زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

postImg

سجاگ رپورٹ

postImg

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

سجاگ رپورٹ

بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے کے تحت اب تک 13 ہزار 400 سے زائد کاشت کاروں کو 26 ارب 85 لاکھ روپے کے چیک جاری کیے جا چکے ہیں۔ یہ منصوبہ ایک سال قبل وزیراعظم نے شروع کیا تھا جس کے تحت صوبے کے 27 ہزار 437 رجسٹرڈ زرعی ٹیوب ویل سولر پر منتقل کیے جا رہے ہیں۔

55 ارب روپے مالیت کے اس منصوبے میں 70 فیصد حصہ وفاقی حکومت اور 30 فیصد بلوچستان حکومت ادا کر رہی ہے۔ سولرائزیشن پروگرام کے تحت ہر رجسٹرڈ ٹیوب ویل مالک کو 20 لاکھ روپے کا چیک فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بجلی سے چلنے والے نظام کو شمسی توانائی پر منتقل کر سکے۔

صدیق اللہ پشین کے رہائشی ہیں جو 50 ایکڑ زرعی رقبے مالک ہیں جس پر وہ  سیب اور کچھ دوسری روایتی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ 

وہ تصدیق کرتے ہیں کہ حکومت سے 20 لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کرلیا ہے.

وہ کہتے ہیں پہلے انہیں زرعی فیڈرز سے صرف جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں تین گھنٹے بجلی ملتی تھی جس سے فصلوں اور باغات کا پانی پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔اس لیے زیادہ تر کھیت خالی پڑے رہتے تھے۔ 

"اب سولر لگانے کے بعد گرمیوں میں ہمارا ٹیوب روزانہ آٹھ گھنٹے چلتا ہے، اب نہ صرف پیداوار بڑھی ہے بلکہ بھاری بلوں سے بھی چھٹکارہ مل گیا ہے۔"

زرعی ماہرین اور کسان اس منصوبے کو  بہتر اقدام تو قراردے رہے ہیں لیکن اس میں تاخیر پر انہیں بہت سارے تحفظات ہیں کیوں کہ وزیر اعلی بلوچستان نے جب اس منصوبے کا اعلان کیا تھا تو کہا تھا اسے تین ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا اور اس سے سالانہ 90 ارب روپے کی بجت ہو گی۔

لیکن یہ لگاتار تاخیر کا شکار ہوتا چلا آ رہا ہے۔

پانی کی قلت سے بہت سارے پھل دار درخت کٹ چکے ہیں، حکومت مزید نقصان سے بچالے

بلوچستان کو  پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے ملک میں نمایاں مقام حاصل ہے لیکن صوبے میں پانی کی قلت اب ان کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔

زرعی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ  کہتی ہے کہ پاکستان میں جتنے انگور پیدا ہوتے ہیں ان میں سے 98 فیصد، جتنے  بادام  پیدا ہوتے ہیں ان میں سے 93.5 فیصد بلوچستان اگاتا ہے۔ اسی طرح  سیب اور انار کی کل ملکی پیداوار میں اس صوبے کا حصہ 82، 82  فیصد ہے بلوچستان میں آڑو  کل قومی پیداوار کا 69 فیصد اور آلوچے 49 فیصد ہوتے ہیں۔

اسی طرح پانی کی قلت کے باوجود ماش، جوار اور تل (سیسم) جیسی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بھی کافی اچھی ہے۔

بلوچستان حکومت  کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں کل قابل کاشت رقبہ 73 لاکھ ایکڑ ہے جس میں سے 39 لاکھ ایکڑ رقبہ کاشت نہیں ہو پایا جبکہ 31 لاکھ 37 ہزار ایکڑ پر فصلیں کاشت ہوئیں۔

تقریباً ساڑھے 65 ہزار ایکڑ زمین کی آبپاشی کنووں، ایک لاکھ سے زائد ایکڑ کی کاریز اور چشموں، لگ بھگ 15 لاکھ ایکڑ (اس میں 84 فیصد رقبہ صرف نصیر آباد ڈویژن کا ہے) کی نہری نظام اور 14 لاکھ 78 ہزار ایکڑ زمین کی آبپاشی ٹیوب ویلز کے ذریعے ہوتی ہے۔

اس ڈیٹا کے مطابق بلوچستان بھر میں 2023ء میں ٹیوب ویلز (بجلی، ڈیزل، سولر پر چلنے والے) کی کل تعداد 72 ہزار 681 تھی جبکہ 27ہزار 437 (بجلی پر چلنے والے) ٹیوب ویلز محکمہ زراعت کے پاس رجسٹرڈ تھے۔ انہی 27ہزار 437 ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

