شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

اشفاق لغاری

بھگوان داس شہداد پور (ضلع سانگھڑ ) کے سوائی روڈ پر محلہ لوہانہ کے رہائشی ہیں جو یہاں شہر میں گندم اور کپاس کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کی تین بیٹیوں سمیت چار بچے ہیں جن میں 13 سالہ کارتک کمار سب سے چھوٹا ہے۔

ان کی بڑی بیٹی 23 سالہ جیا بائی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس فائنل ائیر کی طالبہ ہیں۔ دوسری 20 سالہ دیا بائی نے تین ماہ قبل جناح میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں بی ایس سائیکالوجی میں داخلہ لیا، تیسری دشینا کی عمر ساڑھے 16 سال ہے جو میٹرک کے بعد مقامی کمپیوٹر سنٹر میں کورس کر رہی ہیں۔

جیا، دیا اور دشینا تینوں بہنوں نے شہدادپور ہی میں ایک نجی سکول سے مڈل تک تعلیم مکمل کی جو ذوالفقار علی خاصخیلی نے ا پنے ہی نام (ZAK) سے جولائی 2010ء میں قائم کیا تھا۔ بھگوان داس کے بھتیجے ہرجیت کمار عرف ہنی نے بھی اسی سال یہاں سے آٹھویں پاس کی ہے۔

بھگوان داس کی اہلیہ کملا بائی بتاتی ہیں کہ ان کی چھوٹی بیٹی دشینا بائی 18 جون کو صبح گھریلو ملازمہ کے ساتھ کمپیوٹر سنٹر گئی تھیں مگر دوپہر ایک بجے تک واپس نہیں لوٹیں۔

"ہم نے سنٹر سے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ دشینا اس روز وہاں نہیں پہنچیں۔ جب ہرجیت بھی گھر نہیں لوٹے تو ہم پریشان ہو گئے۔ بچوں کا پتا کر نے کے لیے جامشورو اور کراچی میں بیٹیوں کو فون کیے مگر ان دونوں سے بھی رابطہ نہیں ہو سکا، ہماری پریشانی مزید بڑھ گئی"۔

بھگوان داس کے آباؤ اجداد کئی نسلوں سے اس علاقے میں آباد چلے ہیں لیکن "18 جون کا دن ان کے گھر کو ویران کر گیا ہے۔"

چاروں مڈل تک ایک ہی نجی سکول میں زیرتعلیم رہے 

دو بچوں کی گمشدگی کے بعد بھگوان داس کے کزن راج کمار نے کمپیوٹر سنٹر کے قریب واقع دکانوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز نکلوائیں، گلی میں صبح 9:04 بجے کالا بیگ کندھے پر لٹکائے ایک شخص گھومتا نظر آیا جس نے چہرے اور سر کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا، وہی آدمی دشینا کو ساتھ لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔(سی سی ٹی وی فوٹیج لوک سجاگ کے پاس موجود ہے)

راج کمار کے مطابق دھندلی فوٹیج میں حلیے سے شناخت مشکل تھی تاہم ورثا نے فرحان خاصخیلی پر الزام عائد کیا جو پرنسپل ذوالفقار خاصخیلی کے بھائی اور ZAK سکول میں ٹیچر ہیں۔

بھگوان داس کی تینوں بیٹیاں اور بھتیجا انہیں (فرحان خاصخیلی) سے آٹھویں تک انگریزی اور سندھی پڑھتے رہے، ہرجیت زیادہ وقت فرحان کے ساتھ ہی گزارتا تھا جو اسے اپنا بیٹا کہتے تھے۔ ان دو بچوں کی تلاش کے دوران دشینا کی بڑی بہنوں جیا اور دیا کی گمشدگی کی بھی تصدیق ہو گئی۔

واضح رہے فرحان کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے ہے اور وہ مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ معاملات سامنے آنے پر بھگوان داس نے تھانہ شہداد پور میں دو بچوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا لیکن ایف آئی آر میں بڑی بیٹیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔

