گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

postImg

اشفاق لغاری

postImg

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

اشفاق لغاری

پچاس سالہ گانوھر خان جاکھرو کچھ لوگوں کے ساتھ جھمپیر کے نواحی گاؤں 'ملہار جاکھرو' میں بیٹھے ہیں۔ یہ گاؤں ان کے دادا کے نام سے منسوب ہے۔ وہ کبھی سکول گئے اور نہ ہی انہیں تاریخیں یاد ہیں، ماہ و سال کے ذکر پر موسموں اور واقعات کا حوالہ دیتے ہیں۔

حال احوال سے پہلے عمر پوچھی تو گانوھر خان نے سر پر جگمگاتے موتیوں والی سندھی ٹوپی درست کرتے ہوئے جیب سے شناختی کارڈ نکال کر تھما دیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ 18 سال پہلے تک ان کا شمار جھمپیر کے خوشحال اور جدی پشتی زمیندار گھرانوں میں ہوتا تھا۔ زمین ویسے تو زیادہ تھی مگر وہ عام طور پر ڈھائی سو ایکڑ بارانی زمین کاشت کیا کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری بار 2007ء میں تل، مونگ، جوار اور گوار کاشت کی جس میں سے صرف گوار کی آمدنی 20 لاکھ روپے ہوئی تھی۔ کسی کو یقین نہیں آتا تو ان کے پاس منڈی کی رسیدیں ابھی تک پڑی ہیں وہ دیکھ سکتا ہے۔

پھر اسی سال (2007ء) یہاں آنے والی ونڈ پاور (پون بجلی) کمپنیوں نے ان کی زمینوں پر قبضہ جما لیا اور میری باقی ماندہ تمام کھڑی فصلوں پر مشینیں چلا دیں۔

ایک اور کاشت کار محمد عمران خاصخیلی(کوہستانی) قصبہ جھمپیر کے محلہ خاصخیلی کے رہائشی ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی 170 ایکڑ اراضی پر تین کمپنیوں نے قبضہ کر رکھا ہے جو ان کے والد جمال الدین کوہستانی کے نام سے ہے۔

گانوھر خان یا محمد عمران کوہستانی ہی نہیں کئی ایسے دعویدار موجود ہیں جن کے بقول ان زمینیں بلا معاوضہ ونڈ پاور کمپنیوں کے قبضے میں چلی گئیں۔ 

سندھ میں ونڈ پاور کے 36 منصوبے کی مجموعی پیداوار 1845 میگاواٹ

ملک میں توانائی کے نئے ذرائع تلاش کے دوران محکمہ موسمیات پاکستان اور امریکی رینوایبل انرجی لیبارٹری نے کراچی سے 120 کلومیٹر شمال مشرق میں نو ہزار 700 مربع کلومیٹر علاقے کی نشاندہی کی جہاں تیز سمندری ہوائیں چلتی ہیں۔

ضلع ٹھٹھہ کا یہ علاقہ گھارو شہر سے جھمپیر گاؤں تک لگ بھگ 160 کلومیٹر لمبی اور تقریباً 60 کلومیٹر چوڑی پٹی پر مشتمل ہے جو اب گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور (ہواؤں کی گذر گاہ) کہلاتا ہے۔ 

پون بجلی کے لیے سندھ میں جامشورو ، کیٹی بندر، بدین، حیدرآباد اور تھرپارکر کے کچھ علاقے اس کے علاوہ ہیں۔

قومی ادارہ نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے اس وقت سندھ میں تین غیرملکی سمیت دو درجن کے قریب کمپنیوں کے کل 36 ونڈ پراجیکٹس کام کر رہے ہیں جن میں سے پانچ منصوبے گھارو، 30 جھمپیر اور ایک جامشورو میں لگایا گیا ہے۔

ان کمپنیوں کے پاس 30 سے 99 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کے لائسنس ہیں جن میں بعض ایک اور کچھ چار پاور پلانٹس بھی چلا رہی ہیں۔ ان ونڈ پلانٹس کی مجموعی صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) تقریباً ایک ہزار 845 میگا واٹ ہے۔ 

جھمپیر کی پون بجلی 35 کلومیٹر دور نوری آباد میں واقع گرڈ سٹیشنز کے ذریعے قومی ٹرانسمشن میں شامل کی جاتی ہے۔ گرڈ سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے میں ونڈ پلانٹس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی لی جاتی رہی ہے۔ 

متبادل توانائی کے ماہر انجنیئر عرفان احمد بتاتے ہیں کہ پاکستان کی سمندری پٹی میں 400 گیگا واٹ(چار لاکھ میگا واٹ) پون بجلی پیدا کی جا سکتی ہی ہے۔ تاہم یہ بجلی تب ہی حاصل ہو گی جب ونڈ ٹربائنز وغیرہ اندروں ملک تیار کی جائیں۔ 

