صحرائے تھر سے ملک بھر میں کوئلہ سپلائی کرنے کے لیے ریلوے لائن بچھانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ تھر کول بلاک ٹو (اسلام کوٹ) سے نیو چھور تک 105 کلومیٹر طویل پٹری رواں سال دسمبر میں مکمل ہو جائے گی۔
نیا ریلوے ٹریک دو اضلاع عمر کوٹ اور تھرپارکر کے لگ بھگ 100 چھوٹے بڑے دیہات سے گزرے گا جن میں اک وڈھو، رام سر، تھانی سر، گرڑیو نو پورو، پانیاری، متارو منگریو، سونل بھے، مینھل بجیر، بھوجاسر، بٹڑا، ابن جو تڑ ، فانگاریو وغیرہ شامل ہیں۔
اس منصوبے کے تحت تھر کول مائنز کو ریل کے ذریعے ناصرف نیوچھور سٹیشن پر میرپور خاص-کھوکھرا پار ریلوے سیکشن سے جوڑا جائے گا بلکہ بن قاسم ریلوے سٹیشن سے پورٹ قاسم تک اضافی نو کلو میٹر ڈبل ٹریک بھی بچھا جائے گا۔
یوں تھر سے کوئلہ ریلوے کے ذریعے براہ راست لکی کول پاور، جامشورو کول پلانٹ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پہنچے گا اور اسے بندرگاہ سے ایکسپورٹ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
تھر ریلوے لائن منصوبے کی باقاعدہ منظوری چھ اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں دی گئی تھی جس میں وزیراعلیٰ سندھ بھی شریک تھے۔
سنٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی پراگرس رپورٹ کے مطابق تھرکول ریلوے لائن کی تعمیر، نیوچھور سے حیدرآباد تک پرانے ٹریک کی اپ گریڈیشن اور بن قاسم ریلوے لنک کی تعمیر کے لیے مجموعی طور پر تقریباً 70 ارب 60 کروڑکا پی سی ون پیش کیا گیا تھا جو منظوری کے بعد 18 دسمبر 2022ء کو واپس بھیجا گیا۔
تھرکول ریلوے لائن (105 کلومیٹر) کی لاگت کا تخمینہ سوا 58 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ نیا ٹریک بچانے کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا گیا ہے جس کی نگرانی پاکستان ریلوے فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی (پی آر ایف ٹی سی) کر رہی ہے۔

کوئلے کے لیے موجودہ روڈ انفراسٹرکچر ناکافی ہے، ریل منصوبہ خوشحالی لائے گا: حکومت
سیکرٹری ریلوے کے مطابق پاکستان پاور پلانٹس، سیمنٹ و فرٹیلائزر انڈسٹری وغیرہ کے لیے کوئلے کی امپورٹ پر ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ مذکورہ صنعتوں میں تھر کا کوئلہ استعمال کیا جائے تو کثیر زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔
تھر ریل منصوبے کا پی سی ون کہتا ہے کہ لکی کول پاور پلانٹ و دیگر صنعتوں کو تھر سے ٹرکوں کے ذریعے کوئلے کی فراہمی سے روڈ انفرا سٹرکچر تباہ ہو جائے گا اور ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں کوئلے کی نقل و حمل کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر انتہائی ناکافی ہے جس میں توسیع ضروری ہے۔
"تھر کول کی ملک گیر سپلائی کے لیے ریل رابطہ ایک موثر اور مضبوط نظام فراہم کرے گا۔ عالمی سطح پر بھی بڑی مقدار میں سامان کی نقل و حمل (بلک سپلائی) کے لیے ریلوے کا ڈھانچہ ہی استعمال ہوتا ہے۔
یورپ خاص طور پر جرمنی اس کی واضح مثال ہے جہاں ٹرین کے ذریعے کوئلہ منتقل کیا جاتا ہے۔ بھارت میں 80 فیصد سے زیادہ کوئلہ نکالنے والی کمپنی 'کول انڈیا لمیٹڈ' بھی ملک بھر میں صنعتوں کو سپلائی کے لیے ریلوے پر انحصار کرتی ہے۔"
ریل منصوبے کے حامی بتاتے ہیں کہ تھر سے ٹرین کے ذریعے ایک ہزار ٹن کوئلے کی نقل و حمل پر ساڑھے تین لٹر فی کلو میٹر ایندھن خرچ آئے گا جبکہ بذیعہ سڑک 10 لٹر فی کلومیٹر ایندھن استعمال ہوتا ہے۔