ایف آر آئی کے مطابق چار ملزمان فرحان خاصخیلی، ذوالفقار خاصخیلی، عرفان خاصخیلی اور مجید خاصخیلی جو آپس میں بھائی ہیں نے دشینا اور ان کے کزن ہرجیت عرف ہنی کو ZAK سکول سے سفید رنگ کی کار میں زبردستی اغوا کیا۔

ایف آر کے مطابق مدعی اور ان کے کزن راج کمار نے ملزمان کو روکنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہے۔

ٹیچر سمیت دو ملزمان کو حراست میں لیا تو چاروں گوشہ عافیت کراچی سے برآمد ہوئے

سانگھڑ میں ہندو پنچایت کے نوجوان رکن راجیش کمار ہرداسانی بتاتے ہیں کہ مقدمے کے بعد سندھ بھر سے لوہانہ و دیگر ہندو برادریوں کے لوگ شہداد پور کے دھرم شالا میں جمع ہو گئے۔ 

"اسی رات ہماری برادری والوں نے پیپلز پارٹی کے مقامی ایم پی اے شاہد تھہیم کے چچا عبدالرحمان تھہیم سے ملاقات کی جنہوں نے فریقین کو اگلے روز صبح دس بجے اپنے گھر بلا لیا۔ انہوں نے لڑکیوں کی واپسی کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالا تو فرحان اور ذوالفقار خاصخیلی نے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں۔"

اسی روز (19 جون) پولیس نے دو ملزمان یعنی سکول کے پرنسپل ذوالفقار خاصخیلی اور ان کے ٹیچر بھائی فرحان کو حراست میں لے لیا۔

 تاہم اسی دوران ناصرف ہرجیت اور دشینا بلکہ ان کی بڑی بہنوں جیا اور دیا بائی کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری ہو چکی تھیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا ہے۔

ڈی ایس پی شہداد پور تنویر کاظمی بتاتے ہیں کہ پولیس نے شواہد اور فرحان کی نشاندہی پر تینوں بہنوں اور کزن ہرجیت کو کراچی کے علاقے بنارس میں قائم ' گوشہ عافیت' نامی شیلٹر ہوم سے برآمد کیا۔ پہلے انہیں متعلقہ تھانے شاہ جہاں لے جایا گیا اور پھر وہاں سے چاروں کو تھانہ شہدادپور لایا گیا۔

بھگوان داس کے کزن راج کمار اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشینا اور ہرجیت کو شہدادپور سے اٹھایا گیا۔ یہاں سے ملزمان اسی کار میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو پہنچے جہاں سے جیا بائی کو ساتھ لیا، پھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے دیا بائی کو لے کر سب کو گوشہ عافیت چھوڑا۔

 لڑکیاں اور بچہ والدین سے ملنے سے انکاری تھے: آئی جی

لڑکیوں اور ہرجیت کے والدین پولیس کی منتیں کرتے رہے کہ انہیں تھانہ شہدادپور میں ان کی بیٹیوں اور بچے سے ملنے دیں مگر ملاقات نہیں کرائی گئی۔ انسپکٹر جنرل سندھ غلام نبی میمن مصر ہیں کہ پولیس نے ملاقات سے منع نہیں کیا، لڑکیاں اور بچہ ہی والدین سے ملنے سے انکاری تھے۔

راج کمار کے بقول بہت کوششوں اور تعلقات استعمال کرنے کے بعد 19 اور 20 جون کی درمیانی شب تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ایک پولیس اہلکار کے واٹس ایپ نمبر سے دشینا کی اپنی والدہ اور بھائی سے بات کرائی گئی۔

"والدہ نے دشینا سے کہا میری پیاری بیٹی آپ اپنی مما کے پاس آجاؤ، ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔ بہنیں کہاں ہیں ان سے کہو بات کریں۔ دشینا نے جواب دیا مما میں گھر نہیں آؤں گی اب بہت دیر ہو چکی ہے۔"

ماں منت ترلے کرتی رہی مگر بیٹی کا کوئی جواب نہیں آیا اور دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔

ہفتہ 20 جون کی صبح پولیس نے حجاب میں ملبوس تینوں بہنوں اور ہرجیت کو سخت سکیورٹی میں سول جج درجہ اول و جوڈیشل مجسٹریٹ 2 شہدادپور اعجاز علی چانڈیو کی عدالت میں پیش کیا۔

متاثرہ خاندان کے وکیل خدا بخش (کے بی) لغاری بتاتے ہیں کہ تینوں لڑکیوں اور ہرجیت کی کمرہ عدالت میں والدین سے ملاقا ت کرائی گئی مگر چاروں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔

"لڑکیوں اور بچے نے عدالت میں دفعہ 164 کے تحت اپنے اپنے (اقراری) بیان میں بتایا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا۔ ہم اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے اور ہمیں مرضی سے رہنے دیا جائے۔"

جیا بائی (اسلامی نام مریم) اور دیا بائی (خدیجہ) اسلام قبول کر چکیں وہ جہاں چاہیں جا سکتی ہیں: عدالت

عدالت میں وکیل کے بی لغاری نے موقف اختیار کیا کہ یہ چاروں (لڑکا اور لڑکیاں) دباؤ کے ماحول میں بیان دینے آئے ہیں۔ پولیس ان کو پہرے میں عدالت لے کر آئی ہے جو کوئی آزادانہ رائے اور مرضی نہیں، ان کو آزاد اور محفوظ ماحول میں رکھنے کے بعد بیان لیا جائے۔

"دشینا اور ہرجیت کی عمر 18 سال سے کم ہے جو قانون کے مطابق اپنی مرضی سے فیصلے کے مجاز نہیں ہیں۔ تاہم قانون یونیورسٹی میں زیر تعلیم دو بہنوں کی مرضی کا احترام کرتا ہے۔"

عدالت میں خاصخیلی برادران کے وکیل محبوب بھمبھرو ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ لڑکی اور بچہ اپنی مرضی سے گوشہ عافیت گئے اور یہ کہ سب نے کسی دباؤ کے بغیر ہی اسلام قبول کیا ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے فریقین کو سننے کے بعد تینوں لڑکیوں اور بچے کو گوشہ عافیت کراچی منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ جیا بائی (اسلام قبول کرنے بعد مریم) اور دیا بائی (اسلام قبول کرنے کے بعد خدیجہ) جو ایم بی بی ایس اور بی ایس کی طالبات ہیں، نے فیصلہ کن بیان دیا ہے کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں۔ اس کا انہیں آئینی تحفظ حاصل ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک کم عمر بچوں دشینا (اسلام قبول کرنے بعد سدرہ) اور ہرجیت کمار (اسلام قبول کرنے کے بعد عبدالرافع) عرف ہنی کے قبول اسلام کرنے کا تعلق ہے، یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ نابالغ کو اپنا مذہب چھوڑنے کی قانونی اہلیت حاصل نہیں ہوتی اور مذہب کی تبدیلی بذاتِ خود والدین کو بچے کی تحویل کے حق سے محروم نہیں کرتی۔

عدالت نے حکم دیا کہ جیا بائی (اسلامی نام مریم) اور دیا بائی (اسلامی نام خدیجہ) بالغ ہونے کے ناطے اپنے بیان کے مطابق جہاں چاہیں جا سکتی ہیں۔

کم عمر دشینا ( سدرہ) اور ہرجیت کمار (عبدالرافع) ایک ایک کروڑ کے مچلکوں پر والدین کے حوالے

عدالت نے قرار دیا کہ کم عمر بچوں دشینا(اسلامی نام سدرہ) اور ہرجیت کمار(اسلامی نام عبدالرافع) کو والدین یا درخواست گزاروں کے حوالے کیا جاتا ہے مگر وہ (والدین) ایک، ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرائیں کہ ان بچوں پر اسلام سے مذہب کی تبدیلی کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے۔

انہیں آزادی سے ان کے مذہب پر چلنے اور اس سلسلے میں اپنی زندگی میں راہ اختیار کرنے کی اجازت دیں گے۔

