء تک دو لاکھ سولر کٹس مفت تقسیم کی جائیں گی۔ ان کٹس میں سولر پینلز، پنکھا، تین بلب، بیٹری بیک اپ، اور موبائل چارجر شامل ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مرکزی عمارت گزشتہ سال ہی سولر پر منتقل کر دی گئی جہاں 259 پینلز لگائے گئے جو یومیہ تقریباً 700 یونٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے بقول رواں سال صوبے میں 656 سکولز، 24 لائبریریاں اور دیگر سرکاری عمارتیں سولر پر منتقل کردی جائیں گی۔ تاہم فلیٹس کے مکینیوں کے حوالے سے کوئی اقدامات سامنے نہیں آئے۔

ایسا نہیں کہ یہاں سولر کو اپنانے کی رفتار کم ہے بلکہ بیشتر کثیرالمنزلہ عمارتیں پینلز سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ تاہم فلیٹس کے مکین ضرورت کے مطابق سولر کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ 

بلڈنگ کی چھت پر جگہ کم اور ہر فلیٹ والا سولر پینلز لگونا چاہتا ہے

سید زین وصال بتاتے ہیں کہ ان کے لیے سولر انسٹال کرانا آسان نہیں تھا۔ تمام فلیٹس کے واٹر ٹینک چھت پر ہیں جن کی وجہ سے جگہ کم رہ جاتی ہے جبکہ ہر کوئی بجلی کے بھاری بلوں سے جان چھڑانے کے لیے پینل لگانا چاہتا ہے۔ اس لیے بلڈنگ انتظامیہ سے اجازت مشکل سے ملتی ہے۔

"سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ساتھ والی بلڈنگز زیادہ اونچی ہیں جن کی وجہ سے ہماری چھت پر دھوپ کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چھت اپنی نہیں بلکہ مشترکہ ہے۔ پلیٹیں چوری ہونے کا ڈر رہتا ہے ان کے لیے ہم نے اضافی رقم خرچ کرکے چھت پر کیمرے لگوائے ہیں۔" 

تاہم سولر کمپنی 'دی فیوچر پاور' کے سی ای او عمادالدین خان بتاتے ہیں کہ انہیں فلیٹس سے چوری سے زیادہ شکایات ہوائی فائرنگ اور گولیاں لگنے سے پینلز کو نقصان پہنچنے کی موصول ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کراچی کا موسم سولر کے حساب سے بہت اچھا ہے۔ اس لیے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود سولر صارفین میں رواں سال 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہاں مسئلہ صرف آلودگی ہے جس کی وجہ سے صارفین کو مہینے میں چار بار یعنی ہر ہفتے پینلز کی صفائی کرنا پڑتی ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ فلیٹس میں سولر سسٹم کی تنصیب بہت مشکل ہوتی ہے۔ بعض چھتوں اور پینٹ ہاؤسز پر تو جگہ ہوتی ہے لیکن فلیٹس والے بیشتر لوگ گیلری میں پینلز لگواتے ہیں جہاں بمشکل ایک سے دو پلیٹس لگائی جاسکتی ہیں۔ چھوٹا سسٹم لگانا کوئی زیادہ منافع بخش ثابت نہیں ہوتا۔

سولر انرجی کے ماہر ارسلان محمود، بجلی کا سامان بنانے والی نجی کمپنی کے آپریشنز مینیجر ہیں۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ کراچی میں سولر پر منتقل ہونے والوں کی تعداد لاہور سے کم ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہاں کی اونچی عمارتیں ہیں جو دھوپ روکنے کا سبب بنتی ہے اور دوسری وجہ فلیٹ سسٹم ہے جہاں چھت پر پینلز کے لیے کم جگہ دستیاب ہوتی ہے۔

سیزر سٹرکچرز اور پارکنگ ایریاز میں سولر پینلز کی تنصیب کو رواج دینا ہو گا

ارسلان محمود کہتے ہیں کہ کراچی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ فلیٹس میں رہتا ہے جن کو سستی بجلی کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔ فوری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ فلیٹس کے پارکنگ ایریاز میں ایلیویشن سٹرکچرز بنا کر ان پر پینلز نصب کیے جائیں۔