ریلوے ٹریک سے مقامی کوئلے کا استعمال بڑھے گا تو تھر کی آبادی کے حالات بہتر ہوں گے، لوگوں آمدنی میں اضافہ ہو گا اور اراضی کی قیمت بھی بڑھے گی۔ علاوہ ازیں مستقبل میں ٹریک کو پسنجر ٹرینوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

کوئلہ منتقلی کے دوران اڑنے والی کول ڈسٹ (دھول) سے طبی اور ماحولیاتی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا گیا
پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویٹیبل ڈیویلپمنٹ (پرائیڈ) کہتا ہے کہ اس منصوبے کے حق میں دیے گئے دلائل میں سے ہر ایک کا آسان اور مؤثر جواب دیا جا سکتا ہے۔
"مثال کے طور پر ریل کے ذریعے کوئلہ مننتقلی کی لاگت کے تعین میں اس طبی اور ماحولیاتی قیمت کو نظرانداز کر دیا گیا جو کوئلے کی دھول اڑنے کے نتیجے میں عوام کو ادا کرنی پڑے گی۔"
ریل یا سڑک دونوں صورتوں میں کوئلے سے پورا راستہ بہت زیادہ دھول اڑتی ہے جو ناقابل تلافی فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ "
تحقیق کاروں کے مطابق کوئلے کی نقل و حمل لوڈنگ سے ان لوڈنگ تک پورا راستہ زراعت، جنگلات، باغبانی، اور حیاتیات سمیت تقریباً تمام قدرتی ماحول کو متاثر کرتی ہے۔
"صحت عامہ کے امریکی ماہرین تصدیق کرتے ہیں کہ کوئلے کی ٹرینیں ماحول میں پی پی ایم 2.5 کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں جو قبل از وقت اموات، پھیپھڑوں کے کینسر میں اضافے اور دیگر بیماریوں کاباعث بنتا ہے۔
کوئلے کی دھول میں عام طور پر مرکری، سیسہ، سنکھیا، کیڈمیم اور کرسٹل سیلیکا جیسے زہریلے مادے شامل ہوتے ہیں جو انسانی صحت کےلیے انتہائی تشویشناک ہیں۔"
پاکستان پہلے ہی دنیا کا پانچواں آلودہ ترین ملک ہے۔ یہاں تھر کول کی ریل کے ذریعے پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں صنعتوں کو منتقلی ان مسائل کو مزید بڑھا دے گی۔
علاوہ ازیں ٹریک بچھانے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں اور کوئلے کی ٹرینوں کے شور (وائس پولیوشن) سے مقامی جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع بری طرح متاثر ہوگا۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئلے کی کان کنی، نقل و حمل اور استعمال میں اضافہ پاکستان کو گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) تک رسائی سے بھی محروم کر سکتا ہے۔

شمسی توانائی مقامی کوئلے کی بجلی سے 37 فیصد سستی پڑتی ہے: رینیوایبل فرسٹ
تھر کول کے لیے ریلوے ٹریک اس وقت بچھایا جا رہا ہے جب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مقامی کوئلے کے مقابلے میں سولر جیسے قابل تجدید ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کم از کم 37 فیصد سستی ہے۔
سندھ حکومت کے حساب سے مقامی کوئلے سے بجلی کی فی یونٹ لاگت 4.80 روپے اور امپورٹڈ کوئلے سے ساڑھے 19 روپے آتی ہے۔
توانائی پر کام کرنے والے ادارے رینیوایبل فرسٹ کے مطابق سولر جیسے قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر مقامی کوئلے کے مقابلے میں 37 فیصد کم لاگت آتی ہے۔
'تھر ریلوے، دی ریئل کاسٹ آف کول ٹرانسپورٹیشن' کے نام سے پرائیڈ کی سٹڈی رپورٹ بتاتی ہے کہ کول مائننگ اور کول پاور پروڈکشن سے تھرپارکر کے رہائشی پہلے ہی کئی طبی اور ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔ درآمدی ایندھن کو مقامی کوئلے سے تبدیل کرنے سے یہ خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔
