چالیس سالہ والہی کولہی لکڑیوں اور گھاس پھوس سے بنی جھونپڑی میں چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ یہیں ساتھ ہی ایک صندوق (چھوٹا ٹرنک) دھرا ہے جس میں چپس، نمکو، پاپڑ اور بچوں کو بیچنے کی دیگر چیزیں پڑی ہیں، اسے وہ اپنی دکان کہتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ پہلے وہ بھی کھیت مزدوری کرتی تھیں لیکن اب صرف رامجی کولہی(شوہر) ہی کام پر جاتے ہیں جنہیں 400 سے 600 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔
دونوں میاں بیوی ٹنڈو الہیار کے ماڈل ویلیج ٹنڈو سومرو کے قریب بھیو فارم میں کچے کمرے اور چھپری (یا جھونپڑی) پر مشتمل گھر میں رہتے ہیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے جس کی شادی ہو چکی۔ یہ جوڑا شمسی توانائی کی سہولت ملنے پر بہت خوش ہے۔
"ہمیں لگتا تھا کہ گھر میں بجلی اور پنکھا شاید ہمارے مقدر میں ہی نہیں لکھا۔"
والہی کولہی کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے وظیفہ ملتا تھا لیکن دو سالوں سے یہ رقم نہیں مل رہی۔ 20 روز قبل انہیں سولر کٹ ملی ہے جس میں ایک پیڈسٹل فین، تین بلب اور بیٹری سسٹم شامل ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ گھر میں بجلی نہیں تھی۔ رات کو ان کے شوہر موٹر سائیکل کی بیٹری سے بلب جلاتے تھے اور تھوڑی دیر بعد اسے بند کر دیتے تھے۔ وہ رات کو کھلے آسمان تلے سوتے ہیں لیکن گرمی میں دن گزارنا عذاب ہوتا تھا۔
حکومت نے سولر کا سامان چھ ہزارروپے میں دیا ہے جو انہوں (والہی) نے غیر سرکاری تنظیم نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کی رہنمائی میں سندھ بنک میں جمع کرائے۔
این جی او والے سولر کٹ گھر لے آئے، الیکٹریشن ان کے ساتھ تھے جنہوں نے پلیٹ اور سامان فِٹ کر کے پنکھا چلا دیا۔

30 اضلاع میں 36ہزار غریب گھرانوں کو سولر کٹس دی جا چکیں
ورلڈ بینک کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق عالمی بینک نے محکمہ توانائی کے ساتھ مل کر 2020ء میں سندھ سولر انرجی پراجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد گرین انرجی (ماحول دوست) کو فروغ دینا تھا۔
اس منصوبے کے چار جزو (حصے) ہیں جن میں گرڈ سے منسلک سولر پارک کا قیام، نیٹ میٹرنگ کے لیےسرکاری عمارتوں پر پینلز کی تنصیب، غریب آبادیوں میں سولر کٹس (سولر ہوم سسٹمز) کی تقسیم اور افرادی قوت کی تربیت کرنا شامل ہے۔
عالمی ادارے نے اس منصوبے کے لیے مجموعی طور پر دس کروڑ (100 ملین) ڈالر کا قرض منظور کیا جس میں دولاکھ سولر ہوم سسٹمز (ایس ایچ ایس/ کٹس) کی رقم بھی شامل ہے۔ تاہم کٹس کی تقسیم کے آپریشنل اخراجات سندھ حکومت نے اپنے ذمہ لیے ہیں۔
ڈائریکٹر سندھ سولر پراجیکٹ انجنیئر محفوظ قاضی بتاتے ہیں کہ آغاز میں طے پایا کہ حکومت سولر کٹ پر غریب گھرانوں کو 40 فیصد سبسڈی دے گی اور باقی 60 فیصد رقم قسطوں میں وصول کی جائے گی۔ اس سکیم کے تحت 2022ء میں صرف 322 کٹیں تقسیم کی گئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پھر سیلاب آگیا اور یہ عمل روک دیا گیا۔ غربت میں اضافے کے باعث سولر کٹیں مفت دینے کا فیصلہ کیا گیا تو حکومتی (کٹس کا) سامان مارکیٹ میں فروخت ہوتا نظر آنے لگا۔
اس کے بعد سندھ حکومت نے منصوبے کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا۔ سولر پالیسی 2024ء کے تحت پہلے مرحلے میں یہ دو لاکھ ہوم سولر کٹس تقسیم کی جائیں گی۔ سبسڈی کی رقم 80 فیصد کر دی گئی ہے اور 20 فیصد رقم (چھ ہزار) مستحق گھرانہ دے گا تاکہ لوگ ان کٹس کی اونرشپ لیں۔
محکمہ توانائی سندھ کے مطابق صوبے کے 30 اضلاع میں ورلڈ بینک پراجیکٹ کی دو لاکھ سولر کٹس کی تقسیم کا کام مارچ سے شروع ہوا، تقریباً تین ماہ میں 36 ہزار گھرانوں کو کٹس مل چکی ہیں۔

