طوطی خان اور ان کے دوست چھپر نما دکان کے باہر چبوترے پر بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں، سامنے دور تک پتھروں سے بھری وسیع بنجر زمین نظر آ رہی ہے۔ یہ تحصیل بحرین (ضلع سوات) کا گاؤں لگن کار ہے جو درال خوڑ ہائیڈرو پاور ڈیم سے نصف کلومیٹر جنوب میں واقع ہے مگر یہ علاقہ کہیں سے سوات جیسے سرسبز و شاداب علاقے کا حصہ نہیں لگتا۔
طوطی خان اس ویران منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں ہے، یہ درال ویلی ہے جہاں کبھی لہلہاتے کھیت اور ہرے بھرے درخت ہوا کرتے تھے۔ وہ اور ان کے رشتہ دار ان زمینوں پر گندم، مکئی، کھیرا، بند گوبھی اور دیگر سبزیاں کاشت کرتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گرمیوں کے سیزن میں جب ملک میں سبزیاں کم پڑ جاتی ہیں تو وادی درال سے بڑی مقدار میں کھیرا راولپنڈی اور اسلام آباد کی منڈیوں میں جاتا تھا۔ یہاں کے لوگ کاشتکاری کے ساتھ شہروں میں خود سبزیاں سپلائی کرتے تھے۔
"دریائے درال سے روحانی رشتہ ہے، یہ ہمارے لیے ایک نعمت، روزگار اور کاروبار کا ذریعہ تھا مگر درال خوڑ ہائیڈرو پاور منصوبے کی تعمیر سے وادی درال ویران ہونا شروع ہوگئی۔ رہی کسر سیلاب نے نکال دی جس نے ہماری زمینیں کھود ڈالیں اور کھیتوں کی جگہ گڑھے اور پتھر رہ گئے۔"
طوطی خان کا کہنا ہے کہ درال ڈیم کا بند پوسواڑ گاؤں میں بناہے جہاں سے پانی کو ایک ٹنل میں ڈال کر دریا کا رستہ بدل دیا گیا ہے۔ اس سے صرف ان کا گاؤں نہیں بلکہ درال ویلی کے 16 دیہات پانی، ایریگیشن چینلز، 13 پن چکیوں اور نو مقامی پن بجلی گھروں سے محروم ہوگئے ہیں۔

دریائے سوات کے معاون دریا (پہاڑی ندی) درال پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 2019ء میں مکمل ہوا
درال خوڑ ہائیڈرو پاور، خیبرختونخواہ حکومت نے بحرین میں دریائے سوات کی معاون ندی (یا پہاڑی نالہ) درال پر بنایا تھا جس کو 132کے وی ٹرانسمشن لائن کے ذریعے مدین گرڈ سٹیشن پر قومی گرڈ سے منسلک کیا گیا ہے۔
پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے مطابق 36.6 میگاواٹ صلاحیت کا یہ منصوبہ ٹرانسمشن لائن سمیت تقریباً ساڑھے آٹھ ارب (8493 ملین) روپے کی لاگت سے 2019ء مکمل کیا گیا۔
اس ہائیڈرو پاور کی کمرشل آپریشن کی تاریخ (سی او ڈی ) 26 مئی 2021ء ہے جس نے مالی سال 22-2021ء تک این ٹی ڈی سی کو 464 گیگاواٹ بجلی فراہم کی۔ تاہم ستمبر 2022ء میں سیلاب نے اس منصوبے کو بری طرح نقصان پہنچایا، پیداوار معطل ہو گئی جو کروڑوں روپے کی لاگت سے ڈھائی سال بعد بحال ہوئی ہے۔
درال ندی میں تقریباً سارا سال پانی دستیاب ہوتا ہے جو بحرین شہر ہی میں آکر دریائے سوات میں شامل ہو جاتا تھا لیکن پاور پراجیکٹ کے لیے رخ موڑے جانے سے اب اس کا پانی شہر سے ایک کلومیٹر نیچے دریائے سوات میں آ گرتا ہے۔
طوطی خان اور ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ درال ندی میں طغیانی پہلے بھی آتی تھی مگر 2022 کے سیلاب میں سب کچھ تباہ ہو گیا۔ ٹنل مکمل ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اپنے گھر اور کھیت کسی حد تک بحال کر لیے تھے، یہ سیلاب وہ بھی بہا لیا گیا۔
وہ اس تباہی کا ذمہ درا بھی درال خوڑ منصوبے کو سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈیم کے گیٹ بند کرکے پانی کو روکا گیا جس نے دوسری طرف پہاڑی کو کاٹ کر علاقے میں تباہی مچادی۔