اس رپورٹ کے مطابق تھرکول سے بجلی کی پیداوار بجلی کے نرخوں کمی لانے میں ناکام رہی۔ اسی طرح سیمنٹ اور کھاد کی قیمتیں کم ہونے کی بات بھی درست نہیں لگتی۔
"دلچسپ بات یہ ہے کہ تھر ریل منصوبے کے حق میں پی سی ون کے سارے دلائل وفاق کو اس پراجیکٹ میں 100فیصد سرمایہ کاری پر قائل نہیں کر سکے۔ اس کے باوجود سندھ حکومت مصر رہی کہ وہ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے مکمل کرے گی۔"
واضح رہے تھر کول ریلوے ٹریک کی رقم وفاقی حکومت اور سندھ حکومت مشترکہ طور پر (50، 50 فیصد) اپنے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگراموں سے فراہم کر رہی ہیں۔

تھر ریلوے کے لیے سیکڑوں ایکڑ اراضی کا حصول, مگر کسی کو کوئی نوٹس ملا نہ معاوضہ
ضلع تھرپارکر میں کوئی سرکاری افسر یا اہلکار یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ریلوے پراجیکٹ کے لیے کتنی زمین حاصل کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ پٹواری محمد شریف راہموں سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ تفصیلات ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کے پاس ہیں۔
تاہم ایک ریونیو اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹریک کے لیے 60 گز (180 فٹ) چوڑی پٹی حاصل کی جا رہی ہے لیکن جہاں سٹیشن بنے گا وہاں لگ بھگ 100 گز زمین درکار ہوگی۔
پاکستان ریلوے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد سعید بتاتے ہیں کہ 105 کلومیٹر ٹریک پر نیو چھور اور تھر کول بلاک ٹو (اسلام کوٹ) میں بڑے ریلوے سٹیشن بنیں گے جبکہ ان دونوں کے درمیان پانچ چھوٹے سٹیشن تعمیر کیے جائیں گے۔
تھر کول انرجی بورڈ کے اجلاس میں تین دسمبر 2024ء کو وزیر اعلیٰ سندھ کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے لیے مجموعی طور پر 756.10 ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
"عمرکوٹ میں 36 ایکڑ اور تھرپارکر میں 242.12 ایکڑ نجی اراضی حاصل کرنے کا عمل جاری ہے جس کے لیے کمشنر میرپور خاص کے کھاتے میں تقریباً چھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔"
اسلام کوٹ کے رہائشی کیلاش بتاتے ہیں کہ ان کے دادا کی چھ ایکڑ زمین تھی جو ان کے نام منتقل نہیں کی جا رہی۔ اس میں سے پٹری گزاری گئی ہے جس کے لیے انہیں کوئی نوٹس ملا نہ معاوضہ اور نہ ہی رضامندی حاصل کی گئی۔ جب انہوں نے آواز اٹھائی تو اہلکاروں کی جانب سے انہیں حراساں کیا گیا۔

صرف سروے والی زمینوں کا معاوضہ ملے گا, حکومت نے قیمت کا ابھی تک تعین نہیں کیا
ریونیو اہلکار کے مطابق صوبائی حکومت کی ملکیتی اراضی اور اینیمی پراپرٹی کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ سروے والی زمینوں کا معاوضہ ضرور ملے گا جبکہ یک سالہ زمین کا معاوضہ دینے کا بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
واضح رہے صحرائے تھر میں تین اقسام کی سرکاری اراضی موجود ہے جس میں سے بیشتر زیرکاشت ہے یا چراہ گاہوں کے لیے مختص ہے۔ صوبائی ملکیتی اراضی اور اینیمی پراپرٹی دونوں ایک ہی کیٹیگری میں شمار ہوتی ہیں۔
دوسری سروے والی سرکاری (الاٹ شدہ کے مترادف) زمین ہے اور تیسری کیٹیگری میں یکسالہ زمین( کئی سال سے ایک کسان کے زیر کاشت) کہلاتی ہے
