پچھلے سال اگست میں ورلڈ بینک کو معمول سے ہٹ کر ایک خط موصول ہوا جس میں ناں تو قرضے یا ترقیاتی منصوبے کی درخواست کی گئی تھی اور نہ ہی اقتصادی امور پر کوئی مشورہ مانگا گیا تھا۔
یہ خط وادی سوات کے بالائی ریجن میں آباد توروالی کمیونٹی کے لوگوں کی فریاد ہے جو صدیوں سے جنگلات، چشموں اور دریاؤں کے درمیان پہاڑی وادیوں میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔
توروالی برادری نے دنیا کے اس بڑے ترقیاتی اور سرمایہ کار ادارے سے بس اتنی اپیل کی ہے کہ توروالی کو بحرین ضلع سوات کی مقامی آبادی (Indigenous Community) کی حیثیت سے تسلیم کی جائے۔
عالمی بینک کو آن لائن ارسال کیا جانے والا مراسلہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ توروالی کمیونٹی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)، اقوام متحدہ کے دفتر ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) اور ورلڈ بینک کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے۔
خط کا ابتدائیہ کہتا ہے کہ اگرچہ آئین پاکستان ملک میں آباد کسی بھی مقامی کمیونٹی کو تسلیم نہیں کرتا جن میں توروالی برادری بھی شامل ہے۔
تاہم عالمی بینک کا توروالی برادری کی مقامی حیثیت تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ انہیں علاقے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے منفی اثرات سے تحفظ حاصل ہو سکے، ان کی معدوم ہوتی زبان و ثقافت کو بچایا جائے اور بینک کی متعلقہ پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔

کل ڈیڑھ لاکھ توروالیوں میں سے ایک تہائی پہلے ہی روزگار کے لیے نقل مکانی کر چکے ہیں
عالمی بینک کو خط لکھنے والے زبیر توروالی، بحرین میں ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے سربراہ اور محقق ہیں جو دو دہائیوں سے تعلیم، توروالی زبان و ثقافت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سوات کے بالائی علاقوں بالخصوص بحرین سے کالام تک دریائے سوات کے دونوں اطراف اور مدین کے مشرق میں بشیگرام درے میں توروالی کمیونٹی آباد ہے مگر اب اس کے وجود کو خطرات کا سامنا ہے۔
وہ مختلف تحقیقی حوالوں سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوکش کی دوسری اقوام کی طرح توروالی بھی صدیوں سے اپنے آبائی مذہب اور ثقافت کے ساتھ اس خطے میں رہتے چلےآ رہے تھے۔ تقریباً 400 سال پہلے تک ان کی رسومات کیلاش لوگوں کی طرح لگتی تھیں۔
مذہبی و سیاسی تبدیلیوں کے بعد توروالی کمیونٹی نے اپنی بہت سی روایات کھو دیں مگر کیلاش اپنی قدیم شناخت کو آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
زبیر کے بقول توروالی کمیونٹی اپنی زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہے لیکن اب یہ زبان پاکستان کی ان 70 سے زائد زبانوں میں شامل ہے جن کی بقا کو یونیسکو کے مطابق خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں معدومی کے خطرے سے دوچار بیشتر زبانیں شمالی علاقوں میں ہی بولی جاتی ہیں۔
زبیر تور والی بتاتے ہیں کہ مردم شماری کے دوران انہوں نے سرکاری ٹیموں کے ساتھ اپنے لوگ بھی بھیجے تھے۔ان کے اندازے کے مطابق وادی کالام و بحرین کے تقریباً تمام دیہات، لائی کوٹ، آریانئی اور دریائے بشیرگام کے کنارے توروالی بولنے والوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے۔ ان میں سے تقریباً 33 فیصد یہاں بنیادی سہولیات اور روزگار کی کمی کے باعث بڑے شہروں اور دیگر علاقوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
لیکن یہاں بے ہنگم ترقیاتی منصوبے مزید لوگوں سے ان کا روزگار، ماحول اور وسائل چھین رہے ہیں۔

