دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

postImg

عمر باچا

postImg

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

عمر باچا

گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں دریائے سندھ پر اس وقت ملک کے دو بڑے پن بجلی گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

دیامر بھاشا ہائیڈرو پراجیکٹ ایشیا کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہوگا جو ساڑھے تین ارب ڈالر کی لاگت سے ضلعی ہیڈکوارٹر چلاس سے 40 کلومیٹر نیچے جی بی اور خیبرپختونخوا کے سنگم پر بنایا جا رہا ہے۔

اس ڈیم میں 8.10 ملین ایکڑ فٹ واٹر سٹوریج اور ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔

دوسرا ہائیڈروپاور داسو ڈیم، خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع اپر کوہستان میں دیامر بھاشا سے ٹھیک 74 کلومیٹر نیچے (ڈاؤن سٹریم ) اور داسو شہر سے 31 کلومیٹر پر تعمیر ہو رہا ہے۔

تقریباً ڈھائی ارب ڈالر سے بننے والا یہ ڈیم 1.13 ملین ایکڑ فٹ واٹر سٹوریج اور پانچ ہزار 400 میگاواٹ بجلی کی مجموعی صلاحیت کا حامل ہو گا۔

دونوں کی تعمیر کے پہلے مرحلے یعنی سروے کے آغاز سے ہی متعلقہ علاقوں کے رہائشی (متاثرین) وقفے وقفے سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ چلاس میں مظاہرے ہوئے اور قراقرم ہائی وے پر دھرنے دیے گئے۔ بعض اوقات احتجاج میں تشدد بھی در آیا جس سے کئی لوگ زخمی ہوئے۔

ان منصوبوں پر کام شروع ہونے سے پہلے ہی ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی جس سے کئی مسائل سامنے آئے۔

نقصانات کے ازالے سے جڑے معاملات طے کرنے کے لیے چلاس اور ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد میں بڑے بڑے جرگے منعقد ہوئے لیکن متاثرین ابھی تک بے چینی کا شکار ہیں اور آئے روز نئے احتجاج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

مذکورہ منصوبوں میں سے داسو ڈیم کی مالی معاونت عالمی بینک کر رہا ہے جبکہ دیامر بھاشا حکومت پاکستاں اپنے وسائل سے بنا رہی ہے۔ تاہم دونوں کی تعمیر کا نگران ادارہ واپڈا ہے۔

متاثرین الزام عائد کرتے ہیں کہ واپڈا اور انتظامیہ نے ان کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں کیے گئے۔

آئیے پہلے متاثرین کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں۔

دیامر پراجیکٹ ایریا سے 29 ہزار لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے

دیامر بھاشا ڈیم کی انوائرنمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ (ای آئی اے) رپورٹ  بتاتی ہے کہ اس آبی ذخیرے کی لمبائی لگ بھگ 110 کلومیٹر ہوگی۔ جھیل 128 مربع کلومیٹر وسیع ہو گی جس کا تقریباً 115 مربع کلومیٹر علاقہ زیر آب (سرفیس ایریا)   ہو گا۔

بھاشا ڈیم کی آخری ای آئی اے رپورٹ 2010ء میں مکمل ہوئی تاہم یہاں آبادیوں کا سروے 8-2007ء ہی مکمل کر لیا گیا تھا۔

اُس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق ڈیم منصوبے سے چار ہزار 135 گھرانوں (دوسرا سروے 4310 بتاتا  ہے)کی 22ہزار 479 کنال (تقریباً 2810 ایکڑ) زرعی اراضی متاثر ہوئی۔ یعنی فی خاندان اوسطاً 5.44 کنال زمین سے محروم ہوا۔

جنگلات اور باغات کے سوا پانچ لاکھ سے زائد درخت بشمول دولاکھ 84 ہزار پھلدار پودے اس منصوبے کی زد میں آئے جبکہ پراجیکٹ کے علاقے میں 66 ہزار زائد پالتو جانور بھی گنے گئے۔