"ابھی تک کسی کو معاوضہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی حکومت نے کوئی فیصلہ کیا ہے کہ کس زمین کا کتنا معاوضہ دیا جائے گا۔ ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ تھر کول والی پالیسی کے تحت ڈھائی سے 3 لاکھ فی ایکڑ معاوضہ دیا جائے مگر فیصلہ ہونا باقی ہے۔"
سوشل ورکر لچھمن تھر کے گاؤں فانگاریو کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سمیت گاؤں کے دس خاندانوں کی زمین ٹریک میں آ رہی ہے۔ یہاں کسی سے کچھ پوچھا نہیں گیا بس نشان لگاتے ہوئے اہلکاروں نے انہیں ٹریک کا بتا دیا تھا۔
تھر سٹیزن فورم کے میڈیا کوآرڈینیٹر اعجاز بجیر نے دعویٰ کیا کہ ٹریک بچھانے سے پہلے کوئی مناسب سماجی، معاشی و ماحولیاتی اسیسمنٹ نہیں کی گئی۔ یہاں درخت کاٹے گئے ہیں اور لوگوں کی آسائشی زمین متاثر ہوئی ہے۔ مال مویشی کے لیے متبادل چراگاہ کا بھی کچھ معلوم نہیں۔
"جب میٹیریل ڈالنے آتے ہیں تبھی بتاتے ہیں کہ یہاں سے ریلوے ٹریک نکلے گا۔ لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے، ہم اس منصوبے کے خلاف نہیں ہیں مگر جو خاندان متاثر ہو رہے ہیں ان کے ازالے کا کوئی تو طریق کار ہونا چاہیے۔"
یہ بھی پڑھیں

تھر کول پاور پراجیکٹ: مقامی لوگوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب
منصوبوں کے لیے اراضی لیز پر دی جائے ورنہ تھر کی ساری زمین کمپنیوں کے پاس چلی جائے گی
پائیڈ نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ تھر کول منصوبے سے جڑے ماحولیاتی، سماجی، طبی اور معاشی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریک تعمیر کرنے سے قبل مقامی آبادی پر اس کے اثرات کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ لیکن تھر باسیوں کے بقول ایسا نہیں ہوا۔
تھر ریل منصوبے کی انوائرمنٹ امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ علاقے کے لوگوں کے معاشی تقصان کو بالواسطہ تسلیم کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ "پراجیکٹ ایریا میں زیادہ تر گھرانوں کے پاس زمین نہیں ہے اور اکثر کے لیے اناج بھی ناکافی ہوتا ہے"
لچھمن بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں سروے شدہ زمین سے زیادہ اینیمی پراپرٹی ہے جو برسوں سے لوگ کاشت کر رہے ہیں مگر اس کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ آخر یہ لوگ روزی روٹی کے لیے کیا کریں گے۔ ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو تھر کے باسی در بدر ہو جائیں گے۔
ایک ریونیو عملدار اپنا نام ظاہر خفیہ رکھنے کی شرط پر انکشاف کرتے ہیں کہ ابھی تک زمین کے حصول کا کوئی واضح پلان ان کے سامنے نہیں آیا۔ تاہم حکومت چاہتی ہے کہ لوگوں کو زمین کا کم سے کم معاوضہ دیا جائے۔
اس ضمن میں اسسٹنٹ کمشنر چاچھرو عثمان خاصخیلی جو انچارج ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھرپارکر بھی ہیں، نے بار بار رابطہ کے باوجود کال اٹینڈ نہیں کی اور نہ ہی ملاقات کے لیے کسی میسیج کا جواب دیا۔
سابق تحصیل دار شنکر لال تجویز دیتے ہیں کہ تھر میں کول جیسے منصوبوں کے لیے اراضی خریدنے کے بجائے مالکان یا کاشت کاروں سے زمین لیز پر لی جائے۔موجودہ طریقہ کار جاری رہا تو تھر کی ساری زمین کمپنیوں کے پاس چلی جائے گی۔
تاریخ اشاعت 30 مئی 2025