ہائیڈرو پراجیکٹ کے سماجی اور ماحولیاتی اثرات کی رپورٹیں بہت کچھ ناکافی معلومات کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں
تحصیل بحرین میں درال خوڑ پن بجلی گھر کے بعد مدین ہائیڈرو پاور تعمیر کیا جا رہا ہے جس کی مالی معاونت عالمی بینک کر رہا ہے۔
مدین ہائیڈرو پراجیکٹ کی فزیبلیٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کا کل رقبہ 107 مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت دریا کا رخ .811 کلومیٹر طویل ٹنل کے ذریعے موڑ کر پانی کو ہیڈ میں لایا جائے گا جس کی کھدائی کے لیے ڈرلنگ اور بلاسٹنگ کی جائے گی۔
اس رپورٹ کے مطابق پاور پراجیکٹ سے صرف 15 گھر متاثر ہوں گے جن میں کل 176 افراد رہائش پذیر ہیں جن سے تقریباً 91 ایکڑ زمین مستقل جبکہ سات ایکڑ عارضی طور پر حاصل کی جائے گی۔ مذکورہ اراضی میں زرعی زمین، بنجر زمین یا دریا کا کچھ حصہ شامل ہے۔
مدین ہائیڈرو منصوبے کے لیے کل ایک ہزار 423 درخت کاٹے جائیں گے جن میں 950 پھل دار درخت ہیں۔
سال 2009ء میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں متاثرین کی دوبارہ آباد کاری سے متعلق صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ اس کے لیے تمام ممکنہ آپشنز پر غور کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد مدین ہائیڈرو پاور انتظامیہ کرائے گی۔
مدین پاور منصوبے کی سماجی و ماحولیاتی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ دریائے سوات کی ماحولیاتی خصوصیات سے متعلق معلومات کی شدید کمی ہے۔ یہاں مچھلیوں کی اقسام کا کوئی مستند ڈیٹا ہے نہ ہی دریائی علاقے میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں وغیرہ کے بارے میں کوئی علم ہے۔
مدین سے کچھ فاصلے پر بحرین شہر سے سات کلومیٹر دور تعمیر کیے جانے والے درال خوڑ ڈیم کی تعمیر کے وقت بھی ایسی ہی رپورٹس پیش گئی تھیں جہاں دریائے سوات کے معاون دریا درال کا رخ موڑے جانے سے اب 16 کے قریب گاؤں بنجر ہو چکے ہیں۔

'ہمارا مسئلہ زمینوں کا معاوضہ نہیں، ہمارا وجود اور یہاں کا ماحول ہے'
توروالی برادری یہاں کسی ترقیاتی کام کی مخالف نہیں بلکہ اعتراض صرف ان بے ہنگم منصوبوں پر ہے جو ان کے وجود کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
زبیر توروالی کہتے ہیں کہ سرکاری رپورٹس میں صرف ان خاندانوں کو متاثرین شمار کیا جاتا ہے جن کے گھر، زمینیں یا دکانیں ترقیاتی منصوبے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان کے نقصانات کوئی نہیں دیکھتا جہاں وادیاں بنجر، چشمے خشک، کھیت ویران اور سیاحت و کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔
"ہمارا مسئلہ جائیدادوں یا زمینوں کا معاوضہ نہیں، ایسے متاثرہ خاندانوں کو تو معاوضہ درال خوڑ والوں کو مل گیا تھا، یہاں بھی مل جائے گا۔ اصل مسئلہ ہمارا وجود اور یہاں کا ماحول ہے۔"
وہ سماجی اور ماحولیاتی رپورٹس کے اعداد وشمار کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں کہ درال خوڑ ڈیم سے کم از کم 15 ہزار لوگ بے گھر ہوئے اور مدین ہائیڈرو پراجیکٹ سے 65 ہزار لوگ متاثر ہورہے ہیں جن کی اکثریت توروالی (انڈیجینس کمیونٹی) سے تعلق رکھتی ہے۔
محقق اور پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر اعزاز توروالی بتاتے ہیں کہ توروالی لوگ قدیم طب کے وارث ہیں جو جڑی بوٹیوں کا گہرا علم ہے۔ ان کے علاقوں کے قدرتی وسائل اب خطرے سے دوچار ہیں۔
درال پاور منصوبے کے بعد چشموں خشک ہوئے تو زمینیں بنجر ہو گئیں، تباہ کن سیلاب نے بحران کو مزید بڑھاوا دیا۔ کئی گاؤں ویران ہو گئے، مقامی معیشت بری طرح متاثر ہوئی جس سے علاقہ ناقابلِ شناخت ہو گیا ہے۔

