تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

جی آر جونیجو

ہریش کمار اپنے 14 سالہ بیٹے شنکر بھیل کے ساتھ بھٹے پر اینٹیں جمع کرنے میں مصروف تھے۔ شنکر نے پچھلے سال پانچویں پاس کرتے ہی سکول چھوڑ دیا اور اپنے والد کے ساتھ مزدوری پر لگ گئے۔ دونوں باپ بیٹا مل کے یہاں سے ہزار پندرہ سو روپے دیہاڑی کما لیتے ہیں۔

 ضلع تھرپارکر کے گاؤں ڈیسر ڈھانی کے رہائشی ہریش کمارنے چھ سال کی عمر میں بیٹے کو سکول بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ ہر باپ کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ ان بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے مگر یہ ممکن نہیں ہو پایا۔

" پرائمری سکول تو ہمارے گاؤں میں ہے جہاں سے شنکر نے پانچویں پاس کر لی لیکن مڈل سکول گھر سے 45 کلومیٹر دور کلوئی شہر(تحصیل ہیڈکوارٹر) میں ہے۔ میں اسے وہاں پڑھانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا یہ میرے بس کی بات نہیں۔"

ہریش بتاتے ہیں کہ وہ آٹھ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کے واحد کفیل ہیں، بچوں سمیت سارا دن بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں تب کہیں گھر کا چولہا جلتا ہے۔

" یہ صرف میری کہانی نہیں یہاں میرے بیشتر دوستوں اور رشتہ داروں کا یہی حال ہے۔ ہم بچوں کو شہروں میں کیسے پڑھا سکتے ہیں؟ "

مڈل و ہائی سکول دیہی آبادی سے کتنا دور ہیں

موضع سنسس  2020ء کے مطابق سندھ میں دیہات سے مردانہ مڈل اور ہائی سکول کا اوسط فاصلہ 11 سے 12 کلومیٹر جبکہ زنانہ مڈل اور ہائی سکول کا اوسط فاصلہ 11 سے 13 کلومیٹر ہے۔

تاہم ضلع تھرپارکر میں دیہات سے مردانہ مڈل اور ہائی سکو کا اوسط فاصلہ 21 سے 28 کلومیٹر جبکہ زنانہ مڈل اور ہائی سکول کا اوسط فاصلہ 24 سے 28 کلومیٹر بنتا ہے۔

 یہ رپورٹ تھرپارکر میں تعلیمی سہولیات کے فقدان کا نقشہ واضح کرتی ہے جبکہ پانچ سال بعد بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

شنکر بھیل کہتے ہیں کہ اگر ان کے گاؤں میں یا قریب کوئی بڑا سکول ہوتا تو آج وہ بھی پڑھ رہے ہوتے۔

" میں نے سوچا تھاکہ پڑھ لکھ کر تعلیمی افسر بنوں گا اور یہاں کے سب لوگوں کو پڑھاؤں گا۔ لیکن نا صرف میرا خواب ادھورا رہ گیا بلکہ یہاں سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم بھی چھوٹ گئی ہے۔"

خواندگی اور ڈراپ آؤٹ کا تناسب

حالیہ مردم شماری(2023ء) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں خواندگی کی مجموعی شرح 60.65 فیصد ہے۔ یہاں مردوں میں یہ تناسب 68 فیصد جبکہ خواتین میں 52.84 فیصد ہے۔

 سندھ میں مجموعی شرح خواندگی 57.54  فیصد ہے جہاں مرد 64.23 فیصداور خواتین 50.21 فیصد خواندہ ہیں۔

محکمہ تعلیم سندھ کا ڈائریکٹوریٹ آف مانیٹرنگ اینڈ ایویلیویشن  بتاتا ہے کہ صوبے میں رجسٹرڈ (11 اکتوبر 2024ء تک) سکولوں کی کل تعداد لگ بھگ 41 ہزار ہے جن میں 41 لاکھ 45 ہزار219 بچے زیر تعلیم ہیں۔

 تاہم 20-2019ء میں داخلہ مہم (انرولمینٹ ڈرائیو) کے دوران صوبے میں یہ تعداد 45 لاکھ 61 ہزار 140 ہو گئی تھی۔

اس ڈائریکٹوریٹ کی آفیشل سائٹ کے مطابق صوبے کے سکولوں میں جہاں اساتذہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار 253 بتائی گئی ہے وہاں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ 41 ہزار سکولوں میں سے صرف تقریباً 21 فیصد میں ہی بنیادی سہولیات دستیاب میں ہیں۔

 دی سٹیٹ آف چلڈرن پاکستان کی ویب سائٹ آخری مردم شماری کے حوالے سے بتاتی ہے کہ ملک میں پانچ سے 16 سال کے بچوں کی کل آبادی تقریباً سات کروڑ 12 لاکھ 70 ہزار ہے جن میں سے تقریباً دو کروڑ 53 لاکھ73 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

صوبہ وار اگر دیکھا جائے تو پنجاب کے بعد سندھ کے سب سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں یعنی صوبے میں 16 سال تک کی عمر کے ایک کروڑ 68 لاکھ 91 ہزار بچوں میں سے تقریباً 78 لاکھ 18 ہزار بچے سکول نہیں جاتے۔