صدیق اللہ بتاتے ہیں کہ جن کسانوں کے ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل ہوچکے ہیں وہ خوشحالی کی طرف لوٹ رہے ہیں اسی لیے باقی کسانوں میں بے چینی ہے کہ ان کے ٹیوب ویل کب چلیں گے۔

"جب ایک کام کرنا ہی ہے تو اس میں تاخیر کیسی، حکومت کو چاہیے کہ وہ  باقی کسانوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے۔ کیوں کہ پچھلے چند سال میں پانی کی کمی کے باعث صوبے میں بہت سارے پھل دار درخت کاٹ دئیے گئے ہیں۔"

ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے

مستونگ کے کاشتکار منیر احمد کو شکوہ ہے کہ ان کا کیس منظور ہو جانے کے باوجود ابھی تک نہ تو انہیں چیک ملا ہے اور نہ ہی وہ اپنے ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کر سکے ہیں۔

منیر احمد تحصیل دشت میں 12 ایکڑ کے زمیندار ہیں جو 18 سال سے اپنا رقبہ خود کاشت کر رہے ہیں۔انہوں نے چھ ایکڑ پر سیب کا باغ لگا رکھا ہے اور باقی سبزیاں اگاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب حکومت نے سولرائزیشن پروگرام کا اعلان کیا تو فوری درخواست دے دی لیکن ابھی تک انہیں پیسے نہیں ملے ہیں۔

"کیسکو (کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی)  والے کہتے تھے کہ انہیں مارچ 2025 میں رقم مل جائے گی لیکن اب جولائی آ گیا ہے۔ میں ہر دوسرے ہفتے دفتر کے چکر لگا رہا ہوں۔ کہتے ہیں کہ آپ کا نام اگلی لسٹ میں ہے اوپر سے فنڈ نہیں آیا۔"

وہ کہتے ہیں کہ انہی گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ایک تو فصلوں کو مناسب مقدار میں ہانی میسر نہیں آیا۔ اوپر سے وولٹیج کی کمی بیشی کے باعث دو مرتبہ ٹیوب ویل کی موٹر جل چکی ہے جس کی مرمت پر 70 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

 "اگر وقت پر رقم مل جاتی اور سولر سسٹم لگ جاتا تو آج مجھے یہ مالی نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔"

منصوبہ جولائی میں مکمل ہونا ہے لیکن تاحال آثار نظر نہیں آرہے

منصوبے پر عملدرآمد میں وفاقی حکومت، پلوچستان انرجی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تیسرے فریق کے طور پر کام کرنے والی کسانوں کی تنظیم زمیندار ایکشن کمیٹی  کے چیئر مین ملک نصیر احمد شاہوانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس منصوبے میں بلاوجہ کی تاخیر ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری فنڈز ریلیز کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ طے پایا تھا کہ پہلے مرحلے میں صرف کوئٹہ اور پشین کے اضلاع میں دو ہزار 696 ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل ہوں گے پھر دوسرے اور تیسرے مرحلے میں باقی اضلاع میں کام کیا جائے گا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 26 ارب 85 کروڑ روپے تو کسانوں کو دے دیے گئے ہیں لیکن آدھے سے زیادہ 28 ارب سے زائد رقم جاری نہیں ہوئی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے رواں سال چھ مئی کو مزید 24.5 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کا یہ منصوبہ جولائی تک مکمل کر لیا جائے گا تاہم ابھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

بلوچستان میں بلوں کی عدم ادائیگی کے ساتھ دیہی فیڈرز پر لائن لاسز خصوصاً ٹیوب ویلز کے لیے بجلی چوری بھی طویل عرصے سے مسئلہ بنا ہوا تھا۔

سولرائزیشن پروگرام میں یہ بھی طے پایا تھا کہ جہاں جہاں اس منصوبے کے تحت زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کے چیک تقسیم ہوتے جائیں گے وہاں سے کیسکو اپنے ٹرانسفارمرز، ایچ ٹی پولز اوردیگر برقی آلات ختم کر دے گا۔

پچھلے سال دسمبر میں کوئٹہ اور پشین میں چیکوں کی تقسیم کے آغاز سے ہی کیسکو نے اپنی تنصیبات ہٹانے کا کام بھی شروع کر دیا تھا۔ تاکہ مذکورہ زرعی صارفین سولر پر منتقلی کے بعد اپنے بجلی کنکشنز دوبارہ کیسکو نیٹ ورک سے منسلک نہ کر سکیں۔

ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سے 67.4 میگاواٹ کی بچت 

ترجمان کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) محمد افضل بلوچ بتاتے ہیں کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کے تین مراحل مکمل ہونے کے بعد کیسکو نے مجموعی طور پر13 ہزار 428 زرعی کنکشنز منقطع کیے، تین ہزار 702 پولز اور پانچ ہزار 593 ٹرانسفارمرز اْتار لیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دسمبر میں پہلے مرحلے کے دوران ضلع کوئٹہ اور پشین میں دوہزار 699 زرعی صارفین کو ادائیگی کی گئی اور ان علاقوں سے تین ہزار 212 زرعی کنکشنز منقطع کیے جن میں 513 غیر قانونی زرعی کنکشنز شامل تھے۔

ترجمان کے مطابق دوسرے فیز میں کوئٹہ، خضدار، مستونگ، نوشکی، خاران اور ہرنائی کے تین ہزار 729 زرعی صارفین کو ادائیگیاں کی گئیں اور چار ہزار 662 جنوئن جبکہ 933 غیر قانونی ٹیوب ویل کنکشن منقطع کیے گئے، اسی طرح تیسرے مرحلے سات ہزار زرعی کنکشنز منقطع اور وہاں سے دو ہزار 312 ٹرانسفارمرز، لگ بھگ ایک ہزار پول اور دیگر برقی آلات بھی اْتار لیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سولر ٹیوب ویل کے لیے چیک وصولی کے بعد جن زمینداروں نے اپنے کنکشنز سے منسلک برقی آلات کیسکوکے حوالے نہیں کیے انہیں نوٹسز جاری کیے جارہے ہیں۔

کیسکو حکام کے مطابق ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن سے اب تک مجموعی طور پر 67.4 میگاواٹ لوڈ کم ہوا ہے۔ تاہم منصوبے مکمل ہونے پر بجلی کی طلب میں 400 میگاواٹ سے زائد کی کمی آسکتی ہے۔

کیا حکومت واقعی صرف خرچے بچانا چاہتی ہے؟

بلوچستان میں رجسٹرڈ یا سبسڈائزڈ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے 2021ء سے 2022ء تک بجلی کا بل چھ ہزار روپے ماہانہ فکس تھا۔ تاہم 2022ء میں اس کو بڑھا کر 12 ہزار روپے کر دیا گیا۔

تاہم اس میں ساڑھے چھ ہزار روپے وفاقی و صوبائی حکومتیں بطور سبسڈی ادا کرتی تھیں اور زرعی ٹیوب ویلوں کو چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی تھی۔ لیکن ستمبر 2023ء میں بجلی کی فراہمی تین گھنٹے تک محدود کر دی گئی۔۔

صوبے میں زرعی ٹیوب ویلوں کو سبسڈی دیے جانے کے باوجود کاشتکاروں کے ذمہ کیسکو کے واجبات 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے تھے۔ صرف دو/ تین گھنٹے روزانہ بجلی ملنے پر کاشت کار بھی مسلسل احتجاج کررہے تھے 

اب جبکہ کاشت کاروں کو کچھ سہولت ملنا شروع ہوچکی ہے تو  بعض علاقے جہاں پر زیر زمین پانی کافی گہرا ہے دشواریوں کا سامنا ہے۔

مستونگ کے ایک مقامی زمیندار کہتے ہیں کہ ان کے علاقے زیادہ سولر پلیٹس درکار ہیں جو حکومتی پیسوں سے پوری نہیں ہوتیں تاہم زمیندار ایکشن کمیٹی کے مطابق 20 لاکھ روپے سے 500 واٹ سے زائد کے لگ بھگ 80 سولر پینلز خریدے جاسکتے ہیں جو 30 ہارس پاور کی موٹر سے 700 فٹ گہرائی تک پانی نکالنے کے لیے کافی ہیں۔

خضدار کے زمیندار حاجی شفیع کو اعتراض یہ ہے کہ آخر ان کاشت کاروں کو سولرائزیشن پروگرام میں شامل کیوں نہیں کیا گیا جنہوں نے بجلی والے ٹیوب ویل نہیں لگوائے تھے؟ یا جن علاقوں میں سرکاری بجلی پہنچی ہی نہیں تھی؟

"اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت کو ہماری زراعت، ماحولیات یا کسانوں کی فلاح سے کوئی غرض نہیں انہیں صرف اپنی بجلی اور سبسڈی بچانی تھی۔"

تاریخ اشاعت 8 جولائی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.