ماحولیاتی و سماجی اثرات پر مبنی کوئی تفصیلی سٹڈی منظر عام پر نہیں آئی
درال خوڑ کی پہلی فزیبلیٹی رپورٹ سرحد ہائیڈرو ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (شائیڈو) نے 1997ء میں تیار کی تھی۔ بعدازاں پاور پالیسی 1998ء کے تحت درال خوڑ سمیت پانچ ہائیڈرو پراجیکٹس میں نجی سرمایہ کاری کے لیے مشترکہ رپورٹ بنائی گئی تھی۔
تاہم اس رپورٹ میں مذکورہ پراجیکٹ کے حوالے سے محض لوکیشن، پانی کے بہاؤ ، تکنیکی معلومات، ممکنہ پیداوار اور لاگت کا تخمینہ بتایا گیا تھا۔
یہی رپورٹ پیڈو نے ایشیائی ترقیاتی بنک کو بھی پیش کی، بنک نے 2006ء میں پاکستان میں رینیوایبل انرجی میں تعاون کے منصوپے کی منظوری دی جس میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے آٹھ ذیلی منصوبے(بمع درال) شامل تھے۔
بنک نے اگرچہ درال خوڑ منصوبے میں سات ارب روپے کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم اس رپورٹ میں بھی علاقے کے ماحول اور جنگلی و آبی حیات کا ایک سطحی سا جائزہ پیش کیا گیا۔
یعنی درال خوڑ ہائیڈرو منصوبے کی آج تک کوئی ایسی سرکاری تفصیلی سٹڈی منظرعام پر نہیں آئی جس میں اس پراجیکٹ کے مقامی آبادی پر ممکنہ(منفی) سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہو۔
درال ڈیم پر تفصیلی سٹڈی نہ ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ 2011ء میں مقامی لوگوں کی شکایات اور احتجاج کے نتیجے میں ایشیائی بینک نے اس منصوبے کی مالی معاونت سے انکار کر دیا تھا۔
محقق اور مقامی سماجی رہنما زبیر توروالی اب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ درال ہائیڈرو پاور منصوبے سے کم از کم 15 ہزار لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں جنہیں اپنی زرعی زمینوں، گھروں اور سیاحت سے وابستہ کاروبار سے ہاتھ دھونے پڑے۔

عدالتی فیصلے کے بعد متاثرین کو 45 لاکھ 92 ہزار روپے دیے گئے
درال خوڑ ہائیڈرو منصوبے سے ہونے والے نقصانات، گھروں، درختوں، کھیتوں اور اس کے لیے حاصل کی جانے والی اراضی کے ازالے کی سرکاری تفصیلات آج تک سامنے نہیں آ سکیں۔
تاہم پشاور ہائیکورٹ مینگورہ بنچ میں کچھ متاثرین کی درخواست پر تحریری جواب میں شائیڈو/پیڈو کے ڈائریکٹر فنانس اینڈ ایڈمنسٹریشن نے بتایا تھا کہ پہلے متاثرین کے لیے 33 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن عدالتی فیصلے کے بعد وہ(متاثرین) کسی احتجاج کے بغیر 45 لاکھ 92 ہزار وصول کر چکے ہیں۔
طوطی خان کہتے ہیں کہ درال ویلی کے گاؤں پسوارڑ، جھیک، لگن کار، اپر بیر، لوئر بیر، لگن، اوشا، ابیارین، نیام، دوگا، جھیل، گنشو، کمبلئی، بحرین، جنی اور جلبا گاؤں کے کسان بیروزگار ہو گئے۔
اس دیہات کی حالت دیکھیں، یہاں لوگ مٹی کے مکانوں میں رہتے ہیں جن پر جستی چادروں کی چھتیں ڈلی ہوئی ہیں۔ انہیں اپنے پانی اور پن بجلی گھروں سے بھی محروم کر دیا گیا مگر ڈیم والوں کو یہاں بجلی دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ویلی میں آباد تمام لوگوں نے اب اپنی استطاعت کے مطابق تین سے 10 ہزار روپے خرچ کرکے چھوٹے چھوٹے سولر پینل لگائے ہیں جن سے وہ بجلی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ جو سولر نہیں خرید سکتے وہ آج بھی گھر میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے دیا جلاتے ہیں۔
"اس پراجیکٹ کے بعد ٹھنڈی ہوائیں بھی ہم سے روٹھ گئی ہیں ورنہ ہمیں پنکھے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ میں دو سال سے بیروزگار بیٹھا ہوں، میرا بیٹا سعودی عرب میں مزدوری کر کے کچھ رقم بھیجتا ہے تب کہیں ہمارے گھر کا چولہتا جلتا ہے۔"

درال ویلی کے سب چشمے خشک ہو گئے لوگ مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں
گاوں جھیک کے رہائشی شیرین زادہ درال پراجیکٹ سے پہلے کاشتکار اور ایک چھوٹے سے باغ کے مالک ہوا کرتے تھے لیکن اب روزی روٹی کے لیے دہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ڈیم بننے سے قبل ان کے گاؤں میں فری بجلی، واٹر سپلائی سکیم، سکول اور ہسپتال بنانے کے وعدے کیے گئے تھے مگر کچھ نہیں ملا۔
"کیا کریں! بے بس ہیں حکومت کے ظلم کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے۔ اب تو دریا کو دیکھنے کے لیے بھی پوسواڑ جانا پڑتا ہے"
خان زادہ خان، بحرین بازار کے نواحی گاؤں جھیل کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈیم والوں نے وعدہ کیا تھا کہ درال ندی کے بحرین سے گزرنے والے پرانے راستے پر باقاعدگی سے پانی چھوڑا جائے گا لیکن وہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا جا رہا۔ اوپر سے لوگ سیوریج کا پانی وہیں ڈال رہے ہیں جس سے بدبو کے باعث پاس سے گزرنا بھی محال ہوگیا ہے۔
درال ویلی جو بحرین میں ٹھنڈے میٹھے چشموں کے لیے مشہور تھی وہاں اب کوئی چشمہ نہیں بچا سب خشک ہو چکے ہیں، بازار میں ہوٹلز اور کئی رہائشی علاقوں کے لوگ مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 2011ء میں جب درال ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پلاننگ منظرعام پر آئی تو مقامی لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیے اور اپنے تحفظات پیش کرتے رہے مگر ان کی کسی نے نہیں سنی۔