لواحقین مچلکے جمع کرانے کے بعد عدالتی فیصلے پر دشینا(سدرا) اور ہرجیت(عبدالرافع) کو  گوشہ عافیت سے اپنے گھر شہدادپور لے آئے۔

شہداد پور کا قدیم علاقہ سوائی روڈ 'سوائی صاحب 'کے نام سے منسوب ہے جو یہاں ہندؤں کی مڑھی کے پہلے گدی نشین تھے۔ اس مڑھی کو باووں کی مڑھی کہا جاتا ہے، وہ باوے جو عمر بھر شادی نہیں کرتے۔ اس علاقے میں لوہانہ برادری کے لوگوں کی کافی تعداد میں آباد ہے۔

نوجوان راجیش کمار سندھ میں ہندو لڑکیوں اور بچوں کی مذہبی تبدیلی کو جبر اور زور زبردستی سمجھتے ہیں۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اقلیتی ارکان پارلیمان میں موجود ہیں وہ مذہبی تبدیلی سے متعلق قانون سازی کرائیں تاکہ ہندو بچے اور لڑکیاں محفوظ رہ سکیں۔

گھر واپس آنے والی دشینا (سدرہ) تصدیق کرتی ہیں کہ انہیں فرحان خاصخیلی کا بھانجا سیف اللہ دوسری گلی تک لے گیا جہاں فرحان کار لے آیا۔

"وہی(فرحان) کراچی تک ساتھ رہا اور ہم سب (تینوں بہنوں اور ہرجیت/عبدالرافع) کو گوشہ عافیت میں ایک خاتون کے حوالے کر کے چلا گیا۔"

کراچی میں بے سہارا خواتین کے لیے گوشہ عافیت جماعت اسلامی نے بنایا

شہداد پور پولیس نے کراچی کے جس گوشہ عافیت نامی شیلٹر ہوم سے لڑکیوں کو برآمد کیا وہ شاہراہ نور پر واقع ہے۔ یہ ادارہ جماعت اسلامی نے 2001ء میں بے گھر، بے سہارا خواتین کے لیے قائم کیا تھا جس کا انتظام اب بھی اسی کے پاس ہے۔

لڑکیوں کے عدالت پہنچنے سے پہلے جب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے ترجمان صہیب احمد سے ان تین بہنوں سے متعلق معلوم کیا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ گوشہ عافیت میں ایسی کوئی لڑکیاں نہیں آئیں۔

تاہم ترجمان کو عدالت میں تینوں لڑکیوں کے بیان اور عدالتی فیصلے میں جیا بائی (مریم) اور دیا بائی (خدیجہ) کو ان کی مرضی کے مطابق گوشہ عافیت بھیجنے کے حکم کی کاپی بھیجی گئی۔

اس بار سوالات کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ تینوں لڑکیوں اور بچے کو سکینہ عابد نامی خاتون 18 جون کی دوپہر ایک بجے گوشہ عافیت لے کر آئی تھیں جہاں انہیں ملازمہ زینب کلیم اور انتظامیہ کے حوالے کیا گیا۔ لڑکیوں کو گوشہ عافیت اور بچے کو الفلاح مدرسے میں رکھا گیا تھا۔

صہیب احمد کے مطابق لڑکیوں نے تین سال پہلے اسلام قبول کیا، وہ پناہ لینے گوشہِ عافیت کراچی آئیں انہیں اپنے گھر والوں سے تحفظ چاہیے تھا۔

یہاں ایک اور بات قابل ذکر بات ہے جو شہدادپور بار کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتائی۔ 

وہ کہتے ہیں کہ خاصخیلی برادران کے وکیل (محبوب بھمبھرو) ایک ماہ قبل ہی ساتھی وکلا سے قانونی حوالوں پر مشاورت کرتے پھر رہے تھے تاکہ کچھ لڑکیوں کو مسلمان کیا جا سکے جن میں دو کم سن بھی شامل ہیں۔

تاریخ اشاعت 23 جون 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.