عالمی بینک توروالی کمیونٹی کے لیے انڈیجینس پیپل پالیسی فریم ورک کے تحت اقدامات کرے
عالمی بینک کہتا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 47 کروڑ 60 لاکھ مقامی (انڈیجینس) افراد ڈیویلپنٹ کے لیے نہایت اہم شراکت دار ہیں جو دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قبضے کے حقوق رکھتے ہیں۔ یہ رقبہ حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیوسٹی) کے تقریباً نصف ریزرو علاقوں اور قدرتی جنگلات پر محیط ہے۔
ورلڈ بینک اعتراف کرتا ہے کہ تحفظِ ماحول میں اہم کردار کے باوجود مقامی لوگ غیرمتناسب حد تک غربت کا شکار ہیں۔
"مقامی (انڈیجینس) لوگ/ اقوام دنیا کی کل آبادی کا صرف 6.2 فیصد ہیں لیکن انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والوں میں ان کا حصہ 18.2 فیصد ہے۔ ان کی اوسط عمر عام آبادی کے مقابلے میں 20 سال تک کم ہے اور انہیں تعلیم، بنیادی سہولیات اور روزگار تک رسائی میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔"
ورلڈ بینک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کی بہبود کے لیے کئی اقدامات کرتا ہے۔
"ہم اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کے مسائل اور ترجیحات کو اجاگر کرتے ہیں۔ کسی سرمایہ کاری منصوبے کے علاقے میں مقامی اقوام موجود ہوں یا ان علاقوں سے ان کا اجتماعی تعلق ہو تو ہم یقینی بناتے ہیں کہ ان سے بامعنی مشاورت کی جائے اور کسی بھی ممکنہ منفی اثرات سے بچنے یا ان کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔"
توروالی کمیونٹی عالمی بینک سے توقع رکھتی ہے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کے دوران 'انڈیجینس پیپل پالیسی فریم ورک' کے تحت بحرین میں کمیونٹی کے لیے اقدامات کرے۔
"ہمارے آبائی جنگلات، چشمے اور ندیاں صرف نظارے نہیں بلکہ ہماری پہچان ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی و بے ہنگم ترقی سے ہمیں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اگر ہمارا وجود نظرانداز کیا گیا تو ہماری قوم اپنی زبان و تاریخ سمیت مٹ جائے گی۔"

عالمی بینک کی ٹیم توروالی کمیونٹی کی 'مقامی حیثیت' کو خود طے کرے گا
بحرین کے رہائشی 66 سالہ عبدالکریم بتاتے ہیں کہ اس پورے علاقے میں کوئی بڑا ہسپتال موجود ہے نہ کوئی بنیادی سہولت۔ طالبات کے لیے صرف ایک ہائی سکول ہے، جنگلات، سیاحت اور پانی کے وسائل کے فیصلے مقامی مشاورت کے بغیر کیے جاتے ہیں۔
توروالی کمیونٹی کا خط ارسال کیے جانے کے تقریباً ایک سال کے بعد 17 جون 2025ء کو ورلڈ بینک کی ایک ٹیم سوات پہنچی جس نے چار روز تک بحرین، درولئی، گورنئی، کالام، شاہ گرام اور نواحی دیہات کا دورہ کیا۔
ٹیم کے ارکان نے توروالی کمیونٹی کی نسلی، لسانی و ثقافتی روایات سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے مقامی بزرگوں، خواتین، نوجوانوں اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں سے تفصیلی گفتگو کی۔
زبیر توروالی کے مطابق ان کا خط متعدد بین الاقوامی اجلاسوں اور مذاکرات کی بنیاد بنا۔ اسلام آباد میں ورلڈ بینک کے نمائندوں سے باضابطہ ملاقات اور پھر جنوری میں پشاور اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ورلڈ بینک توروالی قوم کی آبائیت/ مقامیت کو خود طے کرے گا۔
ورلڈ بینک کی دو رکنی ٹیم مقامی زبان، ثقافت اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ مرتب ہو رہی ہے۔ تاہم پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
"ہمیں یقین ہے کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ آنے پر توروالی کمیونٹی کو باضابطہ طور پر ایک مقامی (Indigenous) لوگ کے طور پر تسلیم کیا جائے گا جس سے ان کو ان کی زبان، حقوق اور وسائل کے تحفظ میں مدد ملے گی۔"
تاریخ اشاعت 3 جولائی 2025