روشن گھر، دن رات چلتا پنکھا اور لیتھیم بیٹری سے چارج ہوتے سمارٹ فون پر گیم کھیلتا بچہ
والہی کولہی مسکرا تے ہو ئے کہتی ہیں "اچھا ہوا کسی کو تو ہم غریبوں کی تکلیف یاد آئی جو ہمیں سولر سسٹم دے دیا۔ اب گھر روشن ہوتا ہے، دن رات پنکھا چل رہا ہے سکون سے بیٹھے ہیں ورنہ ہماری زندگی اندھیروں ہی میں گزر جاتی۔"
بھیا فارم میں 55 سالہ باوڑی کولہی کو بھی سولر کٹ ملی ہے۔ وہ اپنی جھونپڑی میں زمین پر بیٹھی پانچ سالہ پوتے ہمیر کو دیکھ رہی ہیں جولیتھیم بیٹری پر چارج ہوتے سمارٹ فون پر گیم کھیلنے میں مصروف ہے۔
باوڑی کولہی کے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ انہیں بینظیر سکیم سے وظیفہ ملتا ہے اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں ۔ وہ خوش ہیں کہ گھر میں بجلی آ گئی ہے اور اب ان کے بچوں کو فون چارج کرانے بھی کسی دکان پر نہیں جانا پڑتا۔
سندھ میں پہلے مرحلے میں بی آئی ایس پی کے سروے کو سامنے رکھ کر مستحق گھرانوں کی خاتون سربراہوں کو سولر کٹس مہیا کی جا رہی ہیں۔
این آر ایس پی کے سوشل موبلائیزر جان محمد بتاتے ہیں کہ ان کے ادارے کو ضلع ٹنڈو الہیار میں جولائی تک چھ ہزار 600 کٹس ( سولر سسٹمز) لگانے ہیں۔ ہر ضلعے میں تقریباً اتنی ہی کٹیں دی جا رہی ہیں۔
"ہمارے پاس بینظیر انکم سپورٹ سروے کی یونین کونسل وائز فہرستیں موجود ہیں۔ ہم رضامندی فارم پر دستخط اور چھ ہزار روپے بنک میں جمع کروانے کے بعد متعلقہ گھرانوں کو سسٹم لگوا دیتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ انہیں کئی افراد ملے جنہوں نے سولر کٹ لینے سے محض اس لیے انکار کر دیا کہ ان کے پاس یکمشت چھ ہزار روپے نہیں تھے۔ بعض نے رقم ادھار لے کر کٹ لگوائی جبکہ کچھ گھرانے پہلے ہی اپنے سولر لگا چکے تھے۔

دولاکھ سولر کٹس تقسیم، اگست میں ڈھائی لاکھ مزید پہنچ جائیں گی
محکمہ توانائی کے مطابق سندھ میں 32 لاکھ گھر ایسے ہیں جہاں بجلی کا کنکشن نہیں ہے۔ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی اور کراچی الیکٹرک سے مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں کراچی کے سات اضلاع بھی شامل ہیں۔ تاہم ضلع تھرپارکر میں ننگر پارکر، دادو میں جوہی اور کاچھو جبکہ سانگھڑ خیرپور میرس اور سکھر میں اچھڑو تھر، صالح پٹ و دیگر علاقے ترجیح ہیں جہاں بجلی کا نظام نہیں ہے۔
ورلڈ بینک کے فنڈز سے جاری دو لاکھ کٹس کی تقسیم کا منصوبہ جولائی 2025ء میں مکمل ہو گا۔ تاہم سندھ حکومت نے اس پروگرام میں توسیع کا اعلان کیا ہے جس کے تحت مزید سولر کٹس پر نئے مالی سال میں سالانہ ترقیاتی پروگرام سے پانچ ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔
انجنیئر قاضی کہتے ہیں کہ اگست میں مزید ڈھائی لاکھ کٹس آ رہی ہیں جو موجودہ معیار اور طریق کار کے تحت تقسیم کی جائیں گی۔ سندھ کی 48 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے جہاں 18، 18 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔
اس لیے صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ صوبہ میں 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے تمام گھرانوں کو سولر کٹس فراہم کی جائیں۔
حکومتی سولر کٹ (ایس ایچ ایس) میں 80 وولٹ کا سولر پینل، 25 وولٹ کے تین بلب، ایک سولر پنکھا (پیڈسٹل فین) اور 24 امپئر کی ڈی سی بیٹری شامل ہے۔
پانچ سال وارنٹی والی یہ لیتھیم بیٹری ایک چارج میں مذکورہ سسٹم کو آٹھ گھنٹے تک مسلسل سپلائی کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ چارجنگ کے سوئچ بٹن بھی لگے ہوئے ہیں۔

