یاسمین افغانستان کے شہر جلال آباد کی رہنے والی ہیں۔ وہ پانچ سال قبل افغانستان سے ایف ایس سی کرنے کے بعد پشاور آگئی تھیں۔انہوں نے یہاں یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے چچا کے گھر مقیم ہو گئیں جن کا خاندان پہلے سے پشاور میں قیام پذیر تھا۔ وہ اب اقرا یونیورسٹی پشاور میں بی ایس ڈینٹل ٹیکنالوجی کے فائنل سمسٹر میں پڑھ رہی ہیں۔
یاسمین بتاتی ہیں کہ ان کے پاکستان آنے سے پہلے ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ گھر (جلال آباد) میں ان کے والد اور پانچ چھوٹی بہنیں تھیں۔ پھر والد نے دوسری شادی کر لی اور ان کی پانچوں بہنیں بھی ان کے پاس پشاور آ گئیں۔
"میں نے پانچوں بہنوں کو مختلف سکولوں میں داخل کرایا۔ ہم چچا کے گھر میں رہتے تھے۔ اپنے اور بہنوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے مجھے سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ میں دن میں یونیورسٹی جانے کے ساتھ نجی سکول میں پڑھاتی اور رات کو گھر میں کپڑے سیتی تھی۔"
وہ کہتی ہیں کہ افغان مہاجرین کا انخلا شروع ہوا تو چچا واپس چلے گئے۔ ان کی بہنوں کو بھی تعلیم ادھوری چھوڑ کر وطن واپس جانا پڑا۔ اب وہ دہری اذیت میں مبتلا ہیں ایک طرف تو رہنے کو ٹھکانہ نہیں ہے اور دوسری طرف تعلیم کے حالات غیریقینی ہیں۔
"کچھ رشتہ داروں کے گھر میں عارضی پناہ ملی ہے لیکن ان لوگوں کو بھی واپس جانا پڑ سکتا ہے۔اب سمجھ نہیں آ رہا میرا کیا بنے گا ڈگری مکمل ہو پائے گی یا نہیں؟"

'کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ پڑھائی کیسے جاری رکھوں گا'
خیبرپختونخوا کے 34 ہزار سکولوں میں 10 ہزار سے زائد افغان بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے مطابق صوبے کی کل 34 جامعات میں سے 24 میں لگ بھگ ڈیڑھ ہزار افغان طلبہ زیر تعلیم ہیں جن میں 150 کے قریب طالبات شامل ہیں۔
سب سے زیادہ افغان طلبہ جامعہ پشاور میں ہیں جن کی تعداد 247 ہے، انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز(ایمز) میں 219 اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں 218 افغان طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
محکمے کے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان جامعات میں 960 افغان طلبہ علامہ اقبال سکالرشپ اور 536 اوپن سیلف فنانس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ننگرہار ہی سے تعلق رکھنے والے صمیم احمد خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا پورا خاندان 40 سال قبل یہاں آ گیا تھا۔ وہ یہیں پیدا ہوئے اور یہیں ایف ایس سی کے بعد افغان کوٹے پر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ وہ پچھلے دو ماہ سے پریشانی کے باعث تعلیم پر توجہ نہیں دے پا رہے۔
"میری یو این ایچ سی آر کے تحت رجسٹریشن کا (پروف آف رجسٹریشن/ پی او آر) کارڈ زائدالمیعاد ہوچکا ہے اور نادرا نیا کارڈ نہیں بنا رہا۔ اب پولیس جگہ جگہ تنگ کرتی ہے، ہم چھپتے پھرتے ہیں کیونکہ انہیں دکھانے کے لیے میرے پاس کوئی قانونی دستاویز ہی نہیں ہے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد واپس جا چکے ہیں اور وہ یہاں اپنی والدہ کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن مالک مکان پولیس کے خوف سے گھر خالی کروا لیتے ہیں۔ اگر والدہ کو واپس جانا پڑا تو ان کے پاس کوئی ٹھکانہ ہو گا نہ کوئی قانونی دستاویز۔ "کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ ایسے میں پڑھائی کیسے جاری رکھوں گا۔"

پاکستان میں افغان تارکین وطن کی چار کیٹیگریز
پاکستان میں افغان تارکین وطن کو چار کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے اور انہیں چار مختلف اقسام کے کارڈز جاری کیے گئے ہیں۔
پہلا پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہے جو مہاجرین کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور نادرا نے 2006ء کی رجسٹریشن مہم کے دوران جاری کیا تھا۔
اس کارڈ کی مدت میں توسیع ہوتی رہتی ہے اور اس کے حامل پناہ گزینوں کو ملک بدری سے تحفظ حاصل ہے۔ ان کی تعداد 13 سے ساڑھے 14 لاکھ کے درمیان ہے جنہیں صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
دوسرا افغان سیٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہے جو 2006ء کی رجسٹریشن میں رہ جانے والے یا بعد کے سالوں میں پاکستان میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کے لیے 2017ء میں شروع کی جانے والی حکومتی رجسٹریشن مہم کے تحت ان کی شناخت اور ریکارڈ کی خاطر جاری کیے گئے تھے۔
اس کارڈ کو ویزا یا شہریت کی دستاویز کی حیثیت حاصل نہیں اور نہ ہی یہ افغان شہریوں کو پناہ گزین کی قانونی حیثیت دیتا ہے، اس کے حامل افراد کے قانونی حقوق تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں تک محدود ہیں۔ ان کی تعداد آٹھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ کے درمیان ہے۔