ونڈ پاور منصوبوں کے لیے حکومت نے کمپنیوں کو 30 سالہ لیز پر اراضی آفر کی 

حکومت نے 2007ء میں اس کاریڈور کو پون بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے ملکی وغیر ملکی کمنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی۔

ورلڈ ونڈ انرجی کے پالیسی پیپر کے مطابق سندھ حکومت نے وفاقی رینیو ایبل انرجی پالیسی 2006ء کے تحت ان منصوبوں پر کام شروع کیا جس کے تحت ونڈ پاور پلانٹس لگانے کے لیے کمنیوں کو زمینیں آفر کی گئیں۔ بعد ازاں سندھ لینڈ گرانٹ پالیسی فار رینیوبل انرجی پراجیکٹ 2015ء کا اجراء کر کے اس سہولت کاری کا تحفظ کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر آفس ٹھٹھہ سے ملنے والے ریکارڈ کے مطابق اس ضلعے میں محکمہ لینڈ یوٹلائیزیشن سندھ نے 33 ہزار 976 ایکڑ سرکاری زمین آلٹرنیٹو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ (موجودہ پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ ) کو 30 سالہ لیز پر دی تھی جو ونڈ کمپنیوں کو سب لیز کی گئی۔

تاہم مقامی لوگ اپنے دعوے کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کر سکے تاہم ان کا اصرار ہے کہ جنگ شاہی کی زمین سمیت کمپنیوں کے پاس 52 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبہ ہے۔ 

ٹھٹھہ، جامشورو اور ملیر کے پہاڑوں پر مشتمل علاقے کو ' کوہستان' کہا جاتا ہے جہاں نہری نظام نہیں ہے۔ یہاں لوگ پہاڑی نالوں سے آنے والے برساتی پانی کے سہارے فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

محکمہ مال سندھ کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ مذکورہ تینوں اضلاع میں بہت کم لوگوں کے نام پر اپنی زمینوں کی رجسٹریاں یا انتقال (فارم سات پر اندراج) ہیں۔ جبکہ ضلع جامشورو اور ٹھٹہ میں آنے والے کوہستان میں تمام زمینیں سرکار کی ملکیت ہیں۔

" مقامی لوگ کیونکہ عشروں سے یہاں کاشت کاری کرتے آ رہے تھے اس لیے وہ ان زمینوں کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔" 

عدالتوں میں کمپنیوں اور سرکار کے بڑے بڑے وکیل، متاثرین ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟

محمد عمران خاصخیلی کوہستان میں زمین نجی ملکیت نہ ہونے کے حکام کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ان کی زمین ان کے نام (ساتویں فارم پر) انداج شدہ ہے۔

وہ زرعی بینک کے کاغذات دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ والد نے اس اراضی پر 1983ء میں ٹریکٹر کے لیے قرض لیا تھا جو قسطوں میں ادا کیا اور 2013ء میں زمین کے کاغذات واگزار کرائے۔

گانوھر خان بتاتے ہیں کہ ابتدا ہی میں انہوں نے اپنی زمین پر قبضے کے خلاف سیشن کورٹ ٹھٹھہ سے رجوع کیاتھا۔ عدالت نے انہیں حکم امتناع جاری کر دیا اور کمپنی کا کام بند ہو گیا۔

"الٹرنیٹو انرجی بورڈ کے مقامی افسر اور غیر ملکی کمپنی کے ایک عہدیدار دو تین بار میرے پاس آئے۔ اس کیس سے دستبرداری کے عوض ماہانہ رقم اور کچھ نوکریاں دینے کی پیشکش بھی کی مگر میں نہیں مانا۔" 

کچھ سال بعد گانوھر خان دہشتگردی کے مقدمے میں جیل بھیج دیے گئے۔ انہیں یاد نہیں کہ وہ کتنے دن جیل میں رہے تاہم ان کے شریک ملزم (یونیورسٹی گریجویٹ اور لکھاری) محمد بخش بروہی ریکارڈ سنبھالے ہوئے ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ نمبر 2013/5 تھری گارجیس ونڈ کمپنی کے ملازم عارف کی فون پر شکایت کے بعد سرکار کی مدعیت میں 26 جون 2013ء کو درج کیا گیا تھا۔ 

گانوھر جاھرو ایک ماہ بعد انسداد دہشت گردی عدالت حیدر آباد سے رہا ہو گئے لیکن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت ٹھٹھہ میں کیس ایک سال چلتا رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ زمین پر قبضے کے کیس میں بھی ایک دن کمپنی اور سرکار کے بڑے بڑے وکلا پیش ہوئے اور حکم امتناعی ختم کر دیا گیا۔ 

محمد عمران خاصخیلی کا کیس زیر التوا ہے۔ ان کے بقول کمپنیاں مہنگے وکیل لے آتی ہیں، کیس کی مہینوں شنوائی ہی نہیں ہوتی۔ "سرکار اور سرمایہ داروں سے ہم کہاں لڑ سکتے ہیں؟"