سولر کٹس سے 25 لاکھ سے زائد لوگوں کو براہ راست فائدہ اور ہزاروں کو روزگار ملے گا
سندھ میں ساڑھے چار لاکھ کٹس کی تقسیم سے 25 لاکھ 20 ہزار افراد (اوسط فیملی سائز .65 فرد) کو براہ راست فائدہ ہو گا۔
انجنیئر قاضی کے بقول یہ سولر سسٹم بلاجھجک ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ دیہات میں کام کاج کے لیے نقل مکانی یا شہر میں کرائے کے گھروں والے اسے کہیں بھی ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ لوگوں کی زندگیاں آسان کرے گا۔
مہران یونیورسٹی جامشورو میں الیکٹریکل انجنیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نیئر حسین بتاتے ہیں کہ سولر منصوبے کے تحت تین ہزار سے زائد افراد کو فنی تربیت دی جائے گی جو مزید لوگوں کو ٹریننگ دیں گے۔ یوں ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ سولر سے فوصل فیول کے استعمال میں کمی آئے گی جس سے ماحول کسی حد تک نقصان سے محفوظ رہے گا۔ اس میں گرڈ سٹیشن اور ٹرانسمشن کے خراجات ہیں نہ تاروں کا کوئی جھنجھٹ ہے۔
کم آمدنی والے گھرانے بجلی کے بھاری بلوں سے بچ جائیں گے جس سے ان لوگوں کے مالی حالات میں استحکام آئے گا اور معیار زندگی بہتر ہو گا۔
ماحول دوست توانائی اور کلائمیٹ جسٹس پر کام کرنے والے ادارے دی نالج فورم کی ڈائریکٹر زینیا شوکت سولر منصوبوں کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں عملدرآمد کے لیے پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
"سندھ سولر پراجیکٹ کی کٹس میں شامل لیتھیم بیٹری اور پلیٹ وغیرہ کی عمر پانچ سال بتائی جا رہی ہے، اس کے بعد سولر ویسٹ اور کچرا کہاں جائے گا ہمیں نہیں معلوم۔ ملک میں سولر ایکوئپمنٹ ڈسپوزل کی واضح پالیسی لانا ہو گی۔"
یہ بھی پڑھیں

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟
شکایتوں اور احتیاطی تدابیر سے متعلق عدم آگاہی پر تحفظات
حکام کے بقول ہوم سسٹم کی دو سال کی انشورنس ہے، خراب ہوا تو واپس ہوگا۔ کٹ کی اصل قیمت (بڈ پرائس) 42 ہزار روپے ہے اور اس پر تقریباً 17 ہزار روپے ٹیکسز ہیں۔ صارف کو کل چھ ہزار جمع کرانے ہوتے ہیں جو بعض گھرانوں کے لیے مشکل ہے۔
صوبائی حکومت نے ایف بی آر سے ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس معاف کرانے کی کوشش کی مگر ایسا نہیں ہوا۔
سولر کٹس کی تقسیم کے لیے پانچ این جی اوز سے معاہدہ کیا گیا ہے جن میں این آر ایس پی، ہیلتھ اینڈ نیوٹریشنل سوسائٹی (ہینڈز)، سندھ ایگریکلچرل اینڈ فاریسٹری ورکرز کوارڈینیشن آرگنائزیشن (سافکو)، سندھ رورل سپورٹ آرکنائزیشن (سرسو) اور تھر دیپ رورل ڈیویلپمنٹ پروگرام (ٹی آر ڈی پی) شامل ہیں۔
پراجیکٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سولر کٹس سے متعلق شکایات وصولی کے لیے روبوٹک کال سسٹم متعارف کرا یا گیا ہے جہاں اب تک لگ بھگ 100 شکایات موصول ہوئی ہیں۔
فنی خرابی کی کمپلین پر تقریباً 30 سسٹمز تبدیل کیے گئے۔ حیدرآباد میں ہینڈز کے خلاف کچھ شکایات تھیں کہ انہوں نے معاہدے کے مطابق سامان گھر نہیں پہنچایا۔ صارفین کو دفتر میں بلا کر کٹیں حوالے کر دیں جن کو لے جانے پر انہیں کرائے کی مد میں اضافی رقم اور وقت صرف کرنا پڑا۔
بعض این جی اوز کے خلاف ایسی شکایت بھی موصول ہوئی ہیں جن کے سوشل موبلائیزرز یا نمائندوں نے طے شدہ چالان فیس (چھ ہزار روپے) سے زیادہ رقم وصول کی ہے۔ یہ شکایات کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں موجود ہیں۔
زینیا شوکت اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ جھونپڑیوں میں لوگ بیٹری کو چار پائی پر اپنے ساتھ رکھے موبائل فون چارج کر رہے ہوتے ہیں جس سے انہیں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس پر سوچنا ہو گا تاکہ لوگوں کو سولر کٹ دینے کے ساتھ انہیں احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا جائے۔
تاریخ اشاعت 2 جولائی 2025