گلگت بلتستان میں سرکاری محکموں کے افسر 'معلومات کے خزانے' پر نگران بن کر بیٹھ گئے

postImg

فہیم اختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گلگت بلتستان میں سرکاری محکموں کے افسر 'معلومات کے خزانے' پر نگران بن کر بیٹھ گئے

فہیم اختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

گلگت بلتستان کے محمد ذاکر پچھلے گیارہ سال سے صحافت کر رہے ہیں۔ اس عرصہ میں ان کے لیے خبروں کے پیچھے حقائق کی تلاش کا کام کبھی آسان نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی مسائل سے متعلق بہت سی خبروں کے لیے انہیں سرکاری محکموں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو عام طور پر معلومات دینے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں معلومات تک رسائی کے قانون اور اس حوالے سے محکموں کے قیام کے بعد صحافیوں کی یہ مشکل قدرے آسان ہو گئی ہے لیکن گلگت بلتستان میں ایسا کوئی قانون وجود نہیں رکھتا۔

ذاکر بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں صحافیوں کو سرکاری محکموں سے معلومات لینے کے لیے عام طور پر ذاتی تعلقات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ معلومات فراہم کرنے والا شخص اپنی بات سے مکر جاتا ہے جس سے ان کے لیے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

گلگت بلتستان پاکستان کا واحد علاقہ ہے، جہاں پر معلومات تک رسائی کا کوئی قانون سرے سے موجود نہیں ہے۔ 2009 کو صدارتی حکم نامے 'گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر' کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی کو تقریباً 14 سال ہوچکے ہیں۔ اس قانون کے تحت ابتدائی طور پر گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو 63 امور پر قانون سازی کے اختیارات دیے گئے تھے۔

 بعد ازاں 2018 میں دوبارہ جاری کردہ حکم نامے کے تحت اسمبلی کو بااختیار بناتے ہوئے اس کے قانون سازی سے متعلق اختیارات بھی بڑھادیے گئے۔ اسمبلی سے اب تک 79 قوانین منظور ہوچکے ہیں تاہم ان میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں جس کے ذریعے معلومات تک آسان رسائی کا حق دیا گیا ہو۔

پاکستان کی قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں معلومات تک رسائی کے حق کے متعلق قانون سازی کی جا چکی ہے۔ اس قانون کے تحت شہری اپنی درکار معلومات کے حصول کے لیے محکموں کو درخواست دے سکتے ہیں اور معلومات فراہم نہ کرنے والے حکام کے خلاف ایک مخصوص کمیشن میں ضابطے کی کارروائی کیلئے درخواست دی جاسکتی ہے۔

گلگت یونین آف جرنلسٹس کے صدر خالد حسین کہتے ہیں کہ صحافیوں کے امور سے متعلق مختلف معاملات پر قانون سازی کی جدوجہد انہی کی یونین نے شروع کی تھی لیکن اس معاملے میں سیاسی مداخلت کے باعث قانون سازی مکمل نہیں ہوسکی۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ سابق حکومت کے آخری اجلاس میں سپیکر نے اس قانون کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔

اس الزام پر جب سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید سے بات کی گئی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شعبہ غالباً فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کا ہے جبکہ سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اسمبلی اس حوالے سے مکمل بااختیار ہے اور دیگر صوبوں کی طرح یہاں بھی اس پر قانون سازی کی جاسکتی ہے۔

سابق حکومت میں بطور وزیر اطلاعات خدمات انجام دینے والے فتح اللہ خان سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ چند قوانین سلیکٹڈ کمیٹیوں کے سپرد کیے گئے ہیں جنہیں وہاں سے منظور کروا کے دوبارہ اسمبلی میں لایا جائے گا۔

بلدیاتی اداروں کے قانون کا ڈرافٹ بنانے میں معاونت کرنے والے گلگت بلتستان پالیسی انسٹیٹیوٹ کے کوآرڈینیٹر الطاف حسین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے علاوہ جی بی گورنمنٹ آرڈر کے آرٹیکل 20 کے تحت بھی معلومات تک رسائی کا عوام کو حق دیا گیا ہے کہ وہ حکومت سے اپنی مطلوبہ معلومات لے سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس بارے میں الگ قانون موجود نہیں، اسی لئے لوگ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور جی بی گورنمنٹ آرڈر 2018 کے تحت حاصل اس حق سے مستفید نہیں ہوپاتے۔

"جب ہم دفتروں میں جاکر معلومات تک رسائی مانگتے ہیں تو ہمیں جواب دیا جاتا ہے کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے کئی بار یہ سوال اٹھایا کہ کوئی ایسا قانون ہے جو معلومات نہ دینے پر زور دیتا ہے۔ بنیادی طور پر قانون نہ ہونے کی دلیل میں وزن نہیں اور لوگوں کو اس حوالے سے علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ قانون ہے کیا چیز، قانون بڑا مشکل سا سبجیکٹ ہے اور ہر شہری اس سے آگاہی نہیں رکھتا۔"

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے چند مرتبہ حکام سے پوچھا کہ یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ کوئی افسر لوگوں کو معلومات نہیں دے گا۔ سرکاری حکام بھی نہیں جانتے کہ وہ کسی بنیاد پر معلومات کی فراہمی سے انکار کرتے ہیں۔

الطاف حسین کا خیال ہے کہ قانون نہ ہونے سے بدعنوانی اور من مانی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اس معاملے میں درست راستہ یہی ہے کہ گلگت بلتستان میں معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق جامع قانون بنایا جائے اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'چارہ گر کو چارہ گری سے گریز ہے'، خیبرپختونخوا میں معلومات کی فراہمی کا ذمہ دار محکمہ معلومات دینے سے گریزاں

خاتون صحافی شیرین کریم کہتی ہیں کہ معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق گلگت بلتستان تک نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو سرکاری دفاتر جواب ہی نہیں ملتا۔ یہ ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں یا تو وفاقی قانون برائے حصول معلومات کو توسیع دی جائے یا پھر گلگت بلتستان اسمبلی اپنا قانون بنا کر گلگت بلتستان میں اس پر عملدرآمد  یقینی بنائے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، گلگت بلتستان حکومت نے اس ضمن میں قانون سازی کیلئے پنجاب حکومت سے تعاون مانگا تھا جس پر پنجاب کے چیف انفارمیشن کمشنر مقبول قادر شاہ نے 2021 میں گلگت بلتستان دورہ کیا جہاں متعلقہ حکام کو اس حوالے سے بریفنگ دی گئی تھی، تاہم دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر قابلِ ذکر کام نہیں ہو سکا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ اطلاعات شمس الرحمٰن نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں سرکاری سطح پر صحافیوں کی فلاح و بہبود اور انہیں درپیش قانونی مسائل پر کام ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے بہت جلد اسمبلی میں قوانین کی منظوری دی جائے گی جس کے بعد امید ہے کہ صحافیوں کے تحفظات رفع ہو جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 29 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فہیم اختر گلگت بلتستان کے مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا اور کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.