سندھ میں 66 لاکھ 16 ہزار 348 بچے تو ایسے ہیں جو کبھی سکول گئے ہی نہیں۔ ان میں 31 لاکھ آٹھ ہزار 188 لڑکے ، 35 لاکھ سات ہزار 875 لڑکیاں اور 285 ٹرانسجنڈر شامل ہیں۔

تاہم صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ کہتے ہیں کہ سندھ حکومت اگرچہ وفاقی حکومت کے اعدادو شمار مانتی ہے تاہم ان کے حساب سے سندھ میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 50 سے 55 لاکھ کے درمیان بنتی ہے۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں تمام سکولوں کی پروفائلنگ کی گئی ہےجن میں سرکاری و نجی سکول، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکول اور مدارس بھی شامل ہیں۔

"اس انرولمینٹ کے تحت سکول سے باہر بچوں کی تعداد 50 سے 55 لاکھ کے درمیان بنتی ہے جبکہ وفاقی ڈیٹا کی تعداد یعنی 78 لاکھ بہت زیادہ بتائی گئی ہے۔تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے مگر وفاق کا نمبر بہت زیادہ ہے۔"

 وہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی اعدادوشمار میں دوسری غلطی ڈراپ آؤٹ (پرائمری کے بعد بچوں کے سکول چھوڑنے کا تناسب) شرح کی ہے جو 13 سے 14 فیصد بتایا گیا ہے۔

"ہم کہتے ہیں کہ سندھ میں ڈراپ آؤٹ 54 فیصد ہے۔ ہمارے پاس 36 ہزارکے قریب پرائمری سکول ہیں اور باقی تقریباً چار ہزارسے زائد پوسٹ پرائمری ہیں۔ پوسٹ پرائمری سکولوں کا گھروں سے فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھ جاتی ہے۔"

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کم مڈل سکولز کی وجہ سے بچے چھٹی میں داخل نہیں ہو پاتے۔ "آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہر سال 70 لاکھ نئے بچے آ رہے ہیں جبکہ انفراسٹرکچر  اتنا بڑا نہیں جو تمام بچوں کو سنبھال سکے۔"

 ڈراپ آؤٹ کا حل کیا ہے؟

صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ اب سکولوں کی اپگریڈیشن کے ساتھ ان کی زیادہ توجہ نان فارمل ایجوکیشن سنٹرز کے قیام پر ہے جہاں ایکسلیریٹیڈ لرننگ پروگرام (اے ایل پی) کے تحت سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم دی جا ئے گی۔

"یہ نان فارمل سنٹر 'آپریٹر ماڈل' کے مطابق غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے چلیں گے اور ان کے نصاب میں ٹیکنکل ایجوکیشن بھی شامل ہو گی۔ جو بچہ سکول واپس نہیں آ سکتا ہے وہ اے ایل پی کے تحت تعلیم اور ٹیکنیکل تربیت حاصل کرے گا۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

ٹنڈو محمد خان میں 15 سال سے زیر تعمیر پبلک سکول جس کا کوئی وارث نہیں؟

 جاپانی سرکاری ادارے سے وابستہ ایجنسی جائکا (جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی) نان فارمل ایجوکیشن سنٹرز کے قیام میں سندھ حکومت کی معاونت کر رہی ہے۔

جائکا کے صوبائی کوآرڈینیٹر پریم ساگر بتاتے ہیں کہ ان کا ادارہ بچوں کو کم مدت میں مڈل تک پڑھانے اور فنی تربیت دینے میں مدد دے رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تھرپارکر تعلیمی لحاظ سے انتہائی مشکل خطہ ہے۔ یہاں سڑکوں کی عدم موجودگی اور آبادیوں کے درمیان فاصلے زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت مسائل ہیں جن کی وجہ سے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو سندھ میں مجموعی طور پر چار ہزار سے زائد پوسٹ پرائمری سکول ہیں۔ مگر زیادہ فاصلوں کے باعث سکول میں بہت کم بچے جاتے ہیں خاص طور پر بچیاں دور کے سکول میں نہیں جا سکتیں۔"

"اس مسئلے کا حل ہمارے خیال میں نان فارمل ایجوکیشن سنٹرز  ہیں جو گھروں کے قریب ہوں۔ اس سے بچیوں کے تحفظ (سیفٹی) کے ساتھ سکول تک رسائی کا مسئلہ حل جائے گا اور بہتر تعلیم بھی ملے گی۔"

ڈائریکٹر لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن عبدالجبار مری بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت تین ہزار نان فارمل سنٹر بنا رہی ہے۔اب جتنے بھی بچے سکولوں سے باہر ہیں سب کو ان مرکز میں داخل کرایا جائے گا۔
 
"ہم سنٹرز کے قیام اور آگاہی مہم کی ابتدا پانچ اضلاع سے رہے ہیں جن میں تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپورخاص، جیکب آباد اور ضلع کشمور شامل ہیں۔ اگلے مرحلے میں صوبے کے تمام باقی اضلاع میں مراکز بنائے جائیں گے۔"

تاریخ اشاعت 15 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.