آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

postImg

نعیم احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

نعیم احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

اڑتیس سالہ مریم، فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ کی رہائشی ہیں جو شوہر کی ناگہانی موت کے بعد اپنے چار بچوں کی تنہا کفالت کر رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر شکیل مسیح 15 جولائی کی صبح کو انہیں بتا کر گئے کہ وہ واپسی پر گھر کا راشن لیتے ہوئے آئیں گے۔

"بچے بھوکے بیٹھے تھے اور میں شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ سوچا اتنے دن بعد انہیں کام ملا ہے تو بچوں کے لیے آج کچھ اچھا بنا لیں گے لیکن پھر خبر ملی کہ وہ مین ہول میں زہریلی گیس سے دم توڑ گئے ہیں۔"

اس حادثے کے بعد سے مریم اپنی گزر بسر اور بچوں کی پرورش کے لیے مختلف گھر میں کام کر رہی ہیں۔

بڑے شہر ہوں یا چھوٹے، جدید طرز زندگی میں بہتر سیوریج سسٹم ضروری ہے لیکن پاکستان میں آج بھی سیوریج ڈرینوں، سیور لائنوں یا مین ہولز (گٹروں )کی صفائی کا زیادہ تر کام سیور مین یا سینیٹری ورکر مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ہاتھوں سے کرتے ہیں۔

سینیٹری ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سٹیزن کمیشن فار ایکویلٹی اینڈ ہیومن رائٹس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 100 سینٹری ورکر مین ہولز میں حادثات کے دوران مارے جاتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ 24 کارکنوں کی اموات ہوئیں جن میں سب سے زیادہ آٹھ کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ یہاں جولائی میں بھی دو واقعات ہوئے جن میں تین ورکر ہلاک ہوئے جس سے یہ تعداد اب تک 11 ہو چکی ہے۔

"رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران کراچی اور لاہور میں چار چار، ٹنڈو محمد خان، حیدر آباد اور سرگودھا میں تین تین اور مظفر گڑھ میں ایک سینٹیشن ورکر کام کے دوران مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث مارے گئے۔"

واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا) فیصل آباد کے ترجمان قدیر سکندر بتاتے ہیں کہ سیور لائنوں کی صفائی کے لیے عملے کو رسہ، سیفٹی ہارنس، گیس ماسک اور پائپ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ مین ہول(گٹر) میں اترنے والے کارکن کی ہنگامی مدد کے لیے دو سے تین اہلکار موقع پر موجود رہتے ہیں۔

" جہاں سیور لائن کی صفائی کرنا ہوتی ہے وہاں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق علاقہ نگران (سپروائزر) کو متعلقہ سب ڈویژن سے مطلوبہ حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا ہے اور کام کے دوران کارکن کی سیفٹی اور حفاظتی سامان کے استعمال کو یقینی بنانا سپروائزر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ سیور لائنوں کی صفائی کے دوران کسی حادثے کی صورت میں محکمانہ انکوائری کی جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنائی جا سکے۔

تاہم وہ ماضی کے کسی سیور لائن حادثے کی کوئی انکوائری رپورٹ یا واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات کا دستاویزی ثبوت پیش نہ کر سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور دیگر اداروں کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ سیور لائنوں کی صفائی کرنے والے اپنے عملے کی واسا اور 1122 سے نہ صرف تربیت کرائیں بلکہ ان کو حفاظتی سامان کی فراہمی بھی یقینی بنائیں۔

مگر فیصل آباد میں واسا ملازمین کی تنظیم جمہوری ورکرز یونین کے صدر میاں محمد مقصود لوک سجاگ سے گفتگو میں حفاظتی سامان اور عملہ صفائی کی تربیت کے معیار سے غیرمطمئن دکھائی دیے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سیور لائنیں صاف کرنے والے عملے کو گیس ماسک اور آکسیجن سلنڈر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جو محکمے کے پاس دستیاب ہی نہیں ہیں۔

"گیس ماسک کے نام پر 20 فٹ لمبے پائپ سے منسلک عام ماسک دیا جاتا ہے جسے پہن کر مین ہول میں اترنے والے کارکن کا ویسے ہی سانس بند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ وہ ایم ڈی واسا سے تفصیلی میٹنگ میں مطالبہ کر چکے ہیں کہ آکسیجن سلنڈر مہیا کیے جائیں اور مین ہول میں اترنے والے 'سیور ڈائیورز' کی ریسکیو 1122 سے ٹریننگ کرائی جائے۔

"اصولی طور پر سیور مین کے گٹر میں اترنے پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ یہ خطرناک اور غیرانسانی ہے۔ لیکن اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو کم از کم ان کی خاطر خواہ تربیت اور حفاظتی انتظامات تو یقینی بنائے جائیں۔"

انہوں نے بتایا کہ واسا فیصل آباد میں تقریباً دو ہزار سیورمینوں کی ضرورت ہے لیکن صرف 730 کام کر رہے ہیں جن میں سے 180 حال ہی میں یومیہ اجرت پر بھرتی کیے گئے ہیں۔