متاثرین کو معاوضہ نہیں ملا البتہ خاموش رہنے کے لیے بااثر لوگوں کے ذریعے رقم ضرور ملی

ونڈ کاریڈور کے باسیوں کی بے بسی دیکھ کر جھمپیر کے سیاسی کارکنوں نے 2007ء میں 'کوہستان بچاؤ ایکشن کمیٹی' کی بنیاد رکھی اور اس پلیٹ فارم سے متاثرین کے حقوق کے لیے تحریک کا آغاز کیا جو ابھی تک جاری ہے۔

 شاہ محمد چانگ اس تحریک کے روح رواں اور پاور کمپنیوں کے براہ راست متاثرہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یونین سی جھمپیر اور جنگ شاہی کی چھوٹی بڑی تقریباً سو آبادیاں ونڈ ٹربائنز کی حدود میں آتی ہیں۔ یہاں سب سے بڑا نقصان اور مسئلہ یہ ہے کہ ونڈ پلانٹس کے لیے مقامی زمینداروں کی اراضی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔

"زمین سرکاری بھی ہو تب بھی لوگ اسے نسل در نسل کاشت کر رہے تھے۔ ان کا روزگار چھن گیا مگر حکومت یا کمپنیوں نے کوئی باضابطہ معاوضہ نہیں دیا۔ البتہ خاموش رہنے کے لیے اندرون خانہ بااثر لوگوں کے ذریعے کچھ متاثرین کو رقم ضرور ملی اور بعض کو چھوٹی موٹی ملازمتیں دے کر چپ کرایا گیا۔"

گانوھر خان تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے 32 افراد کو کمپنی نے ایک سال تک نوکریوں پر رکھا لیکن پھر فارغ کر دیا گیا۔

شاہ محمد چانگ کہتے ہیں کہ ملک کو کلین انرجی، کمپنیوں اور سندھ حکومت کو منافع مل رہا مگر جھمپیر میں کچھ لوگوں کو چھوٹی موٹی نوکریوں کے سوا کیا ملا ہے؟

سندھ حکومت یہاں فلاح و بہبود پر کچھ خرچ نہیں کر رہی جبکہ کمپنیوں نے جھمپیر کے 10سکولوں کے لیے ایک ایک ٹیچر دیا اور پانی کے چند ٹینکر دے دیتی ہیں۔ 

"ہمارے تین مطالبات ہیں، متاثرین کو زمینوں کا معاضہ اور مقامی لوگوں کو روزگار دیا جائے۔ کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی (سی ایس آر) فنڈ منصفانہ طور پر مقامی آبادی کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کیا جائے۔"

کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی:  پاکستان میں متبادل توانائی کمپنیوں سے متعلق سی ایس آر کی حکومتی پالیسی واضح نہیں ہے

ویسے تو ایک زمانے تک کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی کو سماجی فلاح و بہبود کا ایک اخلاقی اور رضا کارانہ اقدام تصور کیا جاتا تھا لیکن امریکا، برطانیہ، ڈنمارکسمیت کئی ممالک کو اس پر عملدرآمد کے لیے قانون سازی کرنا پڑی۔ بھارت میں تو کمنیوں کو اپنے منافع کا دو فیصد سماجی فلاح پر خرچ کرنے کا پابند کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں کمپنیز (کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی)جنرل آرڈر 2009ء کے تحت ہر کمپنی کو کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کی سرگرمیاں ہر سال بتانے اور انہیں اپنی آڈٹ رپورٹ میں شامل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

ان ذمہ داریوں میں کمپنی کے اندرونی فلاحی فرائض کے علاوہ انسان دوستی، ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات، کمیونٹی پر سرمایہ کاری اور فلاحی سکیمیں ، دیہی ترقی کے پروگرام وغیرہ شامل ہیں۔ 

سندھ یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر امیر ابڑو نے غیر سرکاری ادارے سی ایس ایس پی(سول سوسائٹی سپورٹ پروگرام) کے لیے متبادل توانائی منصوبوں کی سی ایس آر سرگرمیوں کے حوالے سے ایک سٹڈی کی ہے جس میں جھمپیر اور بہاول پور کے پون و شمسی منصوبے شامل تھے۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں صوبائی و وفاقی سطح پر متبادل توانائی کمپنیوں سے متعلق سی ایس آر کی حکومتی پالیسی واضح نہیں ہے۔ 

جھمپیر میں سی ایس آر فنڈ(مقامی آبادی کی بہبود و بہتری) سے کمپنیاں براہ راست کچھ گاؤں میں پینے کے پانی کے ٹینکرز اور سکولوں میں استاد مہیا کر رہی ہیں۔ لیکن پانی، صحت، تعلیم اور روڈ رستوں کے منظم منصوبے اور کام مشاہدے میں نہیں آئے۔

تاریخ اشاعت 27 مئی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.