جہاں سیاحوں کا رش رہتا تھا دریائے درال کا وہ پرانا راستہ جوہڑ بن چکا
غیر سرکاری تنظیم دی سٹیزن فار کلین انوائرمنٹ (سی سی ای) نے بھی اس وقت سپریم کورٹ سے درال پراجیکٹ کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ اس دریا پر 30 ہزار سے زائد لوگوں کا انحصار ہے جن کے لیے یہ منصوبہ پینے کے پانی، آبپاشی، ماحول اور سیاحت کے کاروبار میں مسائل پیدا کرے گا۔
عبدالکریم، دریائے درال اور سوات کے سنگم پر ہوٹل چلاتے ہیں مگر اب پیک سیزن میں بھی ان کے ہوٹل میں کوئی سیاح نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دریائے سوات کے قریب ہوٹلوں میں رش ہے مگر یہاں درال میں پانی نہ ہونے اور تعفن کی وجہ سے کوئی نہیں آرہا۔
"ہمارا سب کچھ تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"
ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب سے جب درال پاور پراجیکٹ سے مقامی لوگوں کی مشکلات پر بات گئی تو حسب معمول ان کا کہنا تھا کہ حکومت ترقیاتی منصوبے عوام کے فائدے کے لیے بناتی ہے۔ اس پراجیکٹ سے بھی ملک کا فائدہ ہو رہا ہے۔
"اتنے بڑے منصوبوں میں چھوٹے موٹے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت ان معاملات کا بہتر جواب دے سکتی ہے۔ ہم صرف عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کررہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں۔"
یہ بھی پڑھیں

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کو سیلاب سے بچانے کے لیے ٹانک زام ڈیم کا منصوبہ متنازع کیوں ہوا؟
جہاں پرائمری سکول تھا وہاں سیلاب کے بعد سے ملبہ پڑا ہے، بچے پڑھائی چھوڑ گئے
لگن کار گاؤں میں طوطی خان اور ان کے دوستوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہی دو بچے اور تین بچیاں سکول سے واپس آتے دکھائی دیے جو تھکے ہارے پسینے میں شرابور پیدل چلے آ رہے ہیں۔
گیارہ سالہ ثانیہ پہلے اپنے گاؤں (لگن کار) کے پرائمری سکول میں زیرتعلیم تھیں لیکن سیلاب کے بعد سے کئی کلومیٹر دور پرائمری سکول لگن میں پڑھنے جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ صبح 6 بجے گھر سے نکلتی ہیں اور نو بجے سکول پہنچتی ہیں۔
تعلیم حاصل کرنا اُن کا شوق اور دور کے سکول جانا مجبوری ہے کیونکہ سیلاب کے بعد ان کا سکول بحال نہیں ہو سکا۔وہ کہتی ہیں کہ دشوار گزار راستے اور لینڈسلائیڈنگ کے خطرے کی وجہ سے بارشوں کے دوران ان کے گاؤں کا کوئی بچہ سکول نہیں جا پاتا۔
محکمہ تعلیم سوات تصدیق کرتا ہے کہ 2022ءکے سیلاب میں درال ویلی کے سات سرکاری سکولوں کو نقصان پہنچا تھا جن میں لگن کار کا پرائمری سکول بھی شامل ہے۔
اب گاؤں میں اس سکول کی تباہ شدہ عمارت کا ملبہ پڑا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے اکثر بچوں نے پڑھائی چھوڑدی ہے۔ تاہم نو بچیاں اور صرف چار لڑکے خطرناک راستوں سے دوسرے گاؤں یعنی لگن میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔
عبدالکریم کہتے ہیں کہ بستیاں، بحرین شہر، کھیت، جنگل، ماحولیات، سیاحت اور بچوں بچیوں کی تعلیم سمیت کوئی شعبہ درال خوڑ ہائیڈرو پراجیکٹ کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔
اب سنا ہے بحرین میں ایک اور بجلی گھر(مدین ہائیڈرو پراجیکٹ) کے لیے دریائے سوات کا رخ موڑنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہاں جنگلات اور ماحولیاتی کی بربادی کے ساتھ مقامی لوگوں کے ذرائع معاش کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
تاریخ اشاعت 9 جولائی 2025