صدر ورکرز یونین کا کہنا تھا کہ غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کے باعث سیورمین سانس، جلدی امراض کے علاوہ زہریلی گیس کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کانچ، تیز دھار اشیاء سے زخمی ہونے یا زہریلے کیڑوں کے کاٹنے یا ڈسنے کے خطرہ بھی رہتا ہے۔

" ورکرز کے اہل خانہ کی صحت بھی محفوظ نہیں رہتی لیکن انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ویکسی نیشن، فری میڈیکل اور علاج کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ہمیں مرنے والے سینیٹری ورکر کے واجبات کے لیے بھی دفتروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔"

ورک مینز کمپنسیشن ایکٹ 1923ء لازم قرار دیتا ہے کہ کام کے دوران حادثے میں متاثرہ کارکن کو قانون کے مطابق معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

"سیکشن 12 کے تحت اگر کسی ورکر کو عارضی طور پر یا ٹھیکیدار کے ذریعے ملازم رکھا جاتا ہے تو ان کو بھی معاوضے کی ادائیگی ضروری ہے۔"

تاہم واسا فیصل آباد کی طرف سے معاوضہ صرف مستقل ملازمین کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ ورک چارج ملازمین کی امداد کا انحصار صوبائی حکومت کی گرانٹ ملنے پر ہوتا ہے۔

قبل ازیں واسا ترجمان نے دعویٰ کیا کہ سینیٹری ورکرز کو سیفٹی آلات کے استعمال اور حفاظتی اقدامات کی تسلسل سے تربیت دی جاتی ہے۔ ان کے بقول حال ہی میں اس حوالے سے میونسپل کارپوریشن ہال میں ایک سیمینار بھی کرایا گیا تھا۔

لیکن میاں مقصود نے ترجمان کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیورمین بھرتی کرتے وقت یا ملازمت کے دوران انہیں کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔

"بھرتی میں صرف یہ چیک کیا جاتا ہے کہ سیورمین گٹر میں اتارنے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ اسے گٹر میں اتار کر اس کی تصدیق بھی کی جاتی ہے۔ اس کے سوا کسی بات پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔"

وہ بتاتے ہیں کہ تحصیلوں میں حالات فیصل آباد شہر سے زیادہ ابتر ہیں جہاں سینٹری ورکرز کو حفاظتی سامان کے نام پر صرف ایک رسہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ رسہ سیورمین اپنی کمر سے باندھ کر گٹر میں اترتا ہے اور ہنگامی صورتحال میں اوپر کھڑے اہلکار اسے کھینچ کر باہر نکال لیتے ہیں۔
مگر ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا۔

دو ماہ پہلے بیالیس سالہ شکیل مسیح ایک نجی رہائشی کالونی کی سیور لائن کی صفائی کے لیے مین ہول (گٹر ) میں اترے تھے جہاں زہریلی گیس سے دم گھٹنے کے باعث موقع پر ہی انتقال کر گئے تھے۔ شکیل کو بچانے کی کوشش میں ان کے دوست سہیل مسیح بھی دم توڑ گئے تھے۔

محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پنجاب نے سیور مینوں کے لیے درکار حفاظتی سامان میں 17 آلات و اشیاء شامل کر رکھی ہیں۔

اس فہرست میں کمپریسڈ ائیر لائن سسٹم، سنگل فیز پورٹیبل ائیر کمپریسر، فریش ائیر ریسپریٹر، ائیر فین، ملٹی باڈی ریسکیو ہارنس، سیفٹی بیلٹ، ملٹی پل گیس ڈیٹیکٹر، ٹرائی پاڈ، ہینڈ وینچ، ہیڈ لیمپ، ائیربلور اینڈ ایگزاسٹ، فلڈ لائٹ ود سٹینڈ، پورٹیبل جنریٹر، ڈرائی سوٹ، سیفٹی شوز، سیفٹی ہیلمٹ، لانگ شوز، ہینڈ گلوز اور ٹارچ شامل ہیں۔

ضلع فیصل آباد میں واسا، میٹروپولیٹن کارپوریشن کے علاوہ سات میونسپل کمیٹیاں، پانچ تحصیل کونسلز اور پانچ ٹاون کمیٹیاں آتی ہیں۔ ان سب اداروں کا عملہ تصدیق کرتا ہے کہ ان کے پاس محکمے کی فہرست کے مطابق حفاظتی سامان دستیاب نہیں ہے۔

میٹروپولیٹن کارپوریشن کے چیف آفیسر ظفر وٹو نے لوک سجاگ کے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ سیور لائنوں کی صفائی واسا کی ذمہ داری ہے اس لیے کارپوریشن میں سینٹیشن ورکرز موجود نہیں ہیں۔

"تاہم کارپوریشن کے زیر انتظام سیوریج لائنوں کی مرمت و صفائی کے دوران حفاظتی انتظامات سے متعلق ضوابط(ایس او پیز) موجود ہیں جن پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔"

لیکن میٹروپولیٹن کارپوریشن کا فیلڈ سٹاف مختلف کہانی سناتا ہے۔ ان کے مطابق 13 جون کو ڈجکوٹ میں سیور لائن کی صفائی کے دوران حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکتوں کے بعد محکمہ بلدیات نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا۔