 یوں بہت سی عمارتوں کے لیے سولر سسٹم کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور گاڑیاں بھی دھوپ سے بچیں گی۔ اسی طرح بلدیہ عظمیٰ کے اندر موجود تمام بڑے بڑے مالز کی چھتوں اور ان کے پارکنگ ایریاز کو سولر کے لیے استعمال کیا جائے۔

ان کا ماننا ہے کہ کراچی میں بڑے کمرشل پلازہ مالکان و بڑی رہائشی عمارتوں کے مکینوں کو اگر فزیبیلیٹی بنا کر دی جائے تو یہ لوگ اپنی بجلی خود بنائیں گے لیکن اس میں سب سے بڑا کردار نیٹ میٹرنگ کا ہو گا۔ یعنی اگر کے الیکٹرک آگے بڑھے تو یہ مسئلہ باآسانی حل ہوسکتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دو بلند عمارتوں کے درمیان خالی جگہ پر ایک سٹرکچر لگایا جاتا ہے جسے عام زبان میں سیزر (قینچی) سٹرکچر کہتے ہیں۔ اس سٹرکچر پر پینلز لگا کر دونوں اطراف کے لیے سولر انسٹالیشن کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ 

ارسلان محمود کا کہنا ہے کہ پاکستانی منصوبہ سازوں کو دوسرے ممالک سے سیکھنا چاہیے۔ سعودی عرب سولر پلانٹس لگا کر دارالحکومت ریاض کو مکمل طور پر گرین انرجی پر منتقل کر رہا ہے۔

"ہمارے ہاں کراچی کے اندر اور اطراف میں خالی زمینیوں کو سولر پارکس و پلانٹس کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور کے الیکٹرک یا کوئی دوسری نجی کمپنی جائنٹ وینچر کے ذریعے سولر پراجیکٹ شروع کر سکتی ہے۔"

ان کے بقول شہر کے اردگرد سولر پارکس کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال آسان ہو گی۔ بجلی کی ٹرانسمشن پر اخراجات کم ہوں گے اور سستی بجلی بھی دستیاب ہوگی۔

کراچی میں نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد ساڑھے چھ ہزار ہو گئی، مزید اضافے کی توقع 

امپورٹر کمپنی آئی ای سولر انرجیز کے سی ای او سہیل غوری کا ماننا ہے کہ کراچی میں انڈسٹری تیزی سے گرین انرجی کی طرف جارہی ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر، سیمنٹ، الیکٹرونکس اور آٹوموبائل انڈسٹری سمیت سب بین الاقوامی سٹینڈرڈز اور سرٹفیکیشنز کے لیے سولر کا رخ کررہی ہیں جس کا ملکی ایکسپورٹس کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت خاص طور پر ایک قدم آگے ہے۔

ان کے خیال میں کراچی میں سولر کنزیومرز کی تعداد حوصلہ افزا ہے۔اعدادوشمار پر ںظر ڈالتے ہوئے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق یہاں گھریلو صارفین اس وقت تک دو ہزار میگاواٹ کے سولر سسٹم لگوا چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ نیٹ میٹرنگ پر آ رہے ہیں اور کچھ آف گرڈ ہیں۔

ارسلان محمود کا ماننا ہے کہ 'کے الیکٹرک' نجی ادارہ ہونے کی وجہ سے اس کی نیٹ میٹرنگ پالیسی سرکاری ڈسکوز کی نسبت آسان ہے۔ اسی لیے یہاں نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد جو 2023ء میں ساڑھے چار ہزار تھی وہ اب لگ بھگ ساڑھے چھ ہزار تک پہنچ گئی ہے اور مستقبل میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں سولرائزیشن میں اضافے کا رحجان 2028ء تک جاری رہے گا۔ اگر پارکنگ ایریاز اور سیزر سٹرکچرز پر سولر پلیٹیں لگانے کا رواج پا جاتا ہے تو پھر کراچی میں سولر کی دیکھ بھال کا سب سے زیادہ کام ہو گا اور یقیناً ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا۔

تاریخ اشاعت 2 جون 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نور فاطمہ گزشتہ چھ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور مختلف نیوز چینل میں کام کر چکی ہیں۔ وہ سماجی و معاشرتی اور جنسی تفریق کے مسائل پر لکھتی ہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے ماس کمیونیکشن میں ایم اے کر رکھا ہے۔

thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.