تیسرا پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) ہے جو نادرا ان غیر ملکیوں (بشمول افغان)کو جاری کرتا ہے جن کے والدین یا دادا دادی پاکستانی تھے، یا جن کی شادی پاکستانی شہری سے ہوئی ہو۔
یہ کارڈ ہولڈر پاکستان میں بغیر ویزا داخل ہو سکتے ہیں، یہاں جائیداد خرید سکتے ہیں، بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ کارڈ بھی شہریت کا متبادل نہیں۔
چوتھی کیٹیگری میں پناہ کے درخواست گزار افغان شامل ہیں، جنہیں یو این ایچ سی آر نے سرٹیفکیٹس جاری کیے ہیں۔انہیں چھ ماہ یا ایک سال کے لیے ملک بدری سے عبوری تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
صرف افغان سیٹیزن کارڈ والوں کو واپسی کا کہا جا رہا ہے لیکن پکڑ دھکڑ سب کی ہو رہی ہے
حالیہ حکومتی مہم میں صرف افغان سیٹیزن کارڈ (اے سی سی) کے حامل افراد کو واپس جانے کے احکامات دیے گئے ہیں۔تاہم پی او آر کارڈ ہولڈرز بھی پکڑ دھکڑ کے خوف میں مبتلا ہیں۔
وفاق کے تحت مہاجرین سے متعلق امور کی نگرانی کرنے والا ادارہ افغان کمشنریٹ تصدیق کرتا ہے کہ پی او ار کارڈز ایکسپائر ہونے پر پولیس طلبہ سمیت تمام افغان مہاجرین کو تنگ کر رہی ہے۔
"ہم نے یہ مسئلہ آئی جی پولیس کے ساتھ اجلاسوں میں اٹھایا ہے جس پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ پولیس زائدالمیعاد پی او آر کارڈ ہولڈرز کو تنگ نہیں کرے گی۔"
محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کے مطابق رواں سال پانچ اپریل سے 20 مئی تک ایک ہزار 239 افغان مہاجر واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر ستمبر 2023ء سے اب تک چار لاکھ 81 ہزار 285 غیر قانونی تارکین وطن طورخم کے ذریعے روانہ کیے گئے۔

طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے پشاور کی جامعات میں زیر تعلیم طالبات زیادہ پریشان ہیں۔
اگرچہ پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم و ملازمت پر کوئی پابندی نہیں اور افغان پاسپورٹ آفسز میں بھی کئی خواتین کام کر رہی ہیں۔
تاہم نمل یونیورسٹی میں پکتیا کی طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکیوں پر پابندی کے باعث ہی کابل میں کئی پاکستانی طالبات اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں اور انہیں واپس آنا پڑا۔
"کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ ہمیں وہاں (افغانستان میں) پڑھنے دیا جائے گا جبکہ یہاں ہم نے آن لائن کام اور محنت مزدوری کر کے نجی تعلیمی ادارے کے اخراجات پورے کیے ہیں۔ اب ڈر ہے کہ کہیں ڈگری لیے بغیر ہی واپس نہ جانا پڑے۔"
کئی طالب علم رشتہ داروں کے گھر مقیم تھے اب ان کے پاس کوئی ہاسٹل ہے نہ جائے پناہ
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل سیف اللہ محب کاکا خیل بتاتے ہیں کہ ان کے پاس کئی افغان طلبہ آرہے ہیں جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ڈگریوں کے حصول کے لیے پریشان ہیں۔ انہیں شناختی دستاویزات پوری نہ ہونے کی وجہ سے ڈگری نہیں مل رہی۔
"میرے پاس ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنہوں نے کسی دوسرے نام سے شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔البتہ زیادہ کیسز وہ ہیں جن میں بچے کے والد اور والدہ میں سے ایک پاکستانی دوسرا افغان ہے۔ ان بچوں کے 'ب' فارم نہیں بن رہے۔"

سیلف فنانس پر ایمز پشاور میں بی بی اے کے طالب علم احمد شاہ بتاتے ہیں کہ پچھلے دو سال کے دوران افغانستان میں غیر یقینی کے سبب بیشتر خاندان مالی طور پر بری طرح متاثر ہوئے۔ ایسی فیملیز کے طالب علم اپنے اخراجات کے لیے یہاں مختلف کام کرتے تھے مگر اب انہیں شدید دشواری کا سامنا ہے۔
"ہمارے بیشتر ساتھی طالب علم رشتہ داروں کے گھروں میں مقیم تھے جو اب ٹھکانوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس رہائش کے لیے کوئی ہاسٹل ہے نہ جائے پناہ، ڈگریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور پولیس کا خوف الگ ہے۔"
اس سلسلے میں ترجمان محکمہ اعلیٰ تعلیم خیبرپختونخواہ ریاض غفور نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کی جامعات میں نصف سے زیادہ افغان طلبہ سکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ لوگ قانونی طور پر آئے اور انہیں کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد ہی داخلہ دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ کئی افغان طلبہ سرکاری جامعات کے ہاسٹلز میں مقیم ہیں۔ تاہم غیرقانونی تارکین وطن کے انخلاء سے اگر طالب علم متاثر ہو رہے ہیں تو جامعات سے تمام تفصیلات لے کر ان طلبہ کی پروفائلنگ کی جائے گی۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
تاریخ اشاعت 4 جولائی 2025