دیامر بھاشا پراجیکٹ سے بالواسطہ 226 آبادیاں متاثر ہوں گی۔ تاہم براہ راست متاثرین میں 31 گاؤں اور بکھری بستیوں کے لگ بھگ 29 ہزار لوگ شامل ہیں جو 31 ہزار گھروں ، 453 دکانوں اور 40 ہوٹلز، پٹرول پمپس، آرا مشینوں سمیت مختلف کاروبار سے محروم ہو گئے۔

اس منصوبے میں 94 کلومیٹر قراقرم ہائی وے، 61 کلومیٹر رابطہ سڑکیں، چھ سسپنشن پل، 24 پرائمری سکول، سات بنیادی مراکز صحت و ڈسپنسریاں اور سات ابتدائی طبی پوسٹیں بھی ڈوب جائیں گی۔

مزید براں گلگت بلتسران تین ہزار 100 منقش پہاڑیوں و پتھروں سمیت ایک بڑا تاریخی وثقافتی ورثے سے محروم ہو جائے گا۔ ڈیم کے ماحولیاتی اثرات کے نتیجے میں جنگلی و آبی حیات اور بناتات کو پہنچنے والے نقصانات علاوہ ہیں۔

داسو ڈیم سے سات ہزار افراد بے گھر ہو جائیں گے

ورلڈ بینک کی اسیسمنٹ  رپورٹ (2014ء) کے مطابق داسو ڈیم کے لیے11 ہزار 473 ایکڑ رقبہ حاصل (ایکوئر) کیا جائے گا جس میں ایک ہزار 45 ایکڑ زرعی زمین اور چراہ گاہیں شامل ہیں۔ اس سے 34 آبادیوں میں رہنے والے 767 خاندانوں کے لگ بھگ سات ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

پراجیکٹ ایریا میں 50 دکانوں، درجنوں کمرشل عمارتوں، کاروبار، سات سکولوں، دو بنیادی مراکز صحت اور تین کمیونٹی سنٹرز سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

شاہراہ قراقرم کا 62 کلومیٹر حصہ ، تین ہزار پھلدار پودوں سمیت 22 ہزار درخت، ایک 400 سالہ قدیم مسجد،46 منقش پہاڑیاں، 202 ایکڑ پر مشتمل ایک نجی گیم ریزرو ایریا، کئی پل اور رابطہ سڑکیں بھی ڈیم برد ہو رہی ہیں۔

اسیسمنٹ رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا سے داسو ڈیم تک سارا 74 کلومیٹر دریائے سندھ عملاً جھیل میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں اطراف کی آبادیاں متاثر ہوں گی۔

واضح رہے داسو ڈیم  سےبجلی قومی گرڈ میں شامل کرنے کے لیے داسو سے اسلام آباد مغربی گرڈ تک 250 کلومیٹر طویل، 765 کے وی (ہائی وولٹیج ڈبل سرکٹ) ٹرانسمشن لائن بھی بچھائی جا رہی ہے جس سے لگ بھگ پانچ ہزار ایکڑ رقبہ متاثر ہو گا۔ 

 ترسیلی منصوبہ، داسو ہائیڈرو پراجیکٹ  سے الگ ہے جس  سے ایک ہزار 88 دیہی خاندانوں (سات ہزار 749 افراد) کو اپنے گھروں، کمرشل عمارتوں، پولڑی فارمز اور فصلوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ روٹ پر 29 ہزار 729 درخت (بشمول پھلدار اور ٹمبر) کاٹے جائیں گے۔

بہرحال ضلعی انتظامیہ اپر کوہستان سے حاصل کردہ اعدادو شماد کے مطابق داسو ڈیم منصوبے کے لیے لینڈ ایکوزیشن کا کام تقریباً مکمل کر لیا گیا ہے صرف 625 ایکڑ زمین کا حصول باقی ہے۔ تاہم مزید زمین ایکوئر کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔

متاثرین سے معاوضے کے علاوہ بحالی کے منصوبوں سمیت کئی وعدے کیے گئے

ای آئی اے دیامر بھاشا رپورٹ کے مطابق زمین کے حصول اور ازالے کے لیے ایکوزیشن ایکٹ 1894ء اور ری سیٹلمنٹ آرڈیننس 2002ء دونوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا مگر متاثرین اس طریقہ کار سے مطمئن نہیں تھے۔

سروے کے دوران صرف 37 فیصد گھرانوں نے مجوزہ ماڈل ویلیجز میں منتقلی پر رضامندی ظاہر کی، 10 فیصد رضاکارانہ طور پر نقل مکانی کر گئے جبکہ 53 فیصد خاندانوں نے گھروں کے عوض نقد رقم لینے کو ترجیح دی۔

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ فروری 2010ء میں چلاس میں مظاہرے شروع ہوگئے اور بد قسمتی سے احتجاج میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔

بالآخر مذاکرات کے بعد تنازع طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں جی بی انتظامیہ، واپڈا اور متاثرین و دیگر کے نمائندے شامل تھے۔ کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی کمشنر دیامر کو سونپی گئی۔

طویل بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ ہر متاثرہ خاندان کو 5.44 کنال زرعی اراضی کے عوض چھ کنال زمین الاٹ کی جائے گی۔

ساتھ ہی بے گھر ہونے والے ہر شادی شدہ جوڑے کو (Enhance self-management relocation package) پیکج کے تحت 47 لاکھ روپے دیے جائیں گے جسے عرف عام میں 'چولہا پیکج' کہا جاتا ہے۔ کمرشل اثاثوں کی ادائیگی کے علاوہ ہو گی۔

صرف یہی نہیں، بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے حصے کے طور پر اے ایل اینڈ آر(زمین کا حصول اور بحالی ) کے تحت متاثرین کے لیے ماڈل ویلج، نئی رابطہ سڑکوں، واٹر سپلائی، سیوریج سسٹم، مساجد، شاپنگ سنٹرز، تعلیم وصحت اور چھوٹے ہائیڈرو منصوبوں کی تعمیر سمیت کئی وعدے بھی کیے گئے تھے۔

اسی طرح داسو ڈیم کے متاثرین کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ فی خاندان (شادی شدہ جوڑا) 37 لاکھ روپے چولہا پیکج طے پایا تھا۔ 

متاثرین کے خدشات اور عدالتوں سے رجوع، انتظامیہ کے بہانے اور تاریخ پر تاریخ

ستاسٹھ سالہ صاحب ذادہ اپر کوہستان اپر کے علاقہ کیگا میں رہتے تھے جہاں ان کی دو بیویاں اپنے بچوں کے ساتھ الگ الگ گھروں میں مقیم تھیں۔ لیکن اب وہ دونوں بیویوں اور شادی شدہ بیٹوں سمیت کمیلہ بازار میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
ان کے آبائی گھروں کی جگہ اب داسو پراجیکٹ تک جانے کے لیے سڑک اور قراقرم ہائی وے ٹو بن رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں گھر سے زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان کے دو مکانات کو ایک ظاہر کیا گیا جس کے خلاف انہوں نے ڈسٹرکٹ کلیکٹر کو درخواست دی مگر انصاف نہیں ملا۔

"اب میں نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے لیکن وہاں سے تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے جبکہ واپڈا اور انتظامیہ کے نمائندے بہانہ بازی سے کام لے رہے ہیں۔

میرے دو شادی شدہ بیٹوں کو بھی صرف ایک چولہا پیکج(35 لاکھ روپے) ملا ہے جبکہ دو مکانات اور ایک دکان کا کچھ نہیں دیا گیا۔"

ضلع دیامر کے رہائشی ضیاء الحق اپنے گاؤں تھوریل نالہ میں آرا مشین اور فرنیچر بنانے کا کارخانہ چلاتے ہیں۔ 200 کے قریب گھروں پر مشتمل یہ گاؤں بھاشا ڈیم کی جھیل کی نذر ہو جائے گا۔

