جنوبی لاہور کی بستی یوحناآباد کے رہنے والے منیر سجل اپنی شادی کے تین ماہ بعد قتل کے الزام میں جیل چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
لاہور کی ایک سیشن عدالت میں ان کے خلاف پانچ سال مقدمہ چلا جس کے نتیجے میں انہیں 75 سال قید اور موت کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بند رہے۔
ان کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ نے تو ان کی سزائیں برقرار رکھیں لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے نہ صرف ان کی سزائے موت ختم کر دی بلکہ ان کی قید کا دورانیہ بھی 75 سال سے کم کر کے 25 سال کر دیا۔ اکتوبر 2019 میں آخرِکار جب انہیں رہائی ملی تو اس سے پہلے ان کے ماں باپ اور دوبھائیوں کا انتقال ہو چکا تھا۔
تاہم انہوں نے 25 سال کے بجائے 19 سال چھ ماہ قید میں گزارے کیونکہ وہ جیل کے قواعد کی رُو سے سزا میں ملنی والی مختلف رعائتوں کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے دو دفعہ خون کا عطیہ دیا جس سے ان کی سزا ایک سال کم ہو گئی۔
ان قواعد کے تحت ان کی قید اور بھی کم ہو سکتی تھی اگر انہیں مذہبی تعلیم کے حصول کی بنیاد پر دستیاب رعائت بھی مل جاتی۔ لیکن وہ اس سے مستفیض نہ ہو سکے کیونکہ وہ مسیحی مذہب کے ماننے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ پنجاب کی کسی جیل میں بھی ان کے مذہب کی تعلیم کا کوئی انتظام موجود نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "اگر کبھی کبھار کوئی پادری جیل میں انہیں پڑھانے آ بھی جاتا تھا تو جیل کا عملہ اسے اپنا کام کرنے کے لیے دس منٹ سے زیادہ وقت فراہم نہیں کرتا تھا"۔ ان کے بقول "اتنے کم وقت میں میرے جیسے ان پڑھ آدمی کے لیے کچھ سیکھ لینا ناممکن تھا"۔
اس کے برعکس، ان کے مطابق، مسلمان قیدیوں کو مذہبی تعلیم دینے کے لیے نہ صرف جیل کے اندر معلم متعین ہیں بلکہ حکومت سے تسلیم شدہ تعلیمی ادارے، تعلیم القرآن ٹرسٹ، کی جانب سے انہیں ایک باقاعدہ سند بھی جاری کی جاتی ہے جس میں درج ہوتا ہے کہ انہوں نے کس حد تک تعلیم حاصل کر لی ہے۔ اگر یہ سند بتاتی ہے کہ ایک قیدی نے ناظرہ قرآن پڑھنا سیکھ لیا ہے تو اس کی سزا میں ایک سال کی کمی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جو قیدی حافظِ قرآن کی سند حاصل کر لیتا ہے اس کی سزا دو سال کم ہو جاتی ہے۔
غیرمساوی تعلیمی سہولتیں
سہیل مسیح نو سال جیل میں گزار چکے ہیں۔
وہ یوحنا آباد کے نواح میں واقع آصف ٹاون نامی آبادی میں تین مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں2001 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے دوست کے والد کی تیمارداری کے لئے لاہور میں واقع دل کے امراض کے ہسپتال، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، میں موجود تھے۔ کچھ روز انہیں حراست میں رکھنے کے بعد پولیس نے انہیں ساہیوال جیل منتقل کر دیا جہاں انہیں پتہ چلا کہ ان پر کسی کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اُس جیل میں ایک بھی چرچ نہیں تھا حالانکہ وہاں ان کے ساتھ ان کے درجنوں ہم مذہب قید تھے۔ اس لیے، ان کے بقول، انہیں ہر اتوار کو ایک درخت کے نیچے چٹائیاں بچھا کر عبادت کرنا پڑتی تھی۔
جب انہوں نے جیل حکام سے شکایت کی کہ مسیحی قیدیوں کو مذہبی اور تعلیمی سہولتیں میسر نہیں ہیں تو اس مقصد کے لیے کوئی باقاعدہ پادری تعینات کرنے کے بجائے انہیں ہی ان قیدیوں کو پڑھانے کا کام سونپ دیا گیا۔ اگرچہ انہوں نے اسے کرنے کی حامی بھر لی لیکن جیل میں مسیحی مذہبی کتابیں دستیاب نہیں تھیں جس کے باعث اس میں تاخیر ہوتی رہی۔
اس مسئلے کے حل کے لیے سہیل مسیح نے خطوط لکھ کر اپنے ہم مذہب سماجی اور مذہبی رہنماؤں کو جیل میں مذہبی تعلیمی سہولتوں کی عدم موجودگی کے بارے میں بتایا۔ ان کے جواب میں بہت سے لوگوں نے انہیں مذہبی کتابیں بھیج دیں اور یوں وہ اپنے ساتھی قیدیوں کو پڑھانے لگے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس تمام بندوبست کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہ تھا کہ ان پڑھ مسیحی قیدیوں کو اپنے مذہب کے بارے میں آگاہی مل رہی تھی کیونکہ اس کی بنیاد پر وہ اپنی سزا میں رعایت کا مطالبہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان قیدیوں کو حکومت کے تسلیم کردہ تعلیمی اداروں کی طرف سے جاری کی گئی سندیں درکار تھیں جو یہ تصدیق کرتیں کہ انہوں نے کون سا تعلیمی درجہ پاس کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان قیدیوں کو یہ سندیں جاری کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں لیکن پنجاب حکومت نے ابھی تک کسی مسیحی تعلیمی ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا۔
