پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس سال اکتوبر کے مہینے میں متحدہ عرب امارات میں کھیلے جانے والے کرکٹ کے ٹی20 ورلڈ کپ میں جو وردی پہن رکھی تھی وہ سیالکوٹ شہر کے مغرب میں واقع راجکو انڈسٹریز نامی فیکٹری نے تیار کی تھی۔
پچھلے سال 10 جولائی کو اس فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو اعجاز بھٹی نے عرب نیوز نامی ایک ویب سائٹ کو یہ بھی بتایا کہ ایک معروف غیر ملکی کمپنی، ہوگو بوس (Hugo Boss)، راجکو انڈسٹریز سے جرمنی کی فٹ بال ٹیم کے لیے وردی بنوا رہی ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ ہوگو بوس کی جانب سے کسی بھی پاکستانی کمپنی کو ملنے والا یہ پہلا آرڈر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیلا (Fila)، ایڈیڈاس (Adidas) اور نائیکی (Nike) جیسی دنیا بھر میں مشہور کمپنیوں کے لیے بھی ان کی فیکٹری مال تیار کر رہی ہے۔
راجکو کے آس پاس رہنے اور کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے ان تمام غیر ملکی کمپنیوں سے کام ملنے کی ایک اہم وجہ اس کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کی کارکردگی تھی۔ اس کے قریب واقع ایک بڑی فیکٹری کے جنرل منیجر اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ پریانتھا کمارا کے راجکو انڈسٹریز میں کام شروع کرنے کے بعد اس کی مصنوعات کے معیار میں بہت بہتری آئی اور بڑی بڑی غیرملکی کمپنیاں اس سے مال بنوانے لگیں۔
لیکن 3 دسمبر 2021 کو اسی فیکٹری کے مزدوروں پر مشتمل ایک ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام میں پریانتھا کمارا کو نہ صرف تشدد کرکے ہلاک کر دیا بلکہ ان کی لاش کو آگ بھی لگا دی۔
لیبر قوانین کی خلاف ورزیاں
سیالکوٹ میں کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ راجکو انڈسٹریز 1935 میں قائم کی گئی تھی لیکن محکمہ لیبر کے مقامی دفتر میں تعینات اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی رجسٹریشن 2004 میں ہوئی۔
اس کے آس پاس واقع دیہات میں رہنے والے متعدد لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 3 دسمبر کو فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو اعجاز بھٹی پاکستان سے باہر گئے ہوئے تھے لیکن اگر وہ موقع پر موجود ہوتے تو "شاید پریانتھا کمارا ہلاک نہ ہوتے"۔ ایک مقامی سرکاری اہل کار اس عوامی تاثر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اعجاز بھٹی اتنے سخت مزاج آدمی ہیں کہ مزدوروں کو ان کے سامنے کبھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی"۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے ضلع سیالکوٹ کے آرگنائزر ناصر محمود بٹ اِس بات کی تائید کرتے ہیں کہ راجکو انڈسٹریز میں مزدوروں کو اس قدر دباؤ میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے جائز اور قانونی مطالبات بھی انتظامیہ کے سامنے رکھنے سے گھبراتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کو "نہ تو کسی قسم کا بونس ملتا ہے اور نہ ہی اضافی کام کرنے پر اضافی تنخواہ ادا کی جاتی ہے"۔ ان کے مطابق "اس کے اکثر مزدوروں کو پراویڈنٹ فنڈ یا گریجویٹی جیسی مالی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں حالانکہ ملکی قوانین کے مطابق یہ سہولیات ہر مزدور کا حق ہیں"۔ لیکن دوسری طرف "اگر کوئی مزدور بیماری کی وجہ سے چھٹی کرلے تو اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے"۔
راجکو انڈسٹریز کے حالاتِ کار پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی کل تعداد تین ہزار کے قریب ہے لیکن سوشل سکیورٹی کے محکمے کو ان کی تعداد صرف چند سو بتائی گئی ہے تاکہ فیکٹری کے مالکان کو باقی مزدوروں کے علاج معالجے اور دوسری سماجی ضروریات پر پیسے خرچ نہ کرنا پڑیں۔
سیالکوٹ میں متعین صوبائی محکمہ سوشل سکیورٹی کے ڈائریکٹر نیاز خان اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ راجکو انڈسٹڑیز میں کام کرنے والے مزدوروں میں سے صرف پانچ سو ان کے محکمے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ وہ اعجاز بھٹی سے ہونے والی ایک حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میں نے انہیں بتایا کہ ان کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی کل تعداد اور ان میں سے سوشل سکیورٹی کے ساتھ رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد میں بہت زیادہ فرق ہے جو ان کے لیے مسئلہ بن جائے گا"۔ لیکن ان کے مطابق اعجاز بھٹی نے انہیں جواب دیا کہ وہ اس معاملے پر براہِ راست سوشل سکیورٹی کے کمشنر سے بات کر لیں گے۔
