"دنیا بھر میں بچے صبح کو سکول جاتے ہیں لیکن ہماری لڑکیاں نیند سے جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ گھر میں پینے کو پانی نہیں ہوتا اور اسے پورا کرنا خاندان کی عورتوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔"
یہ کہنا ہے ضلع مہمند کی رہائشی رابعہ کا جن کا گاؤں 'بنگلو کلے' تحصیل ہیڈ کوارٹر یکہ غنڈ سے 20 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے علاقے میں بجلی ہے نہ پینے کا صاف پانی جس کے لیے یہاں خواتین گھڑے سر پر اٹھائے روزانہ گھنٹوں پیدل سفر کرتی ہیں۔ انہیں گھر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔
مہمند ہی کی تحصیل صافی کے گاؤں زیارت میں فہمیدہ گدھے کو ہانکتی چلی آ رہی ہیں جس پر تین گیلن پانی لدا ہے۔ انہوں نے خود بھی پانی کے دو مٹکے (ایک سر اور دوسرا بغل میں) اٹھا رکھے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ دریائے سوات یہاں سے صرف سات کلو میٹر پر ہے مگر گاؤں میں پینے کو پانی نہیں۔ لوگ بہت تکلیف میں ہیں لیکن عورتوں کی کون سنتا ہے؟
"علاقے میں ٹیوب ویل ہیں نہ کوئی سرکاری واٹر سپلائی سکیم۔ کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کنویں کھود کر سولر پلیٹیں لگا رکھی ہیں۔ ہم وہیں سے پانی لیتے ہیں۔"
صرف تحصیل یکہ غنڈ اور صافی ہی نہیں، گرمیوں میں پانی کی قلت کے باعث غلنئی اور گنداؤ کے دیہات کا یہ حال ہوتا ہے کہ لوگ لوئر مہمند کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

دو دریاؤں کے درمیان پیاسے لوگ، سکولوں تک میں پانی دستیاب نہیں
دریائے کابل اور دیائے سوات کے درمیان واقع ضلع مہمند کے لوگ ماضی میں بارش سے ری چارج ہونے والے روایتی کنووں اور چشموں کا پانی استعمال کرتے تھے جو ناصرف پینے بلکہ ان کی کھیتی باڑی کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔
پھر آبادی بڑھنے کے ساتھ جنگلات کم ہوتے چلے گئے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی نمایاں ہونے لگے۔ اب اس ضلعے کی آبادی لگ بھگ پانچ لاکھ 54 ہزار ہو چکی ہے جس کو پانی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
انٹرنیشنل کنزویشن آف نیچر (آئی سی یو این) کی ایک رپورٹ کے مطابق مہمند میں زیرزمین پانی کی سطح (واٹر ٹیبل) اوسطاً 94 فٹ تک نیچے جا چکی ہے۔ یہاں زیرزمین پانی کی کوالٹی بھی اچھی نہیں جبکہ ضلعے کی 67 فیصد آبادی کنووں کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ضلع مہمند میں کنووں کے بعد پانی کی دستیابی کا دوسرا بڑا ذریعہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ کا واٹر سپلائی سسٹم ہے جو عام طور پر شہری علاقوں تک محدود ہے۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چندہ کی پرنسپل ماہ رخ ظاہر کلائمیٹ چینج کے حوالے سے بھی متحرک رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مہمند کے کئی علاقوں میں تو پانی بالکل ہی نہیں جس کی کی وجہ سے بعض دیہات ویران ہو گئے ہیں۔
کچھ آبادیوں میں لوئر مہمند سے واٹر سپلائی کا سسٹم شروع کیا گیا ہے لیکن وہاں بھی پانی دو تین روز بعد چند منٹوں کے لیے آتا ہے جس سے ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہاں سکولوں تک میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ اکثر بچے گھروں کا پانی بھرنے کے لیے سکول ہی نہیں آتے اور جو آتے ہیں وہ بھی واپس جا کر بالٹیاں پکڑے سرکاری پانی کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔

مہمند میں شرح خواندگی پہلے ہی کم ہے، پانی کی قلت تعلیم میں مزید رکاوٹ بن چکی
مہمند کے ایک سرکاری سکول کی ٹیچر سنبل معاذ کہتی ہیں کہ پانی کی قلت یہاں خواتین خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم وصحت کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ ایک تو یہاں تعلیم پہلے ہی کم ہے، اوپر سے مائیں اپنی بیٹیوں کو سکول کی بجائے پانی کے لیے ساتھ لے جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔
آخری مردم شماری(2023ء) کے مطابق ضلع مہمند میں خواندگی کی شرح تقریباً 31 فیصد ہے جبکہ عورتوں میں صرف 15 فیصد ہے۔
اگر اس ضلع کے پانی کی قلت کا شکار علاقوں کو دیکھا جائے تو تحصیل صافی کی خواتین میں شرح خواندگی محض آٹھ فیصد اور یکہ غنڈ میں لگ بھگ 26 فیصد ہے۔
سنبل معاذ کے بقول دور سے پانی لانے کے دوران راستے میں لڑکیوں کو اکثر ہراسگی کا خوف رہتا ہے جو ان کی نفسیات پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ دوسرا بچیاں جب بھاری مٹکوں سمیت پہاڑیاں چڑھتی اترتی ہیں تو کم عمری ہی میں انہیں کمر درد جیسے مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر غلنئی کی سماجی کارکن دلراز بتاتی ہیں کہ یہ خشک پہاڑوں کا علاقہ ہے جن پر کوئی سبزہ نہیں اور بارشیں بھی کم ہوتی ہیں۔ شبقدر سے اوپر پانی لانے کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی گئی جو بمشکل شہری علاقے کی ضروت پوری کرتی ہے۔
"اس واٹر سپلائی سے دیہات تو کجا شہر کے گردو نواح میں بھی پانی نہیں پہنچتا۔ یہاں خواتین کو کنووں سے مٹکوں اور مشکیزوں میں پانی لانا پڑتا ہے۔ انہیں ریلیف دینے کے لیے ان علاقوں میں پانی کا انتظام ہونا بہت ضروری ہے۔"
تاہم مہمند سے منتخب رکن خیبرپختونخوا اسمبلی محبوب شیر اعتراف کرتے ہیں کہ مہمند میں پینے پانی کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ تاہم وہ اس کے حل کے لیے کوشاں ہے اور علاقے میں کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

ضلع کو واٹر سپلا ئی کی فراہمی کے کئی منصوبے ابھی محض دعوں تک ہی محدود ہیں
محبوب شیر بتاتے ہیں کہ ضلعے میں 175 کنویں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال تھے ان کی سولرائزیشن کی منظوری ہو چکی۔ اب کچھ کنویں فعال ہیں اور باقی بھی جلد فعال ہوجائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایم این اے ساجد مومند نے اپنے دور میں دریائے کابل سے خویزی بایزی کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی تھی جس کا تخمینہ چار ارب روپے لگایا گیا۔ ان بقول یہ ورلڈ بینک کا پراجیکٹ ہے جو جلد شروع ہو گا۔
تاہم ایکسیئن پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کامران آفریدی بتاتے ہیں کہ مذکورہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہو گا جس سے خویزو بایزی کے 50 ہزار لوگوں کو پانی ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ واٹر سپلائی کے مختلف منصوبوں سے لوگوں کو کچھ حد تک ریلیف بھی ملا ہے۔ جیسا کہ سرو کلی سے غلنئی تک پائپ لائن مکمل ہوچکی ہے جس سے 50 ہزار آبادی کو پانی دستیاب ہوا ہے۔
ایم پی اے محبوب شیرکے مطابق واٹر سپلائی کا دوسرا ایک بڑا پراجیکٹ مہمند ڈیم سے متعلقہ ہے۔ جب ڈیم پر ابتدائی بات ہو رہی تھی تو معلوم ہوا کہ اس سے تین تحصیلیں پنڈیالی، امبار اور پڑانگ غار زیادہ متاثر ہوں گی۔

"مجھ سمیت منتخب تمائندوں نے انتظامیہ سے کہا کہ ان تحصیلوں میں پانی کا مسئلہ زیادہ ہے اس لیے پہلے یہاں واٹر سپلائی کو یقینی بنائی جائے۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہمند ڈیم واٹر سپلائی منصوپے پر سات ارب روپے لاگت آئے گی جس میں سے دو ارب روپے ڈیم والے (واپڈا) دیں گے اور بقایا رقم صوبائی حکومت دے گی۔ یہ معاہدہ ہوا ہے۔
تاہم ایکسیئن کامران آفریدی کا کہنا ہے کہ مہمند ڈیم واٹر سپلائی پر نو ارب روپے خرچ ہوں گے جس میں سے واپڈا نے دو ارب کی حامی بھری ہے۔ تاہم باقی رقم کے لیے کوئی ڈونر نہیں مل رہا۔
تاریخ اشاعت 12 جون 2025