سہیل مسیح اب جسٹس پراجیکٹ پاکستان نامی غیرسرکاری تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں جو سزائے موت کے منتظر قیدیوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ لیکن وہ غیرمسلم قیدیوں کے لیے جیل میں مذہبی تعلیم کا ایک ایسا مربوط انتظام بھی قائم کرانا چاہتے ہیں جو انہیں سزا میں کمی کے قواعد سے پوری طرح مستفیض ہونے کا موقع دے سکے۔
نصاب سے نظام تک
لاہور کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کاشف مسیح نامی شہری نے سات مارچ 2022 کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ پنجاب حکومت کو صوبے کی جیلوں میں غیرمسلم قیدیوں کے لیے مذہبی تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے احکامات جاری کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سزاؤں میں رعائت کے حوالے سے غیرمسلم قیدیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو، ان کے مطابق، آئینِ پاکستان کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہے جو شہریوں کے مساوی بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔
ان کی پٹیشن کی ابتدائی سماعت کے دوران جیل حکام نے انکشاف کیا کہ اِس وقت پنجاب کی جیلوں میں غیر مسلم قیدیوں کی تعداد ایک ہزار ایک سو 88 ہے۔ ان میں سے آٹھ سو 29 کے مقدمات ابھی زیرِسماعت ہیں جبکہ تین سو 20 کو مجرم ٹھہرایا جا چکا ہے۔ 39 دیگر غیرمسلم قیدیوں کو موت کی سزا بھی ملی ہوئی ہے۔
لیکن کاشف مسیح نے اپنی پٹیشن میں عدالت کو بتایا کہ اج تک کسی ایک بھی غیرمسلم قیدی کی سزا اس بنیاد پر کم نہیں کی گئی کہ اس نے اپنے مذہب کی کتابیں پڑھ لی ہیں۔
پنجاب میں جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل مرزا شاہد سلیم بیگ اس دعوے کو درست قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ایسا اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ غیرمسلم قیدیوں کے لیے مذہبی تعلیمات کا نصاب ہی ترتیب نہیں دیا گیا تھا"۔
یہ بھی پڑھیں
لیہ میں ہندوؤں کی متروکہ املاک: حکومت تعلیم کے لیے وقف کی گئی زمین پرغیر قانونی قبضہ روکنے میں ناکام۔
مگر ان کے مطابق اب یہ مسئلہ جلد ہی حل ہو جائے گا کیونکہ اس سال جنوری میں انہوں نے پنجاب میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا نصاب تیار کرلیا ہے جسے کے تحت تعلیم حاصل کر کے غیرمسلم قیدی اپنی سزا میں کمی کرا سکیں گے۔ ان کے مطابق اس کام میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے استاد کلیان سنگھ، ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے اشوک کمار اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے محقق اور انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب نے ان کی مدد کی ہے۔
تاہم پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ یہ نصاب تیار تو ہو گیا مگر صوبائی حکومت نے ابھی تک اس کے نفاذ کی منظوری نہیں دی۔ ان کے مطابق افسرشاہی اس منظوری کے راستے میں رکاوٹ بن گئی ہے کیونکہ وہ اسے پڑھنے والے غیرمسلم قیدیوں کی سزا میں چھ ماہ سے زیادہ کمی کرنے پر تیار نہیں حالانکہ قرآن پاک سیکھنے اور حفظ کرنے والے مسلمان قیدیوں کی سزا میں ایک سال سے دوسال تک کمی کی جاتی ہے۔
انہیں شکایت ہے کہ "یہ فرق آئین میں دیے گئے مساوی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے"۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف غیرمسلم قیدیوں کے لیے بنائے گئے نصاب کی جلد از جلد منظوری دی جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سزا میں کمی کے قواعد کے نفاذ کے دوران وہ کسی قسم کے مذہبی امتیاز کا شکار نہ ہوں۔
تاریخ اشاعت 26 مارچ 2022