اس بات کی تصدیق میٹروپولیٹن کارپوریشن کے چیف آفیسر کی طرف سے فراہم کردہ ایس او پی سے متعلق نوٹیفکیشن سے بھی ہوتی ہے جس پر 14 جون کی تاریخ درج ہے۔اس وقوعہ سے قبل کارپوریشنز میں اس حوالے سے ضوابط تو کیا گائیڈ لائنز ہی موجود نہیں تھیں۔

سٹیزن کمیشن فار ایکویلٹی اینڈ ہیومن رائٹس کے رکن نعیم صادق کہتے ہیں کہ سینٹری ورکرز کے طور پر کام کرنے والے 95 فیصد لوگوں کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہے جس کی وجہ سے انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ گٹروں کی ہاتھوں سے صفائی پر مکمل پابندی لگا کر مقامی طور پر تیار کردہ سکشن، جیٹنگ اور گرابنگ مشینیں استعمال کی جائیں۔

"ناگزیر حالات میں لائن کو دستی صاف کرنا ضروری ہو تو سیور مینوں کو مکمل باڈی سوٹ، ربڑ کے جوتے، دستانے، حفاظتی گوگلز، ہیلمٹ، مکمل باڈی ہارنس اور تازہ ہوا کے لیے ایک وینٹیلیشن بلور کی فراہمی لازم قرار دیا جائے۔"

"سیور مین کے اترنے سے قبل گٹر یا نالے کے اندر آکسیجن کی سطح کو ناپا جانا چاہیے اور زہریلی گیسوں کی عدم موجودگی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ سیور لائن میں ورکر کی موت کا براہ راست ذمہ دار متعلقہ ادارے کے سربراہ کو قرار دیا جانا چاہیے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ سینٹری ورکرز کو صحت اور حفاظتی اقدامات کی باضابطہ تربیت کے ساتھ ہر چھ ماہ بعد ریفریشر کورسز کرائے جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن  آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں سینٹیشن ورکرز مستقل کرنے، گٹروں کی ہاتھوں سے صفائی اور دیہاڑی پر یہ کام کرانے کا سلسلہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

روجھان مزاری، سینٹری ورکر کی ہلاکت: 'حالات کو مقدر کا لکھا سمجھ کر خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں'

ایچ آر سی پی نے حادثے کی صورت میں سینٹری ورکرز کے مستقل یا جز وقتی ملازم ہونے سے قطع نظر ورثا کو معاوضے کا حق دار قرار دینے پر بھی زور دیا ہے۔

اس رپورٹ میں پالیسی فریم ورک تجویز کیا گیا ہے جس کے تحت دس یا اس سے زیادہ سینٹیری ورکرز کو براہ راست یا ٹھیکیداروں کے ذریعے ملازمت دینے والے تمام آجروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ دوران ملازمت ورکر کی قدرتی موت، معذوری، حادثاتی موت اور زخمی ہونے کا بیمہ کرائیں۔

"ادارہ بیمہ چاہے خود کرے یا انشورنس کمپنی کے ذریعے کرائے تمام صورتوں میں وہی پریمیم کی ادائیگی اور انتظامی امور کا ذمہ دار ہو۔ وہ رقم جس کے لیے سیور مین کا بیمہ کیا جائے وہ ورک مینز کمپنسیشن ایکٹ میں بیان کردہ معاوضے کی رقم سے کم نہیں ہونی چاہیے۔"

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت، متحدہ عرب امارات، ترکی اور ملائیشیا سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پزیر اور یافتہ ممالک میں کئی برس سے مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں سینیٹیشن ورکرز کو سماج میں امتیازی سلوک کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پاکستان میں عام ہے۔

 بھارت نے پہلی بار1993ء میں ڈرینوں اور سیوریج لائنوں میں اتر کر صفائی پر پابندی عائد کی تھی۔سپریم کورٹ آف انڈیا بھی 2014ء میں گٹروں کی ہاتھوں سے صفائی کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔

 بھارت میں 2013ء میں گٹروں یا لیٹرینوں کی مینوئل صفائی کرنے والوں کے طور پر ملازمت کرنے پر پابندی لگائی گئی اور ایسے افراد کی بحالی کا ایکٹ (PEMSR) منظور کیا گیا تھا جس کا مقصد ان کے خاندانوں کی بحالی کے اقدامات یقینی بنانا ہے۔

پاکستان کے آئین  کا آرٹیکل 37 اور 38 اپنے شہریوں خاص طور پر غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی بہبود کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں جبکہ قومی سماجی تحفظ کی حکمت  عملی (2007ء) کا مقصد بھی ایسے طبقات کے حالات بہتر بنانا ہے۔

تاہم ملک میں تاحال سماجی تحفظ کا کوئی ایسا منصوبہ متعارف نہیں کرایا جا سکا جو سینیٹیشن ورکرز کے تحفظ کو خاص طور پر یقینی بنائے۔

تاریخ اشاعت 29 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.