سیالکوٹ کے لیبر آفیسر علی رضا بھی راجکو انڈسٹریز کی انتظامیہ سے ہونے والی ایک ملاقات کا قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈیڑھ ماہ پہلے اس کے ایک برخاست کردہ ملازم نے پاکستان سیٹیزنز پورٹل کے ذریعے شکایت درج کرائی کہ اسے فیکٹری سے نکالنے سے پہلے نہ تو ایک مہینے کا نوٹس دیا گیا اور نہ ہی ایک مہینے کی اضافی تنخواہ دی گئی جو قانون کی رو سے اس کا حق تھی۔
علی رضا کہتے ہیں کہ جب وہ اس شکایت کی تحقیق کے لیے فیکٹری کے انتظامی اہل کاروں سے ملے تو ان کا اصرار تھا کہ انہیں شکایت گزار کا نام بتایا جائے۔ اسی طرح شکایت کا ازالہ کرنے کی کوئی کوشش کرنے کے بجائے ان کا کہنا تھا کہ جب شکایت کنندہ اپنی برخاستگی کے خلاف "عدالت سے رجوع کرے گا تو دیکھا جائے گا"۔
ذِلتوں کے مارے لوگ
سیالکوٹ کے معروف ماہرِ قانون اور ماضی میں راجکو انڈسٹریز کے وکیل کے طور پر کام کرنے والے سید عبدالوحید بخاری بھی سمجھتے ہیں کہ اس فیکٹری میں مزدوروں کے حالاتِ کار اچھے نہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پریانتھا کمارا کی ہلاکت درحقیقت ان "مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نتیجہ ہے" کیونکہ "اگر مزدوروں کو درپیش مسائل کو مناسب انداز میں حل نہ کیا جائے تو پھر وہ اپنے غصے اور احساسِ محرومی کے اظہار کے لیے مذہب یا اسی طرح کے کسی حساس موضوع کا سہارا لیتے ہیں"۔
لاہور میں کام کرنے والی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر منتہا احمد ان کے اس موقف سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "ایک مزدور کی زندگی میں محرومی یا مایوسی کے احساسات کئی وجوہات سے جنم لیتے ہیں جن میں نوکری چلے جانے کا ڈر، گھر کے اخراجات پورے نہ کرپانے کا دباؤ اور نامناسب حالاتِ کار شامل ہیں"۔ ان کے مطابق "یہ احساسات دماغ کے اس حصے کو متاثر کرتے ہیں جس کا کام سوچنا ہوتا ہے"۔
ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ "تواتر کے ساتھ ان احساسات سے دوچار ہونے والے لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی خوشیوں کا دائرہ بہت محدود ہو گیا ہے جبکہ مراعات یافتہ طبقے کی خوشیوں کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے"۔ ایسی سوچیں ان میں ایک ایسا غصہ پیدا کرتی ہیں جو ان کے اندر ہی اندر پنپتا رہتا ہے اور پھر "جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر مگر ایک شدید انداز میں باہر نکل آتا ہے"۔
جب راجکو انڈسٹریز کے مزدوروں کا غصہ باہر نکلا تو اس کا نشانہ پریانتھا کمارا بن گئے جو خود اپنا گھر بار چھوڑ کر پرائے دیس میں کام کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر کی ہلاکت: کس نے کیا دیکھا، کس نے کیا کِیا؟
ان کا پورا نام دیاودانگے ڈان نندا سری پریانتھا کمارا تھا۔ ان کی عمر 49 سال تھی اور وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ بدھ مذہب کے پیروکار تھے اور ان کا آبائی گھر سری لنکا کے دارالحکومت سے 27 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع ایک قصبے میں ہے۔
سری لنکن حکومت اور صحافتی اداروں کی طرف سے آن لائن فراہم کی گئی معلومات کے مطابق انہوں نے 2005 میں سری لنکا کے شہر کینڈی کے قریب واقع یونیورسٹی آف پراڈینیا سے پروڈکشن انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اپریل 2010 میں ملازمت کرنے پاکستان آئے۔ تین سال بعد انہوں نے راجکو انڈسٹریز میں بطور جنرل منیجر کام کرنا شروع کیا۔
ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ نظم و ضبط کے بہت پابند تھے لیکن اپنے ماتحت ملازمین سے کام لینے کا ہنر بھی بخوبی جانتے تھے۔ راجکو انڈسٹریز سے تھوڑے فاصلے پر واقع رولیو نامی گاؤں کے رہنے والے ماسٹر اسرار احمد کا کہنا ہے کہ وہ چھ سال پہلے اس فیکٹری میں کام کر چکے ہیں لیکن اپنے دو سالہ دورِ ملازمت میں انہوں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ پریانتھا کمارا کسی مزدور کے ساتھ تلخی سے پیش آئے ہوں۔ اس کے برعکس "ان کا مزاج بہت نرم تھا اور وہ ہمیشہ مزدوروں کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے"۔
تاریخ اشاعت 27 دسمبر 2021