ضیاء الحق بتاتے ہیں کہ واپڈا نے گاؤں کی اراضی اور جائیدادیں ایکوئر کرنے کا عمل شروع کردیا ہے مگر ابھی تک کسی کو رقم نہیں ملی۔ البتہ جہاں کام شروع ہو چکا ہے وہاں پر چولہا پیکج کی رقم دی جا چکی ہے۔

"میرے آٹھ بچے سکولوں کالجوں میں پڑھ رہے ہیں جبکہ کارخانے کے سوا میرا کوئی ذریعہ روزگار نہیں ہے۔ سخت پریشان ہوں اگر حکومت نے خدانخوستہ بلا معاوضہ زمین، کارخانہ اور گھر لے لیا تو میرا کیا بنے گا؟۔

 میرے تین بھائی بھی میری طرح تذبذب کا شکار ہیں جن کی تھوریل نالہ قراقرم ہائے وے پر دکانیں ہیں۔"

"سروے کو برس ہا برس بیت چکے، تمام شادی شدہ جوڑوں کو پیکج دیا جائے"

ضلعی انتظامیہ کا ریکارڈ بتاتا ہےکہ دیامر بھاشا کے لیے درکار 36 ہزار ایکڑ رقبے میں سے اب تک 32 ہزار ایکڑ سے زائد (تقریباً 91 فیصد) اراضی حاصل کی جا چکی ہے جبکہ اپر کوہستان کے 369 ایکڑ سمیت باقی رقبے کے معاملات ابھی زیر التوا ہیں۔۔

رواں سال فروری کے دوسرے ہفتے میں متاثرین نے چلاس  میں احتجاجی مظاہرہ کیا جن کا دعویٰ تھا کہ دو ہزار سے زائد متاثرین ابھی تک پیکج کے تحت ادائیگی کے منتظر ہیں۔

متاثرین کو گھروں، زمینیں جائیدادوں کا معاوضہ آج کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق دیا جائے اور وعدہ شدہ زمین (چھ کنال) کی فوری الاٹ کی جائے۔

مولانا حضرت اللہ، دیامر بھاشا ڈیم متاثرین کمیٹی کے لیڈر ہیں۔ وہ 30 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2010ء اور 2015ء کے معاہدوں کے تحت جن لوگوں نے مکانات کے چیک لیے تھے انہیں بھی چولہا پیکج میں شامل کیا جائے۔

سروے کو برس ہا برس ہو چکے، اب مہنگائی اور تاخیر کے باعث سے چولہا پیکج کی رقم دگنا کر کے تمام شادی شدہ جوڑوں کو پیکج دیا جائے۔ سابقہ سرویز کی غلطیوں کا ازالہ ہونا چاہیے اور 2015 کے بعد جو ضروری تعمیرات ہوئی ہیں ان کی بھی ادائیگیاں کی جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وعدوں کے مطابق تعلیم و صحت اور رہائشی سہولتیں دی جائیں۔ واپڈا ماڈل کالونی ہربن داس کو فوری مکمل کر کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ معاہدے کے تحت گریڈ 1 سے 16 تک تمام ملازمتیں دیامر کے نوجوانوں کو دی جائیں۔

چارٹر آف ڈیمانڈ میں تعلیمی وظائف، کندم پر سبسڈی میں اضافہ، عارضی ملازمین کی مستقلی ودیگر مطالبات شامل ہیں۔

مطالبات پورے نہ کیے گئے تو دوبارہ دھرنے کا آغاز کیا جائےگا: متاثرین بھاشا کمیٹی

چلاس میں متاثرین کے احتجاج پر تفصیلی رد عمل میں ترجمان واپڈا کا کہنا تھا کہ دیامر بھاشا کے متاثرین کو معاوضہ دینے کا عمل 2015ء میں مکمل کیا گیا۔ صرف نو فیصد کیس رہ گئے ہیں جن سے متعلق کاررائی جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چار ہزار 102 خاندانوں میں سے تین ہزار 826 کو چولہا پیکج کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ تاہم ریزروائر ایریا میں پانے نہ ہونے کے باعث مقامی لوگ ادائیگیوں کے بعد بھی وہیں مقیم ہیں۔ 

اسی طرح دکانوں، کاروباری مراکز اور پٹرول پمپوں سمیت کئی احاطے معاوضے کی ادائیگی کے بعد بھی قابضین سے خالی نہیں کرائے گئے۔

ترجمان کے مطابق جی بی کے کل دو ہزار 120 افراد واپڈا، کنسلٹنٹس اور کنٹریکٹرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک ہزار 600 کا تعلق دیامر سے ہے۔

واپڈا حکام کا موقف اب بھی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سماجی ترقی اور بنیادی انفراکچر سے متعلق متعدد تعلیمی و دیگر منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور کئی پر کام جاری ہے۔

تاہم بھاشا متاثرین کمیٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ منصوبے کے آغاز ہی میں متاثرین نے دو مہینے دھرنا دیا اور کام بند کرا دیا تھا۔ وفاقی وزیر امیر مقام اور چیئرمین واپڈا نے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ابھی تک معاملات آگے نہیں بڑھے۔

"ہمارے مطالبات (چارٹر آف ڈیمانڈ) پورے نہ کیے گئے تو دوبارہ دھرنے کا آغاز کیا جائےگا اور ڈیم پر کام بھی بند کرائیں گے۔"

گھر میں پانچ پانچ شادی شدہ بھائی ساتھ رہتے ہیں، سب کے لیے ایک ہی چولہا پیکج کہاں کا انصاف ہے؟

اپر کوہستان انتظامیہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ داسو متاثرین کو 23 ارب روپے کی ادائیگی کی جاچکی ہے۔ چولہا پیکج کے تین ہزار 80 کیسوں میں سے دو ہزار 566 نمٹائے جا چکے ہیں جبکہ 512 کیس ابھی باقی ہیں۔

داسو کے متاثرین کے ساتھ تعلیم صحت، سیوریج کی سہولیات، صاف پانی کی فراہمی، پختہ سڑکوں، تعلیمی سکالرشپس اور روزگار وغیرہ کے وعدے کیے گئے ۔

واپڈا، انتظامیہ اور متاثرین کے درمیان 2015ء سے دسمبر 2016ء تک مختلف اوقات میں کئی تحریری معاہدے ہوئے جن میں زمینوں، مکانات، املاک، قابل کاشت، کاروبار، دکانوں اور پھلدار درختوں تک کی قیمت کے تعین اور معاوضے کے نکات شامل ہیں۔

متاثرین کمیٹی کے رکن حافظ الرحمٰن بتاتے ہیں کہ اب تک ایک آدھ کے سوا کسی نکتے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ بحالی کاموں کے لیے انتظامیہ سے مذاکرات ہوتے ہیں مگر کوئی ٹھس سے مس نہیں ہورہا۔ یہاں تک کہ کمیٹی کو ورلڈ بینک کی ٹیم سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ قبل ڈپٹی کمشنر نے معاہدوں کے فالو اپ کے لیے 32 رکنی کمیٹی بنائی تھی جس کے پانچ اجلاس ہو چکے ہیں۔ تاہم ان اجلاسوں میں بھی زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی کام نہیں ہوا۔

اپر کو ہستان میں محمد رحیم اور ان کے گاؤں گیال سیر کے رہائشیوں نے بھی چولہا پیکج کی عد م ادائیگی کی وجہ سے ابھی تک اپنے گھر خالی نہیں کیے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ اور واپڈا حکام صرف سبز باغ دیکھاتے ہیں لیکن متاثرین کے لیے کوئی کام نہیں کررہے۔

"انہوں (انتظامیہ اور واپڈا) نے ملی بھگت سے ہمارے گھروں کو غیر رہائشی عمارتیں ظاہر کیا تاکہ چولہا پیکج نہ مل سکے۔ ہم لوگ ایک ہی گھر کے کمروں میں پانچ پانچ شادی شدہ بھائی ساتھ رہتے ہیں لیکن سب کو ایک چولہا پیکج دینا کہاں کا انصاف ہے؟"

تاریخ اشاعت 2 جولائی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.